ویڈیو اسکینڈل اور استعفیٰ: شفاف سیاست یا سیاسی بازی گری


چند ہفتے پہلےجس بات کا شبہ تھا، اب وہ یقین میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عمران خان کو خوف ہے کہ سینیٹ کے متوقع انتخابات میں ان کی اپنی ہی پارٹی کے ارکان ان کے نامزد کردہ امید واروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس طرح اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے لئے اکثریت کے بل بوتے پر آئیندہ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی بننے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔

ویڈیو اسکینڈل، خیبر پختون خوا کے وزیر قانون سلطان محمود خان کا استعفیٰ، عمران خان کے ’گرما گرم‘ ٹوئٹس اور وزیروں کے پرجوش بیانات دراصل اسی خوف کا اظہار ہیں۔ سینیٹ میں اوپن ووٹنگ کے ذریعے رائے دہی کے بارے میں عمران خان کی تگ و دو جوں جوں ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے، اسی رفتار سے حکومت اور تحریک انصاف کی بدحواسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر قانون سلطان محمود خان نے وزیر اعظم کی ہدایت پر استعفیٰ پیش کردیا ہے۔ البتہ اس سے پہلے تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو نشر کی گئی جس میں سلطان خان سمیت متعدد ارکان اسمبلی نوٹوں کے بنڈل سمیٹ رہے ہیں۔ یہ ویڈیو سامنے آنے کے فوری بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وزیر اعظم نے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو وزیر قانون سے استعفیٰ لینے کا حکم دیا ہے۔

بے قاعدگی پر کسی وزیر کا استعفیٰ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے خود ہی اپنے وزیر کے خلاف ’مقدمہ تیار ‘ کرکے اس کااعلان کرنا، پھر متعلقہ شخص سے استعفیٰ طلب کرکے دیانت داری اور شفافیت کا علم بلند کرنا ضرور ایک دلچسپ اور انہونا واقعہ ہے۔ جس ویڈیو کے سامنے آنے پر سلطان خان سے استعفیٰ لیا گیا ہے، وہ 2018 میں سینیٹ انتخابات سے پہلے بنائی گئی تھی۔ یہ ویڈیو چونکہ پاکستان تحریک انصاف نے جاری کی ہے اس لئے سب سے پہلے یہ سوال پوچھنا اہم ہے کہ پارٹی کو یہ ویڈیو کیسے دستیاب ہوئی۔ اگر یہ ویڈیو پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کو ناکام کرنے کے لئے رقم تقسیم کرتے ہوئے بنائی گئی تھی تو خود اسی پارٹی کے پاس یہ ویڈیو کیسے پہنچی۔ پھر اسے ٹوئٹ کے ذریعے نشر کرنے اور اس پر سیاسی ہنگامہ آرائی کرنے کی بجائے، پارٹی نے اپنے پارٹی کلچر کی اصلاح یا اپنی صفوں میں پائے جانے والے مجرمانہ فعل میں ملوث لوگوں کے خلاف کیا اقدام کیا۔ کیا وجہ ہے کہ ویڈیو پہلے نشر ہوتی ہے اور وزیر اعظم اس کے بعد استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گویا پارٹی کی اصلاح، شفافیت کو یقینی بنانا یا ملکی انتخابی طریقہ کار میں بدعنوان ہتھکنڈوں کا خاتمہ مطلوب نہیں تھا بلکہ سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی کے مطابق متعلقہ طریقہ کار کو تبدیل کروانا اہم سمجھا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے اگر ایک صوبائی وزیر کی قربانی دے کر سیاسی شہرت حاصل کی جاسکتی ہو یا سپریم کورٹ پر دباؤ میں اضافہ کیا جاسکتا ہو تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

کابینہ کے فیصلہ کے بعد صدر عارف علوی نے دو روز پہلے ایک آرڈی ننس جاری کیا تھا جس میں انتخابی قواعد میں تبدیلی کے ذریعے ایک آئینی شق میں درج طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا حکم جاری ہؤا ہے۔ یعنی اس آرڈی ننس کے تحت سینیٹ انتخاب کا جو طریقہ وضع ہوگا، اس میں الیکشن کمیشن یہ انتخاب اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کا پابند ہوگا۔ کسی آئینی حکم کو ایک قانون بلکہ آرڈی ننس کے ذریعے تبدیل کرنے کی یہ کوشش بھی تاریخی نظیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ اس نے سپریم کورٹ میں اس حوالے سے جو ریفرنس دائر کیا ہے، اس پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ وہی مشورہ فراہم کرے گی جس کا تقاضہ حکومت کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ یعنی اس قانونی فہم کی تصدیق کی جائے گی کہ سینیٹ انتخاب کا طریقہ تبدیل کرنے کے لئے آئین کی شق 226 میں ترمیم ضروری نہیں ہے بلکہ یہ کام صرف ایک قانون کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ مقصد ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے پہلے ہی حاصل کرلیا گیا ہے۔ بس اب چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے مثبت اشارے کا انتظار ہے۔

پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری واضح کرچکے ہیں کہ حکومت کا یہ طریقہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے دیگر سینیٹرز کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک میں آئینی بحران پیدا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اب اس آرڈی ننس کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی ہے۔ یہ بات البتہ واضح ہے اور آرڈی ننس میں بھی درج ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا مشورہ حکومتی تجویز کے برعکس ہؤا تو یہ آرڈی ننس کالعدم تصور ہوگا۔ تاہم 2018 میں سینیٹ انتخاب کے موقع پر بننے والی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم اور حکومت نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اسے ملک میں سیاسی بدعنوانی کے بھیانک کلچر کا سیاہ پہلو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اگر ریفرنس کے معاملہ میں سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا نہیں ہے تو بھی یقینی طور سے یہ سپریم کورٹ کے سامنے اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کی ایک سرتوڑ اور شدید کوشش ضرور ہے۔ ویڈیو کی تشہیر اور اس پر تابڑ توڑ بیانات کے ذریعے سپریم کورٹ کو بالواسطہ طور سے یہ باور کروایا گیا ہے کہ اگر اس نے اس وقت بدعنوانی کے اس کلچر کو ختم کرنے کے لئے حکومت کا ساتھ نہ دیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔

اس دیر کا تعلق ملک میں شفاف سیاست سے ہے یا نہیں البتہ اس کا تعلق عمران خان کی اس شدید خواہش سے ضرور ہے کہ اگلے ماہ سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں میں سے تحریک انصاف زیادہ سیٹیں جیت کر سینیٹ کی بھی سب سے بڑی پارٹی بن جائے اور اپوزیشن کی بالادستی ختم کی جائے۔ عمران خان کی یہ خواہش بھی ہے کہ ان کے نامزد کردہ امید وار ہی سینیٹر منتخب ہوکر سامنے آئیں۔ وہ اس معاملہ میں پارٹی ارکان کی رائے اور مرضی و خواہش کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے حلقوں میں سینیٹ امیدواروں کے بارے میں عمران خان کی پسند پر تحفظات پائے جاتے ہیں اور یہ اندیشہ ہے کہ موجودہ طریقہ انتخاب کے تحت پارٹی کے متعدد ارکان اسمبلی ’بغاوت‘ کرتے ہوئے پارٹی لائن کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔ اس طرح وزیر اعظم کے پسندیدہ لوگوں کا سینیٹ کی سیٹ حاصل کرنے کا راستہ مسدود ہوسکتا ہے اور پارٹی کو سیاسی شرمندگی بھی سمیٹنا پڑے گی۔ اب یہ خوف کسی ہیولے کی مانند ہمہ وقت عمران خان کا پیچھا کررہا ہے اور ان کے برزجمہر روزانہ کی بنیاد پر اس مشکل سے نکلنے کے لئے کوئی نیا ہتھکنڈا آزمانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن کے وقت ’مالی لین دین‘ کی ویڈیو کی ریلیز اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ سلسلہ سپریم کورٹ کا جواب آنے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

آج سامنے آنے والی ویڈیو کی اشاعت اور اس کے مواد کے بارے میں کئی مؤقف سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ویڈیو اگر تحریک انصاف کے پاس 2018 سے موجود تھی تو اسے اب جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ یا زیادہ اآسان الفاظ میں یہ سوال یوں پوچھا جانا چاہئے کہ اگر پارٹی قیادت کو ایک بدعنوانی کا علم چار برس سے ہے تو اس کے ثبوت چھپا کر کیوں رکھے گئے۔ انہیں کسی قانونی فورم میں پیش کرکےمتعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اس معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ مستعفی ہونے والے وزیر سلطان خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ اس ویڈیو میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں ان سے ملتے جلتے جثہ کا کوئی دوسرا شخص ہے۔ یعنی اڑھائی برس تک تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر رہنے والے شخص کی بات تسلیم کرنے کی بجائے اسے یہ بتایا جا رہا ہے کہ نہیں وہ خود کو نہیں پہچانتا لیکن عمران خان اور ان کے عقابی مشیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اس بدعنوانی میں شامل تھا۔ اس صورت میں پوچھا جا سکتا ہے کہ سلطان خان کے علاوہ اور کتنے وزیر تحریک انصاف کی مرکزی یا صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں جو بے ایمانی بھی کرتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہوئے ’اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی انکوائری کے لیے پیش بھی کرتے ہیں اور اس یقین کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان پر لگے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوں گے‘۔

ویڈیو اور سینیٹ انتخاب میں ووٹوں کے لئے نوٹوں کے لین دین کے حوالے سے ایک مؤقف تو وزیر اعظم کا ہے تو دوسرا مؤقف سابق رکن اسمبلی عبید مایار کا ہے جو خود بھی اس ویڈیو میں موجود ہیں۔ انہوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہاں میں نے یہ رقم لی تھی اور یہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں وزیر اعلیٰ اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے حکم پر دی گئی تھی۔ جس کمرے میں یہ رقم دی جا رہی تھی، وہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں سپیکر کا کمرہ تھا‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’یہ رقم سب اراکین اسمبلی کو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دی گئی تھی۔ یہ رقم انہوں نے مانگی نہیں تھی بلکہ انہیں خود ہی دی گئی تھی تاکہ سینیٹ کے پارٹی امیدوار کو ووٹ دیں‘۔ اس مؤقف کو کسی تحقیق اور ثبوت کے بغیر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ 2018 میں سینیٹ انتخاب میں رشوت لینے کے معاملہ میں تحریک انصاف کے ارکان کی تحقیقات کسی غیر جانبدار اور بااثر ادارے کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومتیں اس معاملہ میں فریق کی حیثیت رکھتی ہیں۔

یہ تو وقت بتائے گا کہ سینیٹ انتخاب میں روپے کا لین دین کتنا سنگین مسئلہ رہا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس معاملہ پر تحریک انصاف کی بےچینی شفافیت سے زیادہ سیاسی دباؤ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کو یہ اعتراف بھی کرلینا چاہئے کہ سیاسی بدعنوانی روپے لے کر پارٹی لائن کے برعکس ووٹ دینے ہی کا نام نہیں ہے۔ تحریک انصاف سمیت جب کوئی بھی سیاسی پارٹی صرف حصول اقتدار کے لئے دوسری پارٹیوں کے بدنام زمانہ لوگوں کو شامل کرکے انہیں عہدوں سے سرفراز کرتی ہے، تو وہی اصل سیاسی بددیانتی ہوتی۔ جب تک یہ عناصر پاکستانی سیاست میں سرخرو رہیں گے، دشنام طرازی اور الزام تراشی سے سیاسی کلچر صاف کرنا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments