صنفی امتیاز کی حقیقت سے انکار کرنے والے


اللہ نہ بخشے، ایک صاحب عورت دشمنی اور مرد کی مظلومیت کے مافوق الفطرت گماں میں اس قدر محدود عقل و دانش ثابت ہوئے کہ اس منہ چڑاتی زہر اگلتی حقیقت کو سرے سے ماننے پر تیار نہیں تھے کہ اس ملک میں ریپ اور جبر جنسی کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ صاحب دروغ و عناد کی متشدد اور متنفر سوچ جس کو پدرسری کی ہزاروں سال پرانی دیمک چاٹ چکی تھی اس بابت ایماں رکھتے ہیں کہ ہر درج ہونے والا ریپ اور جنسی زیادتی کا واقعہ جھوٹا اور بے گناہ مرد کے وقار و تمکنت کے خلاف عورت کی سازش ہوتا ہے۔ جو لوگ عورت سے نفرت اور غیر مرئی ساختہ کی احساس برتری کے جوہڑ میں غرق ہیں، تشدد اور امتیاز کے سوا کچھ کرنے کو راضی ہیں نہ تیار۔ نفرت اور نر خدائی کے سراب میں مقید تو رہیں گے مگر حرص ایسا ہے کہ نفرتوں کو انصاف کی لگام نہ تھمائیں گے۔ یہی جھوٹوں اور گناہ گاروں کی پہچان ہوا کرتی ہے۔

ہر عورت کی زندگی میں ایک سے بہت زیادہ بار ایسا موقع آتا ہے جب وہ چاہتی ہے کہ اس کے روبرو تمام مرد جہنم کو رخت سفر باندھیں جو ان کی زندگیوں کو پتلی تماشے کے دھاگوں مانند ہلاتے ہیں۔ یہ وہی دھاگے ہیں جو ایک عورت سے اس کا آرام تو چھینتے ہیں وہیں پر اس سے افتخار سے جینے کا ساماں بھی ناپید کرتے ہیں۔ تب ہی وہ اپنے اطراف حاکمیت کی تلواریں لہراتے مردوں کو اپنے ہمراہ نہیں برداشت کرتی۔ جو اس کے حق میں کھڑے ہوں ان کو مردانگی کے دین سے خارج کر دیا جاتا ہے۔

یہ نوبت تب آتی ہے جب ظالموں کو ظلم، بے انصافی اور عورت عناد کو جواز عقائد و نظریات میں تلاشنا پڑتا ہے۔ عقیدے کی سعی بھی عورت پر اس لئے زیادہ واجب ٹھہرتی ہے کہ اس کو عقیدے کی گٹھی چٹا کر زباں بند بآسانی کر لیا جاتا ہے۔ قدم قدم پر وہ وحشت اور خوف میں وہ ہر بدنامی اور نا انصافی صرف اسی لئے ہی پلو سے باندھتی ہے جس سے زبردستی اس کے شانے ڈھکے گئے ہیں کہ مرد اس کو بنا پلو میں تکے گا تو بھوکے بھیڑیے کی طرح اس کا رعشہ رعشہ نوچ ڈالے گا، خواہ وہ اس کے سر کا سر پر مسلط کردہ کوئی رواج کے دھوکے میں سائیں ہو، عزت کا امین بھائی، مشفق باپ یا راہ چلتا آوارہ لونڈا۔ کسی سے بھی اس کے بدن کے بال اور رعشہ تحفظ کے گماں کا احساس نہیں رکھ سکتے۔

مرد اگر مرد کے ہاتھ بڑے اور نظر آنے والے پیمانے پر جنسی استحصال کا شکار ہوا کرتا تو دنیا میں آدھے سے زیادہ مرد جنسی صلاحیت سے محروم ہوتے۔ جیسے جنگ میں مرد کو مرد کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جب ہی جنگ میں نرمی برتی جاتی ہے نہ رحمدلی۔ جنگ میں برسر پیکار سپاہ کے آدھے سے زائد سپاہی موت کے منہ چبائے جاتے ہیں، بقیہ جسمانی اعضاء کھو دیتے ہیں بالکل ویسے دنیا بھر کے جنسی ہوس میں غوطے لگاتے آدم کے پسر بھی مغلوب ہوتے مگر بھائی چارہ ہے کہ یہ ممکن نہیں۔

یہ وہ بھائی چارہ ہے جس کا چارہ عورت ہے اور عورت کے پاس تشدد اس آس پر سہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مر کر وہ فلاح پائے گی۔ مگر مر کر بھی اس کے لئے سہانے گاو تکیوں کی بیٹھک کا انتظام نہیں۔ عورت کی گواہی تو آدھی سہی، حصہ بھی آدھا، یہاں تلک کے اس کی عبادت و ریاضت بھی آدھی۔ وہ انسان تو پورے پیدا کرتی ہے، مگر اس کی چھید زدہ جھولی ہے تو آدھی ہی۔ حالانکہ دامن آغوش مکمل ہے مگر کانٹے اتنے بچھے کہ چھید ہو چکے۔

ایک عورت کس قدر ہی عابدہ، ساجدہ اور متقی کیوں نہ ہو جائے یہاں تلک کہ وہ وقت کی قلندر کہلائے مگر کہنے والوں کا صنفی امتیاز خدا کی محبت اور وحدت کی عزت کے آگے بھی ماند نہ پڑے۔ وہ قلندر ہو کر بھی آدھی ہے کیونکہ وہ عورت ہے۔ اس سے شفاف آئینہ نہیں میسر آ سکتا یہ دیکھنے کے لئے کہ عورت کے وجود کی ان کی نگاہ میں حیثیت کیا ہے۔

تشدد کی بڑائی اور مدحت بیان کرنے والا معاشرہ وہاں برا اور بدنما ہونے کا جواز اپنے ماتھے پر خود ثبت کرتا ہے جب سجدوں اور قیام کو آدھے حصے اور آدھی شہادت کے ترازو میں تولا جائے۔ جب شیر خوار بچوں اور بچیوں کے کردار میں تفریق برتی جائے۔ ایام حیض میں ہماری عورت خود کو اگر دنیا کی سب سے ناپاک اور غلیظ جاندار نہ سمجھتی ہو تو صنفی کراہت کا پیمانہ بھلے کسی اور سیارے پر جا کر ناپ سکتے ہیں۔

عورت ناپاک نہیں ہوتی، اس کی دانست میں یہ کیل کی طرح ٹھوک دیا گیا ہے کہ وہ ناپاک ہے۔ جس خون کی روانی سے احکام سنانے والے تشکیل دیے گئے ہوں وہی مرحلہ باعث شرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ جس عمل سے دنیا کی ہر معدہ، جاندار بناتی اور پیدا کرتی ہے چند ہزار برس قبل کچھ آدمیوں نے بیٹھ کر یہ تہیہ کر لیا کہ اب سے وہ ناپاک ہیں کیونکہ ایام حیض میں عورت مردوں کو چھونے نہیں دیتی۔ تشدد کی کہانی بہت آساں الفاظ میں سمجھی جا سکتی ہے۔

عقیدے میں عبادت بھی گراں قدر ہے تو مرد کی ہی ہے۔ مدحت خدا کی راہ میں امامت کوئی جائز قرار دے بھی دے تو کراہیت کے ساتھ۔ کیا خدا کسی کی امامت سے کراہیت کر سکتا ہے کہ امام کا جنس مختلف ہو؟ کیا خدا نے عورت بناتے وقت کراہیت محسوس کی ہوگی یا ایسے کہیے کہ کراہیت بھی چند مردوں کی خود ساختہ سوچ کا پیش خیمہ ہے۔ سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، جب ایسی ریت افتخار کی صورت واجب ہو تب جنسی درندگی معمول کی بات اور عورت کا استحصال واجب امر ہو کر دماغوں پر خون کی لت کی طرح سوار ہو جاتا ہے جن کو حسد اور عناد پی چکا ہو۔ حالات بدلنے کا عزم ہو تو دیوار کو رنگنا نہیں، عمارت گرانی درکار ہے، پھر اس بنیاد کو جلا کر نفرت اور امتیاز کے مادے مٹانے ملزوم ہیں جس کے بعد نئی سوچ اور حقیقی عزت کے اشجار سر اٹھائیں وگرنہ نتائج کی ذمہ دار عورت نہیں خون چاٹنے والی صنفی اشرافیہ ہی ہے۔ یقیں آئے نہ آئے سچ یہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments