نماز کہاں پڑھتے ہو؟ وہ مسجد تو ہماری نہیں ہے


نماز۔ نماز کہاں پڑھتے ہو؟
مرکزی مسجد میں کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟
وہ مسجد تو ہماری نہیں ہے۔ وہاں نزدیک ہماری مسجد نہیں ہے؟
ہماری مسجد؟ ہماری مسجد کون سی؟
میرا مطلب بریلوی مسلک کی مسجد اور کون سی؟

میں جو یہ سوچ رہا تھا کہ ہماری مسجد تو ایک ہی ہوتی ہے اور وہ اللہ کا گھر ہوتی ہے۔ بچپن سے ہمیں یہی کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج ہم ہماری، تمہاری اور ان کی مسجدوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔

لاہور میں ایک دفعہ مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو مسجد کے گیٹ کے اوپر نصب سفید رنگ کے سنگ مرمر کی ٹائلوں پر ’’مکتب فکر اہلسنت (بریلوی ) ‘‘ سنہری حروف میں لکھا ہوا تھا۔ شعور کی آنکھ نے کہا کہ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ امیر کے گھر کے باہر تختی پر ذات پات کے ساتھ سیٹھ کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے۔

اب گیٹ کے باہر نام لکھنے سے مسجد تو ایک فرقے سے منسلک ہو گئی۔ باقی مکاتب فکر کے لوگ کہاں جائیں گے؟ میں اسی کشمش میں تھا کہ اوپر ہونے والے مکالمے میں جس مرکزی مسجد کا ذکر ہو رہا ہے، وہ دوسرے مکتب فکر کی ہے جسے دیوبند کہا جاتا ہے۔

آہستہ آہستہ میں نے محسوس کیا کہ اسی طرح ہر فرقہ مسجد کے باہر اپنا تعارف لکھ کر جدا حیثیت بنا لیتا ہے، جس سے وہ مسجد بھی فرقوں کی طرح تقسیم ہو جاتی ہے۔ اہل تشیع تو مسجد کو مسجد کی بجائے امام بارگاہ کہہ کر اپنی جدا حیثیت بنا لیتے ہیں۔ میں سوچا کرتا تھا کہ سب کی فکر الگ الگ ہے،  فروعی اختلاف ہے لیکن آج معلوم ہوا اختلاف رائے کو فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔

یہ سب دیکھنے کے بعد میں وہ رسی ڈھونڈ رہا تھا جسے اللہ نے تھامنے کے لئے کہا ہے اور فرقوں میں بٹنے سے منع کیا ہے۔ لیکن ایسے میں میری نظر ان مکاتب فکر کے علماء کرام اور پیروکاروں پر پڑی جن کے حلیے سے ان کے فرقے کا پتا معلوم ہوتا ہے۔ داڑھی شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مکتب فکر کے رکھنے کا انداز مختلف ہے۔ لمبی لمبی داڑھی والے الگ، ایک مشت رکھنے والے اور دور سے نظر آنے والی مونچھوں والے الگ، ایک مشت داڑھی شریف اور مونچھوں پر بلیڈ پھیرنے والے الگ، چھوٹی چھوٹی داڑھی والے الگ، اور تو اور عمامہ شریف اور ٹوپی پہننے کا انداز بھی تمام مکاتب فکر میں الگ الگ ہے۔

اب میرے جیسا ایک عام انسان کہاں جائے ، وہ کیا کرے؟ کس دیوار میں سر مارے؟سارے کہتے ہیں ہم جنتی ہیں باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ مجھے پہلے پہل لگتا تھا کہ اختلاف رائے ہے اور کچھ نہیں لیکن یہاں تو مساجد الگ ، حلیہ الگ اور تو اور نمازوں کے اوقات کار میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ اذانیں ایک وقت پر نہیں دے سکتے۔ اسے میں کس منہ سے اختلاف رائے کہوں؟ نفرتیں پائی جاتی ہیں ، بعض دکانیں بھی دکاندار کے فرقے سے منسلک نظر آتی ہیں۔ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو دکان کے باہر کسی بابے بزرگ کی تصویر دیکھ کر یا تبلیغی جماعت کا لوگو دیکھ کر ہی سودا سلف لیتے ہیں۔

ان سب اختلافات اور سوالات نے مجھے قرآن سے رجوع کرنے پر مجبور کیا کہ آیا ایسی کوئی بات قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ قرآن کی سورہ انعام کی آیات نمبر 159 میں بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ سے مخاطب ہیں کہ ”بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے ، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے ، پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے“

یہ آیت پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رسی ایک ہے۔ وہ تقسیم نہیں ہو سکتی۔ دین اسلام ایک ہے۔ اسے فرقوں میں بانٹا گیا ہے۔ اسلام کا ان فرقوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو گمراہ کن راستے ہیں۔

گمراہی نے ہی تو خدا کی مخلوق کو تقسیم کیا ہے۔ ہم آج مسلمانوں نے چند لوگوں کے انداز فکر کو بنیاد بنا کر ان کے نام سے فرقے بنا ڈالے۔ حالانکہ سوچنے کا انداز ایک الگ عمل ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں لیکن اس سوچنے کے عمل کو ہی ”دین“ بنا دینا ، یہ طریقہ ہم نے ایجاد کیا ہے جس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

ایک مولوی صاحب کہنے لگے فلاں فرقے سے سلام لینا بھی حرام ہے۔ ان کے پاس ایک کتاب کا حوالہ بھی تھا۔ اب کہا جاتا ہے کہ جی حضور اکرم ﷺ نے کہا تھا تہتر فرقے بنیں گے تو وہ بنیں گے۔ اس کا مطلب قیامت کی نشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے حوالوں میں بہت سے غیبی خبریں دی گئی ہیں تو کیا ہم جان بوجھ کر انہیں سچا ثابت کرنے لگ جائیں مثلاً ایک جگہ عورت کے تنگ اور باریک لباس کا ذکر ہے کہ وہ قیامت کے نزدیک ایسا لباس پہنے گی تو کیا ہم یہ کرنا شروع کر دیں؟

میں اس سب کچھ سے نکلنا چاہتا تھا۔ عقل اور شعور اگر اللہ کی ذات نے عطا کیا ہے تو ہمیں غلط فہمیوں سے نکل کر درست سمت میں چلنا چاہیے۔ ہم اسلام کی تعلیمات پر چلیں جس کا بنیادی پیغام ہے کہ ایک جماعت بن کر رہو، فرقوں میں نہ بٹ جاؤ۔ لیکن آج پھر ایک جگہ پوچھا گیا کہ کون ہو؟ میں نے کہا مسلمان ہوں۔ کہنے لگے نہیں مسلمان تو ہو آگے کیا ہو؟ مطلب فرقہ، مسلک؟ کس سے تعلق رکھتے ہو؟ یہ سوالات دل میں نوک دار کیل کی طرح چبھنے لگے کہ ہمیں اپنے تعارف کے لئے لفظ ”مسلمان“ کیوں کافی نہیں لگتا؟ ہم وہ چیز کیوں جاننا چاہتے ہیں جس کا اسلام میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ ہم نے خود کو اسلام اور اپنی اصل پہچان سے الگ کر کہ خزاں کے پتوں کی طرح تقسیم کر لیا ہے ، ہم میں سے ہر ایک کی سمت مختلف ہے۔

ہم اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کی بجائے اپنے اپنے مکاتب فکر کو سچا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اعمال صرف نیت کی حد تک لیکن اپنے فرقے کا دفاع کرنا لوگوں نے لازم کر لیا ہے۔ کیونکہ اختلاف رائے سننا انہیں فرقے کی توہین محسوس ہوتی ہے۔ سب ہی اپنے اپنے طور پر جنت کے منشی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن قرآن کی روشنی میں سب ایک دوسرے کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔آج کا مسلم تدبر کرتے کرتے پتہ نہیں کہاں نکل گیا کہ آج دو سوال ایک ساتھ ہی پوچھے جا رہے ہیں کہ ”میں کون ہوں اور کیا ہوں“

سوال سن کر اوپر والے الفاظ دہرائے کہ ”کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟“ جواب بھی خود کو خود ہی دے رہا تھا کہ اگر یہ تدبر کرتے تو سنی سنائی باتوں کو تسلیم نہ کرتے۔ اختلاف رائے کو سنتے اور تحقیق، سوچ، فکر اور تدبر سے کام لے کر قرآن اور سنت کو ہی اصل دین سمجھ کر باقی سے اختلاف کا حق بچا کر رکھتے ۔۔۔ لیکن ہم نے کبھی سوچا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments