اراکین اسمبلی کی ’خریدو فروخت‘: ویڈیو تو ہے لیکن سوال اب بھی باقی ہیں


وزیر اعظم عمران خان نے اس تاثر کو رد تو کر دیا ہے کہ تین سال پہلے سینیٹ کے انتحابات سے پہلے اراکین اسمبلی کو رقوم کی فراہمی کی ویڈیو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، لیکن اس کے متعلق کئی سوالات اب بھی لوگوں کے ذہنوں اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔

یہ ویڈیو کس نے بنائی، یہ کیوں بنائی گئی تھی، اب اس کو منظر عام پر لانے کا کیا مقصد ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اراکین کے خلاف کارروائی تو کی تھی لیکن رقوم فراہم کرنے والے افراد کون تھے اور ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اگر یہ ویڈیو درست ہے اور اراکین اسمبلی نے ووٹ کے بدلے نوٹ لیے تھے تو ایسے انتخاب کی حیثیت کیا ہے اور کیا اس کے نتیجے میں الیکش کمیشن بھی کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس طرح کے متعدد سوالات سامنے آئے ہیں جن کے جواب ابھی تک سامنے تو نہیں آئے لیکن ممکنہ طور پر وہ کیا ہو سکتے ہیں اس بارے میں چند نکات۔

عمران خان کہتے ہیں ان کے پاس پہلے یہ ویڈیو نہیں تھی

پہلے ذکر کرتے ہیں وزیر اعظم عمران خان کی صحافیوں سے بات چیت کا جس میں انھوں نے اس سوال کو رد کیا ہے کہ یہ ویڈیو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ ویڈیو ان کے پاس ہوتی تو جو اراکین اسمبلی ان کے خلاف عدالت میں گئے وہ ان کے خلاف یہ ویڈیو عدالت میں پیش کر دیتے اور کیس ہی ختم ہو جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ ویڈیو کس کے پاس تھی بلکہ سوال یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کے ضمیر خریدے جاتے ہیں۔ یہ خرید و فروخت کا سلسلہ 30 سالوں سے جاری ہے تو ان سے پہلے جو حکومتیں تھیں انھوں نے اس کی روک تھام کے لیے کام کیوں نہیں کیا۔

انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین نے اس بارے میں کارروائی کیوں نہیں کی۔ عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں جب اوپن بیلیٹ کی بات ہوئی تو انھوں نے اس کی حمایت کی تھی اب جب ہم اس بارے میں اقدامات کرنا چاہتے ہیں تو اپوزیشن میں شامل جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ یہ کاروبار بند ہو۔

یہ بھی پڑھیئے

’پیسے وزیر اعلیٰ کے حکم پر سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے کمرے میں دیے گئے‘

سینیٹ الیکشن میں خفیہ کی بجائے اوپن بیلٹ کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت: ’جمہوریت برقرار رہتی تو شاید انتخابات میں پیسہ نہ چلتا‘

عمران خان نے کہا کہ ووٹوں کی خریدو فروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور انھیں بھی پیشکش ہوئی تھی، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ انھیں کس نے پیسوں کی آفر دی تھی تو انھوں نے اس کا نام نہیں بتایا۔

پرویز خٹک

’یہ حیران کن بات ہے کہ 17 ووٹ بھی ہمارے گئے اور خریدنے والے بھی ہم ہی تھے‘

وزیر اعظم کے مطابق بلوچستان میں ایک ووٹ کی قیمت پچاس کروڑ روپے سے ستر کروڑ روپے تک لگی ہوتی ہے اور جو یہ رقم دیتے ہیں وہ کوئی حاتم طائی نہیں بلکہ وہ پھر عوام کی کھال کھنیچنتے ہیں۔

ان سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ اگر ووٹوں کی خریدو فروخت کی ویڈیو درست ہے اور اراکین اسمبلی نے ووٹ بیچے ہیں تو کیا الیکش کمیشن خریداروں یا اس کے نتیجے میں منتخب سینیٹروں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے؟ انھوں نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ کرپشن کے اس نظام کو ختم کیا جائے اور عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آئیں، یہ کاروبار بند ہونا چاہیے۔ انھوں نے گذشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ لیڈر شپ نے اس سے پیسے بنائے ہیں اور وہ اس کرپٹ نظام کے خاتمے کے لیے کوشش ضرور کریں گے ۔

سوالات اور تجزیہ کار

کیا عمران خان کو معلوم تھا کہ سینیٹ انتخابات کے وقت اراکین کو رقوم دینے کی ویڈیو بنائی گئی تھی؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر تجزیہ کار اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں۔

میڈیا پر وزیر اعظم کے دھرنے میں تقریر کی وہ ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک ایسی ویڈیو دکھائیں گے جس میں اراکین اسمبلی نوٹ گنتے نظر آ رہے ہیں۔ تو اگر اس ویڈیو کا انھیں علم تھا تو وہ اس وقت یہ ویڈیو سامنے کیوں نہیں لائے اور اس وقت انھوں نے پھر سلطان محمد خان کو صوبائی وزیر قانون کیوں بنایا۔ اس بارے میں جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ خان میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ انھوں نے یہ ویڈیو پہلی مرتبہ اب دیکھی ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ عمران خان نے اس ویڈیو کا اپنی تقریر میں ذکر کیا تھا تو شبلی فراز نے کہا کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو کنفرم ذرائع سے معلوم ہوتی ہیں اور جن پر بات کی جاتی ہے لیکن یہ ویڈیو پہلے ان کے پاس موجود تھی یہ درست نہیں ہے۔

ویڈیو اب منظر عام پر کیوں لائی گئی؟

یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس ویڈیو کو اب اپنے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اس بارے میں سینبئر تجزیہ کار طلعت حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اس وقت پریشانی اور خوف کا شکار ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ان کے اراکینِ اسمبلی کہیں دوسروں کو ووٹ نہ دے دیں۔ یہ حکومت کا اپنا اندرونی مسئلہ ہے جسے وہ آرٹینینس اور سپریم کورٹ کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ یہ کوئی قومی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ پی ٹی آئی کا اپنا اندرونی معاملہ ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ ویڈیو اب کیوں جاری کی گئی اور اس سے کیا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر حکومت اس ویڈیو کو ایک ثبوت کے طور پر بہتر انداز میں عدالت میں پیش کرے گی تاکہ اس موقف کو تقویت حاصل ہو کہ حکومت جو کہتی ہے وہ درست ہے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت اس پر یہ سوال بھی اٹھا سکتی ہے کہ اگر یہ ویڈیو اور رقم کی لین دین کو درست مان لیا جائے تو اس کے نتیجے میں منتخب سینیٹروں اور اس انتخاب کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے یعنی جو انتخاب کرپشن کے نتیجے میں ہوا ہے تو نتائج بھی ایسے ہی ہوں گے۔ تو پھر تو الیکشن پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔

اس بارے میں سینییر صحافی ایم ریاض کا کہنا ہے کہ اس وقت اس ویڈیو کا جاری کرنا انتہائی معنی خیز ہے کیونکہ اب سینیٹ کے انتخاب کا شیڈول جاری ہونا ہے اور دوسرا سپریم کورٹ میں اس بارے میں کیس کی سماعت بھی ہونی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اراکین اسمبلی ووٹ خریدتے اور بیچتے ہیں، اس لیے اس پریکٹس کو روکنے کے لیے حکومت بھرپور کوشش کرے گی اور یہ ویڈیو ایک اہم ثبوت ہے۔

ویڈیو بنائی کس نے اور کہاں بنائی؟

وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ یہ ویڈیو ان کے پاس نہیں تھی، جبکہ طلعت حسین کہتے ہیں کہ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس ویڈیو میں زیادہ تر پی ٹی آئی کے اراکین نظر آ رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہ ویڈیو پی ٹی آئی کے لوگوں نے ہی بنائی ہے اور اراکین نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں یہ رقم دینے والے بھی پی ٹی آئی کے لوگ ہی تھے۔

اس بارے میں سابق وزیر اعلی پرویز خٹک اور سابق سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی اسد قیصر کے نام لیے گئے اور رقم وصول کرنے والے ایک سابق رکن عبید اللہ مایار نے کہا ہے کہ یہ رقم انھیں سپیکر ہاؤس میں دی گئی اور ان کے علاوہ دیگر اراکین اسمبلی بھی الگ الگ کمروں میں موجود تھے۔

اس بارے میں وفاقی وزیر پرویز خٹک نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ 17 ووٹ بھی ہمارے گئے اور خریدنے والے بھی ہم ہی تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ وہ وہاں موجود تھے اور یہ سپیکر ہاؤس نہیں بلکہ اسلام آباد کا ہی کوئی اور مکان تھا جہاں یہ ویڈیو بنائی گئی۔

اس بارے میں سپیکر اسد قیصر کا موقف بھی ایک ٹویٹ میں سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اس ویڈیو میں جو مکان دکھایا گیا ہے وہ سپیکر ہاؤس نہیں ہے اور ناں ہی ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے 2018 میں بتایا تھا اس طرح کا لین دین ہوا ہے اور ساری پارٹی کا فیصلہ تھا کہ ان ممبران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

اس ویڈیو میں کیا ہے؟

بظاہر اس ویڈیو میں سابق دور حکومت کے اراکین اسمبلی نظر آ رہے ہیں جن میں سلطان محمد خان، عبید مایار، سردار ادریس، معراج ہمایوں، دینہ ناز اور پیپلز پارٹی کے محمد علی شاہ باچا نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں عبید مایار کو دکھایا گیا ہے کہ ان کو نوٹوں کی گڈیاں دی جاتی ہیں اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے بیگ میں رکھتے ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی دینہ ناز میز پر پڑی گڈیاں گنتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ سردار ادریس کے سامنے پڑے بیگ میں ایک اور شخص نوٹوں کی گڈیاں رکھتے نظر آتا ہے۔

اس ویڈیو کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں جس کے بارے میں اراکین اسمبلی اپنے موقف پیش کر رہے ہیں۔

اراکین اسمبلی کیا کہتے ہیں؟

’ہاں میں نے یہ رقم لی تھی اور یہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں وزیر اعلی اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے حکم پر دی گئی تھی اور جس کمرے میں یہ رقم دی جا رہی تھی وہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں سپیکر کا کمرہ تھا،‘ یہ موقف ہے سابق رکن اسمبلی عبید مایار کا جو اس ویڈیو میں اپنے ہاتھوں میں رقم پکڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رقم سب اراکین اسمبلی کو اپنی پارٹی اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دی گئی تھی اور یہ رقم انھوں نے مانگی نہیں تھی بلکہ انھیں خود دی گئی تھی تاکہ اس وقت سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ دو الگ الگ ویڈیوز ہیں جن میں یہ رقم کوئی ترقیاتی کاموں کے لیے نہیں دی گئی تھی اور یہ رقم ایک کروڑ روپے تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ تمام اراکین الگ الگ کمروں میں بیٹھے تھے اور ان سے الگ الگ کہا گیا تھا کہ انھوں نے سینیٹ کے انتخاب میں کس کس کو ووٹ دینا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ پرویز خٹک تھے اور سپیکر اسد قیصر۔ عبید مایار نے کہا کہ انھوں نے یہ رقم 2018 کے سینیٹ کے انتخاب سے پہلے لی تھی۔

وزیر قانون سلطان محمد خان نے کہا ہے کہ اس ویڈیو میں وہ موجود نہیں ہیں اور انھوں نے اس ویڈیو سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے ۔ سلطان محمد خان سابق دور میں قومی وطن پارٹی شیرپاؤ کا حصہ تھے۔

دوسری جانب ایک میز کے سامنے پیپلز پارٹی کے سابق پارلیمانی لیڈر محمد علی شاہ بیٹھے ہیں جو سگریٹ پی رہے ہیں اور ان کے سامنے میز پر بظاہر نوٹوں کی گڈیاں نظر آ رہی ہیں۔ محمد علی شاہ باچا نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو الگ الگ ویڈیوز ہیں اور ان کو جوڑا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک جانب جہاں اراکین اسمبلی رقم لے رہے ہیں وہ ویڈیو الگ ہے جبکہ جہاں وہ بیٹھے ہوئے دکھائی گئے ہیں وہ ایک الگ ویڈیو ہے۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ان کے سامنے میز پر نوٹوں کی گڈیاں تو نظر آ رہی ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ کہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے، یہ کتابیں بھی ہو سکتی ہیں۔

اسی طرح مبینہ طور پر سردار ادریس بھی اس ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں لیکن انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس ویڈیو میں نہیں ہیں۔ اسی طرح اس ویڈیو میں معراج ہمایوں خان بھی موجود ہیں جو سابق دور میں آفتاب شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی میں شامل تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp