اپنا ہیرو سدپارہ سنز ہی کو بنائیں


لڑکیاں ڈرپوک ہوتی ہیں اور ان میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے، کیوں ہوتی ہیں اس کا جواب مرد و خواتین دونوں کے لیے ایک جیسا ہے۔ بنیادی فرق تربیت کا ہے۔ کبھی پارک میں جائیں تو بچوں کو ہر قسم کے جھولوں پر جانے کے لیے اکسایا جاتا ہے ، خاص طور پر وہ جو مشکل ہوں اور بچیوں کو یہ سب کرنے سے منع کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ بچپن میں دونوں کی طاقت اور جسمانی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے۔

لڑکیوں کو اسی ’محفوظ‘ ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اندر بہتر قوت فیصلہ پیدا نہیں ہوتی۔ بالکل یہی خامیاں ان لڑکوں میں بھی پیدا ہوتی ہیں جنہیں ہر قدم پر والدین کی ’رہنمائی‘ ملتی ہے اور چیلنجرز کا خود سے سامنا اور فیصلہ نہیں کرنے دیا جاتا۔

کیرولین پاؤل ایک مشہور رائٹر اور کمال کی سپیکر ہے۔ اس کی ایک ٹاک ہے جو میں نے 2017 میں سنی تھی۔ شاید ہی کسی کتاب، تقریر یا کسی نصیحت نے مجھ پر اتنا اثر کیا ہو جتنا اس 17 منٹ کی تقریر  نے۔ کیرولین کہتی ہے کہ بہادری ایک مہارت ہے جسے مشق کے ذریعے آپ سیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ ایڈونچر کریں گے اتنا بہتر ہوتے جائیں گے۔ اور یہ وہ مہارت ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو کام دے گی۔ کیونکہ آپ کے اندر جدوجہد کرنے کا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ بنتا ہے اور یہی مائنڈ سیٹ آپ کو زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ذاتی طور ہائیکنگ، رننگ اور ٹریکنگ کی مہمات سے میں نے بہت کچھ سیکھا، بہت زیادہ۔ سب سے اہم چیز یہ کہ جب آپ تھک جائیں اور واپس چلے جانا بہت آسان اور واحد آپشن لگے،  اس وقت آدمی اپنا رخ منزل کی طرف رکھے۔ ہمیشہ کوشش کی اپنے بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ اس معاملے میں ایک جیسا سلوک ہو اور انہیں بھی ان ایڈونچر ٹرپس پر مشکلوں کو جھیلنے پر اکسایا جائے۔

Caroline powell

کسی اپنے تئیں دانشور نے اگلے دن لکھا کہ بعض لوگ یہ مشکل پہاڑوں پر جانے جیسے ایڈونچرز اس لیے بھی کرتے ہیں کیونکہ اس سارے عمل میں ان کا جسم adrenaline خارج کرتا ہے جو ان کو سرور کی کیفیت دیتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ ہارمون کا کیا نام ہے لیکن یہ کام انسان کے اندر زیادہ خوداعتمادی پیدا کرتا ہے اور ہر شعبۂ زندگی میں بہتر فیصلہ کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ کبھی بیٹھ کر اپنی زندگی کے 10 خوشگوار ترین لمحات کو یاد کریں ، ان میں سے کم سے کم آدھے ایسے ہی کوئی نہ کوئی ایڈونچر ٹرپس ہوں گے۔

اب آ جائیں اس معاملے کی طرف کہ قدرتی طور پر ہر انسان بہادر نہیں ہوتا،  ان میں سے مورثیت، ماحول دو بڑی وجوہات ہیں۔ آج کے جدید دور میں بہادری سیکھنی اور اس کی پریکٹس کرنی ہے تو آپ جنگ یا لڑائی نہیں کر سکتے ، آپ کے پاس بہترین آپشنز یہی پہاڑی مہمات ہیں۔

کے۔ٹو بلاشبہ ایک قاتل پہاڑ ہے ، جسے سر کرنے لیے مہارت، بہت سی ٹریننگ اور اچھا خاصا پیسہ درکار ہے۔ لیکن کیا ایڈونچر صرف وہیں ہو سکتا ہے۔۔۔؟  بالکل نہیں۔

پاکستان اونچے پہاڑوں سے بھرا پڑا ہے۔ اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق سلسلہ منتخب کریں اور آہستہ اہستہ اس کو بہتر کرتے جائیں۔ اگر بالکل نئے ہیں تو 2000 میٹر سے کم مارگلہ ہلز پر جائیں، کچھ بہتر ہیں تو گلیات کو ٹرائی کریں، میرن جانی گلیات سلسلے کا سب سے اونچا پہاڑ ہے ، اندازاً 2900 میٹر۔ اسی طرح تین ہزار میٹر سے چار ہزار میٹر کے درمیان بھی بہت سے اچھے آپشن ہو سکتے ہیں جیسے مکڑا اور گنگا چوٹی وغیرہ وغیرہ۔

اب ان مہمات پر جانے میں کوئی بھی لائف رسک نہیں لیکن جب آپ ان کو سر کرتے ہیں ، آپ کو کچھ حاصل کیے جانے کا بہت اچھا احساس ہوتا ہے، کامیابی اور کچھ پا لینے کا احساس۔

ہاں، یہ ضرور ہے کہ ”موت“ کو گلوریفائی نہیں کرنا چاہیے یہ انسانی (یا معاشرے کی سطح پر) ایک منفی احساس پیدا کرتی ہے۔ اموات ہوتی رہتی ہیں ، لوگ مرتے رہتے ہیں۔ جانے والے کو بھی پتہ تھا کے۔ ٹو پر موت کی شرح 25 فیصد ہے اور سردیوں میں تو شاید اس سے بھی زیادہ۔

اس لیے اپنا ہیرو سدپارہ سنز کو ہی بنائیں، انہیں کاپی کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً برف میں 2900 میٹر کی میرنجانی سر کرنا بھی آپ کو ایک چھوٹا موٹا سدپارہ بننے کا احساس دے سکتا ہے ، کسی رسک کے بغیر۔ بچوں خاص طور پر بچیوں کے لیے یہ سب کچھ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ان کے اندر بہتر قوت فیصلہ اور مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments