بہنوئی سے شادی سے انکار


ثنا بنت ظفر محمود آپ کو بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر معجل محمد حسن ولد محمد اکرم سے نکاح قبول ہے۔

ایک جامد خاموشی تھی جس میں ثنا اور اس کے ماں باپ اپنے دل کے دھڑکنے کی صدا سن رہے تھے، ثنا کی خاموشی پر حسن نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا، مفتی صاحب نے کچھ توقف کے بعد اپنے الفاظ دوبارہ دہرائے مگر ثنا پر ایک چپ طاری تھی

بولو بیٹا!
ماں نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسی اثنا میں مفتی صاحب اپنے الفاظ تیسری بار کہے

نہیں مفتی صاحب!
ثنا کی دلیر اور مضبوط آواز ابھری
مجھے یہ نکاح قبول نہیں ہے

ایک بجلی تھی جو کمرے میں باقی موجود لوگوں پہ گری، ظفر پر تو گویا سکتہ طاری ہو گیا
ارے! اگر بیٹی کی مرضی کہیں اور تھی تو ہمیں ذلیل کیوں کیا؟

حسن کی ماں کی پاٹ دار آواز گونج رہی تھی، حسن نے گلے میں پڑا پھولوں کا ہار نوچ کر ایک طرف پھینکا اور بڑھ کر ثنا کی ماں رابعہ کی گود سے اپنا تیرہ مہینے کا بیٹا گویا چھین لیا اور تیزی سے باہر کا رخ کیا اور اس کے پیچھے اس کا خاندان بھی نکل گیا، رابعہ نے زار و قطار روتے ہوئے ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر شوہر نے کاندھوں سے پکڑ کر روک لیا اور کرسی پر لا کر بٹھا دیا، پانی پلایا، کمرے میں اب ایک سناٹا تھا، ثنا اور اس سے چھوٹی بشریٰ کے آنسو ان کے گریباں بھگو رہے تھے۔

ظفر اور رابعہ کی فیملی ملک کی ہزاروں اپر مڈل کلاس ایجوکیٹڈ خاندانوں میں سے ایک تھی، تین خوبصورت اور قابل بیٹیوں کے ماں باپ تھے۔ سب سے بڑی بیٹی منیٰ ایم ایس سی کر رہی تھی اور اس کا ارادہ مستقبل میں سائنس دان بننے کا تھا، درمیان میں ثنا تھی جو میڈیکل میں تھی اور اس کا دوسرا سال تھا اور بشریٰ ابھی چھوٹی تھی اور ایک اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھتی تھی اور اس کا ارادہ آرکیٹیکٹ بننے کا تھا۔ تینوں بہنوں کے زندگی کے بارے میں بڑے بڑے ارادے تھے، انہیں آسمانوں کو چھونا تھا، معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے لئے بہت سا کام کرنا تھا اور سب سے بڑھ کر اپنے خوبصورت خوابوں میں قوس قزح کے رنگ بھرنا تھے مگر اس پرسکون خاندان کی زندگی میں پہلا کنکر منیٰ کے رشتے صورت میں گرا جو ظفر کے بڑے بھائی کی توسط سے آیا۔

حسن کا تعلق ایک خوشحال کاروباری فیملی سے تھا اور اس سے بڑی دو بہنیں شادی شدہ جبکہ ایک چھوٹا بھائی انگلینڈ میں پڑھ رہا تھا اور وہ خود امریکہ سے ڈگری لایا تھا اور اب اپنے والد کے بہت بڑے بزنس کو اگلے لیول پر لے کر جا رہا تھا، ہینڈسم، مہذب اور اعلیٰ اطوار کا مالک حسن کسی بھی فیملی کا خواب ہو سکتا تھا، سو اس رشتے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن منیٰ نے سنتے ہی ہنگامہ کھڑا کر دیا اور شادی سے صاف انکار کر دیا کیونکہ اس کے مستقبل کے خوابوں میں شادی کی کوئی جگہ نہیں تھی مگر ماں باپ نے ایک نہ سنی اور جب حسن پہلی بار گھر آیا تو اس سے نظریں چار ہوتے ہی منیٰ کے سارے اعتراضات ہوا میں اڑ گئے بلکہ وہ خود بھی ہوا میں اڑنے لگی۔

چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا اور ہنی مون کے دن گزرنے کے بعد کچھ دنوں میں ہی دلہن گھر کے ماحول میں رچ بس گئی، سسر بالکل بیٹیوں طرح چاہتے تھے، ساس بھی اچھی تھیں اور گھر کا مکمل کنٹرول ان کے ہاتھ میں تھا جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا، رہا حسن تو وہ پہلے دن سے منیٰ کے عشق کے میں گرفتار تھا مگر بیوی کا آخری سمیسٹر مکمل نہ کرا سکا حالانکہ یہ بات شادی سے پہلے طے تھی کہ سمیسٹر مکمل کر کے ڈگری لے لی جائے گی، وہی ساس جنہوں نے شادی سے پہلے ہر طرح سے اس کی یقین دہانی کرائی تھی، انھوں نے شادی کے بعد بہو کو صرف گھر میں دلچسپی لینے کو کہا اور تینوں بہنوں میں سب سے بولڈ منیٰ چوں بھی نہ کر سکی۔

”میں امی سے بحث نہیں کر سکتا بلکہ ابو بھی نہیں کر سکتے، ہمارے گھر میں امی کا کہا حرف آخر ہوتا ہے“

حسن نے قطعیت سے کہا اور ساتھ ہی منیٰ کے سامنے آنے والی زندگی کے شب و روز واضح ہو گئے۔ گھر میں ملازم موجود تھے مگر کھانا حسن کی امی خود پکاتی تھیں جب کہ ان کے گھر میں ہمیشہ صدیقہ بی کچن دیکھتی تھیں اور وہ اتنی ماہر تھیں کی رابعہ کو نگرانی کی بھی ضرورت نہ پڑتی تھی اور یہ تینوں بہنیں پڑھنے لکھنے میں مگن رہتی تھیں اور کبھی کبھار شغل میں بیکنگ وغیرہ کر لیتیں۔

شادی کے دو مہینے بعد خوشخبری بھی مل گئی تو دونوں گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر منیٰ کا برا حال تھا، پانی بھی ہضم نہ ہوتا تھا اور عجیب سے ہیلتھ ایشوز ہو رہے تھے، نندیں ہر وقت آتی جاتی رہتیں اور بھائی بھابی سے ہنسی مذاق کرتیں، فقرے کستیں اور کھا پی کر ”بچے ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں“ کہہ کر اپنے گھروں کی راہ لیتیں۔

ایک شام ظفر اور رابعہ لدے پھندے دونوں بیٹیوں کے ساتھ منیٰ کو ملنے آئے۔ مٹھائی، فروٹ، جوس کے ٹوکروں کے علاوہ ساری فیملی کے بے حد قیمتی کپڑے، ملازمین کے جوڑے اور منیٰ کے بے حد سٹائلش میٹرنٹی جوڑے تھے۔ ان کا استقبال حسب معمول تپاک سے ہوا، اور رات کے کھانے پر روک لیا گیا مگر میکے والوں کی تمام خوشی بیٹی کو دیکھ کر ہوا ہو گئی، اس کی کمزور شکل، پیلی رنگت اور ہونٹوں پر جمی پپڑی کوئی اور کہانی کہہ رہی تھی۔ ان دنوں میں تو لڑکیاں ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ پھول کی طرح کھلتی ہیں، ناز اٹھاتے شوہر کی والہانہ نظروں سے نظریں چراتی، گلابی ہوتی رنگت کے ساتھ آنچل سنبھالتی کسی اور دنیا کی لگتی ہیں مگر یہاں ایسی کوئی صورتحال نہ تھی اور حسن کی جہاں دیدہ ماں سمجھ گئی۔

”بھئی بہت سمجھایا ہے کہ کچھ انوکھا نہیں ہونے جا رہا، کھاؤ پیو تھوڑا کچن کو دیکھو اور خوش رہو، ارے کون سی نعمت ہے جو میسر نہیں، کسی فالتو کام بوجھ نہیں ہے، سوائے شوہر اور سسر کا صبح ناشتے کا کام دیکھنے اور ہاں رات تو کھانے پر بہت اہتمام ہوتا ہے ہمارے ہاں، جب مرد سارے دن کے بعد گھر آتے ہیں۔“

مگر حاضرین بالکل چپ تھے پھر منیٰ بھی ساس کے ساتھ کچن میں مدد کے لیے چلی گئی۔ وقت تیزی سے گزرا اور حسن اور منیٰ پیارے سے بیٹے کے ماں باپ بن گئے، بہت خوشی منائی گئی۔

زبیدہ (حسن کی امی) نے بہو کو سونے کا سیٹ، بیٹیوں کو کڑے اور حتیٰ کہ بہو کی بہنوں کو بھی انگوٹھیاں دیں، پچھلے مہینوں میں گھلی ہلکی سی تلخی کہیں غائب ہو گئی۔ حسن کا تو بس نہیں چلتا تھا بیوی اور بیٹے کو دل میں چھپا لے، اس نے ماں کی مخالفت کے باوجود بیوی کو دبئی کا ٹرپ کرایا، اتنے دن ننھا منا عیسٰی خالاؤں اور نانی نانا کی گود کھلونے کی طرح رہا۔ پریگنینسی کے دوران منیٰ کی صحت کافی گر گئی تھی اور پھر سی۔ سیکشن ہوا سو اب اس کا ارادہ خوب کھانے پینے اور صحت مند طرز زندگی اپنانے کا تھا کہ اس پر انکشاف ہوا کہ وہ پھر پریگننٹ ہے۔ عیسٰی ابھی تین مہینے کا بھی نہیں تھا، اس کا دل ڈوبنے لگا، اپنی سک نیس تو برداشت کر سکتی تھی مگر ساس کا درشت رویہ، ان کی عجیب و غریب پابندیاں اور اس دوران ہر بات کو ڈرامہ بازی کہنا، اپنی اور بیٹیوں کی مثال دینا، تکلیف دہ تھا۔

حسن ماں کی عقل و دانش پر اندھا یقین کرتا تھا۔ سب سے تکلیف دہ بات جو تھی وہ نو مہینے ماں باپ کے گھر نہیں جا پائی تھی کہ ماں کا سایہ اس پر نہ پڑے مبادا کہ وہ بھی لڑکیوں کی لائن لگا دے، بہر حال کیا ہو سکتا تھا، الٹیوں نے اس کو نیم جان کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ بچے کی دیکھ بھال، اس نے حسن کی منت کی کہ اس کو ماں کے گھر چھوڑ دے ورنہ کوئی آیا رکھ دے جو عیسٰی کو دیکھ لیا کرے۔

ماں کے کہنے پر ہی وہ اس کو میکے چھوڑ نے آیا تھا، وہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی، حسن کی بہت آؤ بھگت ہوئی اور پھر وہ اس وعدے کے ساتھ رخصت ہوا کہ ہر روز شام کو چکر لگائے گا اور اس نے بہت حد تک وعدہ نبھایا بھی تھا۔

دوسرا بیٹا بھی سی۔ سیکشن سے ہوا۔ منیٰ کو دو بوتل خون لگا جو ظفر اور ثنا نے دیا، اس کے باوجود اس کی حالت بمشکل سنبھلی تھی اور پھر جب ہسپتال سے فارغ ہونے سے پہلے ڈاکٹر نے کمرے میں آ کر دونوں خاندانوں کی موجودگی میں منیٰ اور حسن کو لمبا لیکچر دیا اور کہا کہ اگر وہ تیسرا بچہ چاہتے ہیں تو کم از کم تین سال کا وقفہ دیں لیکن مناسب ہے کہ دو بچوں پر اللہ کا شکر کریں اور یہ بات وہ منیٰ کی صحت کے ایشوز اور حمل کی پیچیدگی کی باعث کہہ رہی تھیں، اور وہ دونوں شرمندہ سے سر ہلاتے رہے، گو کہ زبیدہ بہت سیخ پا تھیں کہ بھلا اللہ کے کاموں میں انسان کا کیا دخل ہو سکتا ہے۔

دوسرے بیٹے کا نام موسٰی رکھا گیا اور اس کا عقیقہ بھی پہلے بیٹے کی طرح دھوم دھام سے ہوا مگر منیٰ کی صحت بہت بحال نہ تھی اور دو بالکل چھوٹے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ کچن کی ذمہ داری اٹھانا اس کے لیے ناممکن تھا۔ انہی دنوں میں بشریٰ اور ثنا ملنے آئیں اور بہن کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئیں، دونوں بچوں کے چلانے کی آواز نیچے ٹی وی لاؤنج میں آ رہی تھی، اس کی ساس ایک ملازمہ سے سر میں تیل کا مساج کرا رہی تھیں، ان کی چھوٹی بیٹی آئی ہوئی تھی، بڑی سی ٹرالی لوازمات سے لدی اس کے سامنے تھی۔ ان دونوں بہنوں کو دیکھ ایک سیکنڈ کے لیے وہ گڑبڑا گئیں، مگر سنبھل گئیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments