کوھستان: داسو ڈیم کے ملازمین اور مظاہرین پر تشدد کے الزام میں رینجر اہلکاروں پر مقدمہ


رینجرز
سابق ناظم محمد افضل کا کہنا تھا کہ ان ڈیموں کی حفاظت کے لیے کسی پیرا ملڑی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوھستان کے ہیڈ کوارٹر داسو کے تھانہ داسو میں نامعلوم ریجنرز اہلکاروں پر داسو ڈیم کے ملازمین اور وہاں موجود مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور فائرنگ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ دریں اثنا ہزارہ ڈویژن میں حکام کے مطابق دو قبائل کے درمیان جھگڑے میں ریجرز نے اہنے دفاع میں گولی چلائی۔

مقامی پولیس کے مطابق بدھ کو حالات میں کنٹرول میں ہیں اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔

داسو ہسپتال ایمرجنسی میں پولیس کو دیے گئے بیان میں تھانہ داسو میں درج ہونے والے مقدمے کے مدعی محمد یوسف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ رینجرز کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ جان لینے کے ارادے سے کی گئی۔

ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ‘میں 9 فروری کو اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا کہ اچانک شور شرابہ اور فائرنگ کی آواز سن کر کمرے سے باہر نکلا تو کافی تعداد میں لوگ بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ رینجرز اہلکار ان پر با ارادہ قتل فائرنگ کر رہے تھے۔’

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ‘(رینجرز) کی فائرنگ سے میری ران اور ہاتھ کی چھوٹی انگلی زخمی ہوئی اور میں زخمی ہو کر گر گیا تھا۔ میرے ساتھ موجود میرے ساتھی بھی زخمی ہوئے ہیں۔‘

مدعی کے مطابق یہ رینجرز اہلکار تعداد میں آٹھ دس تھے۔ جنہیں وہ سامنے آنے پر شناخت کرسکتے ہیں۔

کوھستان پولیس کے ایس پی عارف جاوید کے مطابق پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی ہے۔

جھگڑا مقامی قبائل کے درمیان تھا، رینجرز الکاروں نے دفاع میں گولی چلائی

اس واقعے کے بارے میں فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر، وزارت داخلہ اور واپڈا نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے البتہ ہزارہ ڈویژن کے کمشنر کے مطابق مشتعل ہجوم سے واپڈا کی حساس تنصیبات کو خطرہ تھا اور وہاں پر غیر ملکی بھی موجود تھے۔

کمشنر کے مطابق مظاہرین کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے گے تھے مگر اس کے باوجود مظاہرین مشتعل ہورہے تھے جس بناء پر پیرا ملڑی فورس کو انتہائی قدم پر مجبور ہونا پڑا۔

بعض دیگر سرکاری حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر جھگڑا دو مقامی قبائل کے درمیان ہوا اور موقع پر موجود رینجرز اہلکاروں نے بیچ بچاؤ کروانے کی کوشش کی اور اس دوران بعض افراد نے ریجرز اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔ حکام کے مطابق رینجرز اہلکاروں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔

یہ بھی پڑھیے

مزدوروں کی ہلاکت، داسو ڈیم کی تعمیرعارضی طور پربند

’دنیا کی سب سے بڑی غلطی کی، واپسی سے خوف آ رہا ہے‘

زخمیوں اور عینی شاہدین کے بیانات

ایک زخمی صغیر خان نے بتایا کہ میں داسو ڈیم دفتر میں کام حاصل کرنے کے لیے گیا تھا۔ ‘ہم تقریباً پانچ لوگ ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس موقع پر رینجرز نے اچانک فائرنگ شروع کردی ہے اور وہاں لڑائی شروع ہوگئی تھی۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘مجھے رینجرز والوں نے بندوق کے بٹ سے کمر اور سر پر مارا ہے۔ جہاں پر مجھے شدید زخم آئے ہیں۔ میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ میرا بھتیجا مدد کے لیے آیا تو اس کے سر پر گولی لگی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ایک بھائی بھی زخمی ہوا ہے۔ جسے سر پر کسی چیز کے وار سے چوٹ لگی ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکار کی فائرنگ سے افراتفری مچ گئی تھی۔

فائل فوٹو

داسو ڈیم کا ٹھیکہ چینی کمپنی کے پاس ہے۔ فائل فوٹو

کوھستانیوں کی شکایت کیا ہے؟

اپر کوھستان کے سابق تحصیل ناظم ملک نور ولی شاہ کا کہنا تھا کہ کوھستان میں اس وقت دو ڈیم زیر تعمیر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان ڈیموں کی تعمیر کے لیے کوھستانی لوگوں نے بہت زیادہ قربانی دی ہے، ہم نے اپنی آباؤ اجداد کی قبریں منتقل کی ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کے موقع پر وعدہ کیا گیا تھا کہ کوھستانیوں کو ملازمتیں دی جائیں گئیں۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ جس پر کوھستانی باشندوں نے گزشتہ روز اپنے حق کے لیے احتجاج کیا۔ جس پر رینجرز اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بعد میں احتجاج ہوا۔ لوگوں نے شاہراہ قراقرم کو بند کردیا تھا۔ جس پر انتظامیہ نے وعدہ کیا کہ وہ مقدمہ درج کرائے گی۔ مگر مقدمہ نامعلوم رنیجرز اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا ہے جو ہمیں قبول نہیں ہے۔ ‘

سابق تحصیل ناظم ملک نور ولی شاہ کا کہنا تھا کہ ‘بدھ کے روز ڈی سی کے دفتر میں ہمارا جرگہ ہوا ہے۔ اس جرگہ میں ہم نے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ لوگوں پر فائرنگ کرنے والوں کے نام پر مقدمہ کیوں درج نہیں ہوا۔’

ایس پی عارف جاوید کے مطابق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پولیس یا انتظامیہ نے مقدمہ درج نہیں کیا ہے بلکہ جو درخواست اور بیان زخمیوں نے دیا ہے اس کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘تفتیش کی جا رہی ہے اور جو بھی قانون کے مطابق کارروائی ہوگی پولیس اور انتظامیہ وہ عمل میں لائے گی۔ ‘

داسو یونین کونسل کے سابق ناظم محمد افضل کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا مطالبہ بڑا واضح ہے۔ ان ڈیموں کی حفاظت کے لیے کسی پیرا ملڑی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔ کوھستانی پر امن لوگ ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے لیے قربانی دی ہے۔ واپڈا اور حکومت ہمیں ہمارا حق نہیں دے رہی تو اس پر احتجاج ہمارا حق ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا مطالبہ واضح اور دو ٹوک ہے کہ ڈیموں کی تعمیر اور بعد میں ملازمتوں میں ہمارا حق دیا جائے۔‘

ایس پی عارف جاوید کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز مظاہرے ہوئے تھے مگر آج بدھ کے روز صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔

پولیس نے ڈیم پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ شہر میں ایف سی اور پولیس کے دستے فلیگ مارچ کر رہے ہیں۔ صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے اور شاہراہ قراقرم پر ٹریفک چل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp