آفتاب اقبال، حسن نثار اور غسل تیزابی


ہر روز شام ہوتے ہی پاکستان کے ستاون سے زائد نیوز چینلز پر ممتاز دانشور، سینئر تجزیہ نگار، دفاعی اور قانونی امور کے ماہرین اور ان سب کے ساتھ بیٹھے معروف ٹی وی اینکرز لاکھوں روپوں سے بنے سیٹس پر بیٹھ کر قوم کو یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس ملک کے ہر مسئلے کی جڑ اور وجہ سیاسی نظام اور سیاستدان ہیں۔ کل ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں آفتاب اقبال اور حسن نثار بیٹھے یہ فرما رہے تھے کہ اس نظام، اس کے بنانے والوں اور اس کے حامیوں کو تیزاب میں غسل دینا چاہیے۔ یہ نظام سور کا گوشت ہے۔ اس کو بار بار مشین سے گزارنے سے یہ مٹن یا بیف نہیں بن سکتا ۔۔

یہی وہ بھید ہے جس کو ایوب خان نے پایا تو انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں یہاں مارشل لا در مارشل لا در مارشل لا لگایا۔ انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے انڈیا کو اپنا آدھا پانی بھی دے دیا۔ فاطمہ جناح کو اپنے ہی دوپٹے سے جھول جانے پر مجبور کیا لیکن بات پھر نہ بن سکی… یہاں تک کہ کسی کونے میں بیٹھے جنرل یحییٰ المعروف آغا مدہوش نے عالم مدہوشی میں جب ایوبی نظام کو دیکھا تو اس میں ان کو کئی عیوب نظر آئے۔ لہذا انہوں نے طاقت میں آتے ہی اس کا ایک اوپائے یہ نکالا کہ انہوں نے سب سے پہلے بھوکے بنگالیوں سے ہماری اور اس ملک کی جان چھڑانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

بکھرے ہوئے ملک کو ایک جگہ اکٹھا کر کے اس کی باگ ڈور ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ تھمائی تو اس جمہوریت نامی گندے نظام کے ہاتھ مضبوط کرنے کو بھٹو اور اس کے تیزاب میں نہلائے جانے کے لائق ساتھیوں نے اس ملک کا آئین ہی بنا ڈالا۔ بات یہاں رک جاتی تو بھی ٹھیک تھا ان لوگوں نے یہاں سٹیل اور فرٹیلایزر ملز بھی لگانی شروع کر دیں۔ لیکن ملک کے رکھوالے ابھی مرے نہیں تھے۔ نظام کو دوبارہ درست سمت پر ڈالنے کے لیے “حق کی روشنی” آگے بڑھی اور ملک گیارہ سالوں تک امریکی اور سعودی ورکشاپ کے ڈک پر چڑھ کر ریپیئر ہوتا رہا

اللہ اللہ کرکے “حق کی روشنی” غروب ہوئی اور اندھیرا دو۔ ڈھائی۔ پونے تین اور ڈھائی سال کے چھوٹے چھوٹے وقفوں سے اس ملک پر چھاتا رہا یہاں تک کہ ملک مشرف با پرویز ہوا ایسی روشنی پھیلی کہ ملک میں کسی کو ایک یونٹ بجلی بنانے تک کا خیال نہ آیا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون آ گیا اور ہر بندہ Enlighten اور Modern  ہو گیا۔

یہ اس پرویزی نظام کی برکات ہی تھیں کہ امریکہ ہمارے ہمسائے میں چار ٹریلین ڈالر انوسٹ کرنے پر مجبور ہوا۔ ہماری سیکورٹی کا عالم یہ تھا کہ امریکی ڈرون ہر وقت ہمارے ان علاقوں پر محو پرواز رہا کرتے تھے جہاں شرپسندوں کے ٹھکانے تھے۔ انصاف کا عالم تو یہ تھا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہر گلی ہر قریہ جا جا کر لوگوں کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا تھا اور بجائے عوام پر ظلم کرنے کے ان سے مدد مانگا کرتا تھا۔ شرعی احکامات کی پابندی اس قدر تھی کہ مولوی عبدالعزیز بھی جب باہر نکلتے تو برقع پہن کر نکلتے تھے۔ اپنی نوکری سے وفا کا عالم یہ تھا کہ ایک سرکاری افسر اپنی وردی کو اپنی کھال سمجھنے لگا تھا اور جمہوری لوگ اس کے پیچھے ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کی حمایت میں یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ دس بار بھی وردی میں منتخب کرانا پڑا تو کرائیں گے۔ لیکن ان تیزاب سے نہلائے جانے والوں کو یہ راس نہیں آتا کہ ملک ترقی کرے حالانکہ اکبر بکٹی اور بینظیر بھٹو کو مار کر ملک کے رکھوالے نے بہت کوشش کی کہ ملک اپنی متعین کردہ سمت میں چلتا رہے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور آخر وہ ایک دن پاکستان کو اللہ اور اپنے آپ کو اشفاق کیانی اور راحیل شریف وغیرہ کے حوالے کر کے اس ملک سے چلا گیا اور آج بھی ملک واپس آنے کی پریشانی اس کے جسم پر لرزہ طاری کئے ہوئے ہے۔۔۔

اس طرح ایک بار پھر ملک چڑھا آصف زرداری اور نواز شریف کے ہاتھ۔ ان دس برس پر اگر بات کرنے بیٹھوں تو شاید کئی دن لگ جائیں لیکن لمبی چوڑی بات کا کیا فائدہ۔ ان دس برسوں کو سمجھنے کے لیے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک جملہ بہت ہے کہ جو انہوں نے عمران خان کی موجودگی میں کہا تھا کہ ” دس سال سے پاکستانی حکومتیں ہم سے تعاون نہیں کر رہی اب ہم امید کرتے ہی کہ پاکستان ہم سے وہی تعاون کرے گا جو 2005 یا 2006 میں کیا کرتا تھا“ … امریکی صدر بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کیونکہ سن 2008 تک مقبوضہ بلوچستان میں امریکی فوج کے ایک سو چونتیس ائیر بیسز تھے جو زرداری کے آتے ہی سن 2010 میں اٹھارہ رہ گئے تھے اور ساتھ کے ساتھ دنیا کی مظلوم ترین نیٹو فورسز کی افغانستان میں اسلحے اور رسد کی سپلائی بھی اسی زرداری نے نو مہینے تک بند رکھی اور ڈھٹائی کا عالم یہ کہ اس کو خفیہ رکھنے کی بھی زحمت نہیں کی گئی جبکہ دوسری جانب دنیا بھر کی فوجی حقوق کی تنظیمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہ سب دیکھتی رہیں کہ کس طرح یہ تیزاب سے نہلائے جانے کے لائق جمہوری سیاست دان آمر کے اس ملک پر کیے گئے احسانات کو ملیا میٹ کر رہے تھے۔

یہی کچھ نواز شریف نے کیا کہ جب یمن کے ظالم۔ متشدد اور جدید پتھروں اور غلیلوں سے لیس حوثی باغیوں نے معصوم اور مظلوم سعودی شاہی خاندان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ امریکہ سے 1.2 ٹریلین ڈالر کا اسلحہ خریدیں تو دوسری طرف جب اس مشکل صورتحال میں معصوم سعودیوں نے پاکستان سے فوجی مدد مانگی تو نواز شریف نے سعودی میمنے کی بجائے یمنی بھیڑیے کا ساتھ دیا اور فوج بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ ملک کے رکھوالے ابھی زندہ تھے۔ پاکستان کی فوج کے عظیم سپہ سالار کہ جن کی نیند۔ بھوک اور تھکن اے پی ایس کے بچوں کی وجہ سے پہلے ہی اڑ چکی تھی فوج سے ابھی صحیح طرح ریٹائر بھی نہیں ہوئے تھے کہ سعودی مظلوموں کی مدد کو ایسا پہنچے کہ کل تک سعودی شاہی محل کے دروازے پر کھڑے پائے گئے۔ اندر تک نہیں جاتے تھے کہ کہیں ان کی معمولی سی غفلت سے سعودی مظلوموں پر یمن سے جدید پتھروں کی بارش ہی نہ شروع ہوجائے ۔۔

عمران خان وہ واحد سیاست دان ہیں کہ جنہوں نے اس بھید کو آج سے بائیس سال پہلے بالکل انہی معنوں میں پا لیا تھا جیسا کہ ایوب۔ یحییٰ۔ ضیاء اور مشرف نے پایا تھا۔ تب ہی انہوں نے سیاست میں آتے ہی نعرہ لگایا تھا کہ یہ سب لوگ کرپٹ ہیں اور یہی وہ طبقہ ہے کہ جس کی وجہ سے ملک آج ان حالات کو پہنچا ہے ورنہ یہاں تو ملائشیا کی شہزادے پڑھنے آتے تھے۔ اور انہی سیاست دانوں کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خود عمران خان کو آکسفورڈ جیسی گھٹیا یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑا۔ آکسفورڈ کہ جس کی کُل اوقات یہ تھی کہ وہاں ان کا داخلہ صرف کرکٹ کھیلنے پر ہی ہو گیا تھا جبکہ ابھی پڑھ کر تو انہوں نے دکھایا ہی نہیں تھا (میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر عمران خان کا کھیل اس کو آکسفورڈ پہنچا سکتا ہے تو خدانخواستہ اگر وہ پڑھائی کر لیتے اللہ جانے کہاں پہنچتے)….

عمران خان ہمارے آمروں کے ادھورے خوابوں کی عملی تعبیر ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل سے لے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی شاید اسی عظیم سپوت کے حصے میں لکھی ہے۔ عمران خان کا بھٹو پر ایک ایسا احسان ہے کہ جس کا شاید پیپلزپارٹی کو ادراک تک نہیں اور وہ احسان یہ ہے کہ عمران خان کے حامیوں کو اس حکومت کے خاتمے کے بعد اس سوال کا واضح جواب مل جائے گا کہ بھٹو کا بنگلہ دیش بنانے میں کیا کردار تھا اور یہ جواب تب ملے گا جب عمران خان کے کھاتے کشمیر ڈالا جائے گا لیکن کم ظرف پیپلز پارٹی تب بھی خان جی کا شکریہ ادا نہیں کرے گی….

عمران خان کی حکومت صرف ایک حکومت نہیں بلکہ ایک وراثت ہے۔ ایک سفر ہے کہ جس کا آغاز سن 1948 میں محمد علی جناح کو کراچی سے زیارت منتقل کر کے کیا گیا تھا۔ جس پر مہر 1949 میں قرارداد مقاصد کی صورت میں ثبت کی گئی تھی اس سفر میں عوام تنگ و تاریک گلیوں کو چھوڑ کرDHA، بحریہ ٹاؤن، فضائیہ سوسائٹی، نیوی فلیٹس، عکسری 1۔2۔3۔4۔5 میں اپنے گھر عسکری سیمنٹ سے بنائیں گے۔ ان گھروں کو جانے کے لیے اپنی کار میں عسکر پیٹرولیم سے پیٹرول ڈلوائیں گے۔ اور ان گھروں میں بیٹھ کر فوجی فوڈز کے کارن فلیکس اور دو وقت کی روٹی کی فکر سے آزاد ہو کر پاپا جونز کے پیزے اڑائیں گے جن کی ادائیگی وہ عسکری بینک کے کریڈٹ کارڈ سے کریں گے…. اور اگر کسی جمہوری نحوست کے سبب یہ سب کچھ دیر کو رک بھی جائے تب بھی آپ نے گھبرانا نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments