بابا جی، صدقہ اور دو نابینا فقیر



”جو بھی صدقہ دینا ہے صرف نابینا کو دینا ہے اور اس سے دو باتیں پوچھ کر دینا ہے“
1۔ کیا آپ صدقہ لوگے؟
2۔ اگر لو گے تو یہ میری تمام مشکلات اور بلاؤں کا صدقہ ہے۔ کیا آپ کو قبول ہے؟

یہ ایک مشکل کام لگا مگر میں نے وعدہ کر لیا کہ ایسا ضرور کروں گا۔
انشاء اللہ
’’اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تمہیں نامراد نہیں کرے گا۔‘‘

یہ وہ گفتگو تھی جو میری اس اجنبی بابے سے ٹیلی فون پر ہوئی۔ میں ان سے پہلے ملا تھا نہ آج تک مل پایا۔ میرے ایک دوست نے ان سے میرا مسئلہ ڈسکس کیا اور ہمارا رابطہ کروا دیا۔ میری ان سے ٹیلی فون پر صرف تین بار ملاقات ہوئی یا تین بار رابطہ ہوا۔

پہلی بار جب انہوں نے مجھے یہ سب کچھ کہا۔
دوسری بار جب میں نے ان کی شرائط کے مطابق صدقہ دے دیا۔
تیسری بار جب اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی۔
بابا نے مجھے کچھ نہیں دیا، صرف اللہ کے قریب ترین کر دیا۔

انہوں نے مجھے صدقہ دینے کی ترغیب دی۔ اس تاکید کے ساتھ کہ صدقہ صرف یہ سوچ کر دینا کہ اللہ تعالیٰ صدقہ دینے سے مشکلات آسانیوں میں بدل دیتا ہے۔ کہیں شرک کا شائبہ بھی نہیں کہ باباجی نے مجھے کچھ دیا ہے۔

نابینا اشخاص ملنے کی کہانی بڑی ہی دلچسپ ہے۔ جب اللہ مدد فرماتا ہے تو ساری رکاوٹیں نشان منزل بن جایا کرتی ہیں۔

میں ایک دن قبرستان سے دعا کرنے کے بعد اس کی قبر سے تھوڑی دور ہی آیا ہوں گا کہ ایک چھوٹی سی عمارت پر مجھے سفید داڑھی والا ایک شخص نظر آیا۔ اس عمارت کے اندر دراصل ایک پکی قبر تھی۔ ایسا محسوس ہوا تھکا ماندہ وہ شخص آرام کر رہا تھا اور وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے لگا وہ نابینا ہے۔

میں اس کے پاس چلا گیا، وہ پکی عمر کے بابا جی تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ان سے ہاتھ ملایا تو یقین ہوا وہ واقعی نابینا تھے۔ میں نے ان کے بہت قریب ہو کر ان سے پوچھا ”آپ صدقہ لے لیتے ہیں؟“ کہنے لگے ہاں لے لوں گا۔

مجھے ٹیلی فون والے بابا کی دوسری بات یاد آ گئی۔ میں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے، ان کے ہاتھ پہ رکھ کر اپنا پیغام دیا اور سلام کر کے واپس اٹھ آیا۔ میں ابھی قبرستان کے باہر ہی کھڑا تھا تو دو لڑکے آئے اور بابا جی کو لے کر چلے گئے۔

میں اس واقعے سے پہلے اور بعد میں کئی بار قبرستان گیا ہوں، باباجی نہ تو کبھی اس سے پہلے نظر آئے اور نہ کبھی اس کے بعد ۔

دوسرا واقعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں!

میں اپنے آبائی علاقے ظفر آباد، جہانیاں، منڈی، ضلع خانیوال گیا ہوا تھا ۔ اباجی (سید ابراہیم شاہ رحمہ اللہ علیہ) اور امی جان کی وفات کے بعد گھر بند تھا۔ میں کچھ افراد خانہ کے ساتھ وہاں تھا تو مجھے گھر کے دروازے کے پاس زمین پر رینگتی اور گھسٹ گھسٹ کر چلتی ایک عورت نظر آئی۔ آواز دی کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا شاہ صاحب کا بیٹا ہوں، طارق۔ اس نے اپنے ہاتھ بڑھا دیے۔ میں اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ اس نے میرے سر اور کندھے پر بڑی محبت سے ہاتھ پھیرا اور کہا تمہیں پتہ ہے میں شاہ صاحب کے پاس آیا کرتی تھی ، وہ میری ہر ماہ کچھ مدد کیا کرتے تھے۔ اب تو مجھے نظر بھی نہیں آتا، آج اپنے پوتے کے ساتھ یہاں آئی ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ شاہ صاحب کے گھر کے باہر گاڑی کھڑی ہونے کا پتہ چلا تو میں ادھر آ گئی۔

مجھے محسوس ہوا اللہ نے پھر بندہ میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے اماں جی کو اپنی درخواست پیش کی جو قبول ہو گئی۔

ان دو واقعات سے یہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر رکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔

اللہ سے کبھی نا امید نہ ہوں۔اللہ سے ہمیشہ اچھے گمان کے ساتھ جئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments