واحد آپشن! آئین کی حکمرانی اور سویلین بالادستی


اسٹبلشمنٹ کے پروردہ نام نہاد دانشوروں اور جمہور دشمن سیاسی گماشتوں کو آئین و قانون کی حکمرانی، منتخب سویلین اداروں کی بالادستی، سیاست میں فوج کے کردار کے خاتمے، قومیتی و صوبائی حقوق، آزاد و خودمختار عدلیہ اور میڈیا، بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد سے مخاصمانہ چڑ ہے۔ ان میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی کوئی تخصیص نہیں۔ کوئی جمہوری حقوق کی جد و جہد کے رد میں اسلامی انقلاب کا نعرہ بلند کرنا شروع کردیتا ہے، تو کوئی جمہوری حقوق کو اشرافیہ کے پلے باندھ کر سوشلسٹ انقلاب کا لبادہ اوڑھے جمہور دشمنی کا ورد شروع کر دیتا ہے۔

دائیں بازو کے نام نہاد نظریہ دانوں کا نہ اسلامی انقلاب سے نظریاتی یا سیاسی تعلق ہوتا ہے اور نہ نام نہاد بائیں بازو کے پرچم برداروں کا عملی یا فکری ترقی پسند سیاست سے کوئی واسطہ ہوتا ہے۔ جمہور دشمن فکری انتشار اور مغالطے پھیلانا اسٹبلشمنٹ کے وظیفہ خوار خودساختہ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ یہ آرڈر اور بکنگ کے مطابق حقائق مسخ کر کے تھیوری، تھیسس اور تجزیے تراشنے کے کرشمے سر انجام دیتے ہیں۔

عوام کو حقائق سے دور رکھنا، خواب و خیال کی دنیا میں بھٹکانا، نام نہاد انقلابی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ فکری و نظریاتی انتشار، سیاسی ابہام اور مسخ شدہ حقائق پر مبنی تجزیوں کے ذریعے عوام کو جمہوری تحریکوں سے دور رکھنے میں ایسے عناصر سرگرمی سے حق نمک ادا کرتے ہیں۔ یہ عناصر بڑی چابک دستی سے جمہور دشمن فکری انتشار کو بڑھانے کے لئے سیاسی بحران کے حل کے لئے ہر وقت مختلف آپشن کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔

ملک کو درپیش سیاسی بحران کو ملکی آئین کی روشنی میں حل کرنے کے الفاظ ان کی زبان ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ رنگ برنگ اسٹبلشمنٹی طوطوں کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ آئین کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کی بات کرنے والوں کے خلاف بھارتی۔ امریکی لابی کی ٹر ٹر جاری رکھیں اور غداری سرٹیفیکیٹ چھاپنے کا مقدس کام چالو رکھیں۔ پاکستان میں عوام دوست جمہوری قوتوں پر غداری کے لیبل چسپاں کرنا کوئی نیا کام نہیں۔ سرد جنگ کے دوران جمہوری قوتوں پر انڈو۔ سوویت لابی کا الزام اب انڈو۔ امریکی لابی میں بدلنے کا معجزہ بھی انہی کے گماشتہ شیطانی ذہین کی پیداوار ہے۔

مگر اب دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست اور ریاست تیزی سے بدلتی دنیا میں الگ تھلگ جزیرہ بن کر نہیں رہ سکتے۔ مگر اسٹبلشمنٹی طوطوں کی مشروط اور تنگ نظر ذہنی تربیت عوامی فکری لہر اور جمہوری تبدیلی کی ہواؤں کو محسوس نہیں کر سکتی۔ میانمار میں فوجی جنتا کے خلاف جمہوریت بحالی کے لئے لاکھوں احتجاجی عوام کے نعروں کی گونج بھی جمہوریت دشمن عناصر کی آنکھیں کھولنے کے لئے ناکافی ہے۔

یکم فروری کو میانمار میں فوجی جرنیلوں نے بندوق کے زور پر جمہوریت پر شب خون مارا۔ مگر جمہوریت بحالی کے حق میں لاکھوں عوام کا پر جوش ٹھاٹھیں مارتا احتجاجی سمندر میانمار کے گلی کوچوں میں موجزن ہے۔ میانمار کے جرنیلوں نے اسی فیصد ووٹوں سے جیتنے والی سیاسی جماعت اور اس کی لیڈر وزیر اعظم آنگ سان سوچی کو گرفتار کر لیا اور ملک میں ایک سال کے لئے فوجی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ میانمار کے عوام بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں کی تعدار میں احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

طالبعلم، ٹیچر، ڈاکٹر، نرسیں، سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین، مزدور طبقہ، خواتین، بدھ بھکشو، کون ہے جو جمہورت کی بحالی اور فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے میانمار کی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ کئی مقامات پر پولیس اہلکار بھی احتجاجی مظاہرین کے ساتھ مل کر جمہوریت بحالی کے نعرے بلند کرتے رہے۔ ایمبولینسوں کے ساتھ رضاکار ڈاکٹر اور نرسیں مظاہرین کی ہنگامی طبی امداد کے لئے مظاہروں میں شامل ہیں۔ لاکھوں عوام کا احتجاجی سمندر میانمار میں جمہوری انقلاب کی نوید اور دنیا بھر میں آمرانہ حکومت کے خلاف جمہوری جد و جہد کے لئے حوصلہ افزائی کا ذریعے بن رہا ہے۔

اقوام متحدہ، دنیا بھر کے جمہوری ممالک، جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، میانمار فوجی جنتا کے خلاف اور جمہوری تحریک کی کھل کر حمایت کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ میانمار کے فوجی جرنیل پہلی بار ہمسایہ ملک چین کی کھلی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ فوجی جنتا کے خلاف عوامی غیض و غیضب کو دیکھتے ہوئے چینی حکومت بھی محتاط رویہ اپنانے پر مجبور ہے۔

ایشیا جمہوری تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اب سرد جنگ کے زمانہ کی طرح فوجی آمروں، فوجی کنٹرولڈ سول حکومتوں اور کنٹرولڈ جمہوریت جیسے ریاستی بندوبست کے لئے عالمی قوتوں کی حمایت حاصل کرنا آسان نظر نہیں آتا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ان جیسے دیگر ممالک میں امریکی حمایت سے فوجی آمریتیں قائم ہوتی رہیں۔ عالمی منظر بدلنے کے علاوہ ان ممالک میں کئی دہائیوں سے جاری جمہوری جدوجہد نے عوام کے جمہوری اور سیاسی شعور کو بڑھاوا دیا ہے۔

میانمار کے لاکھوں عوام کا فوجی جنتا کے خلاف بھرپور اور فوری احتجاج، ان کے سیاسی جمہوری شعور کا اظہار ہے۔ آج پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام یک زبان ہو کرملک میں آئین کے مطابق جمہوری نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ہر محب وطن، جمہوریت پسند، قوم پرست اور ترقی پسند فرد آئین و قانون کی حکمرانی اور سول جمہوری اداروں کی بالادستی چاہتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی کامیابی یا ناکامی کو عوام کی جمہوری امنگوں سے جوڑنا، جمہوری جدوجہد کے مقاصد کو کمتر اور محدود کرنے کے مترادف ہے۔

اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے قائم ہائی برڈ سیاسی بندوبست کے تحت پی ٹی آئی کی حکومت رہے گی یا گرے گی، ملک میں کسی اور سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد کی حکومت بنتی ہے، یہ زیادہ اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آئین کی حکمرانی، سویلین جمہوری اداروں کی بالادستی اور سیاست میں عسکری کردار کے خاتمے کا نعرہ ہر باشعور پاکستانی کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام جان چکے ہیں کہ ان کے جمہوری و قومی حقوق کا حصول آئین کے مطابق ایک با اختیار جمہوری نظام میں ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے کارپردازوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنے میں کتنا وقت لگے گا اور وہ کب عوامی امنگوں کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے۔ اس کا انحصار جمہوری تحریک کے تسلسل اور تحریک میں عوام کی بھرپور شرکت پر ہے۔ پاکستانی میڈیا کے سرکار ی ہدایات پر انڈیا کے کسانوں اور میانمار کے عوام کے احتجاجی مظاہروں کو سنسر کر کے نشر کرنے سے جمہوری لہر کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ حکمران اور ان کے پشت پنا ہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دھنسا کر جمہوری طوفان سے نہیں بچ پائیں گئے۔ جہاں تک اسٹبلشمنٹی طوطوں کا تعلق ہے، ڈور ہلانے والے ہاتھ جب چاہیں گئے اپنے گماشتوں کو نئی سازشی فکر کی ویکسین لگا دیں گئے۔ اور وہ نئی طرز پر ٹر ٹر کا نیا راگ الاپنا شروع کر دیں گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments