جو بائیڈن کا چینی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، اویغور مسلمانوں کا معاملہ بھی زیر بحث


شی جن پنگ
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب صدر شی جن پنگ سے پہلے باضابطہ ٹیلیفونک رابطے میں چین کے صوبے سنکیانگ میں اقلیتی اویغور مسلمانوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔

وائٹ ہاؤٰس کے مطابق بدھ کی شب کی گئی اس فون کال میں صدر بائیڈن نے چینی صدر شی جن پنگ سے تجارت، ہانگ کانگ پر تسلط اور تائیوان میں بڑھتی کشیدگی پر بھی بات کی۔

جبکہ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر بائیڈن کو خبردار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

حال میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی امور، ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کے معاملے پر تعلقات میں مزید کشیدگی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کے خفیہ کیمپ

چین: کیمپوں میں اویغوروں کو ’برین واش‘ کیسے کیا جاتا ہے؟

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟

کیا ترکی اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے جا رہا ہے؟

امریکہ اور چین کے تعلقات دونوں ممالک سمیت عالمی سطح کے لیے اہم ہیں، بیجنگ نے بار بار نئی واشنگٹن انتظامیہ سے تعلقات میں بہتری پر زور دیا ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ رابطہ چین کے نئے قمری سال کے آغاز سے بالکل پہلے ہوا ہے جس ایک خیر سگالی اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ٹیلیفونک رابطے کے بعد صدر بائیڈن نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘آج میں نے چینی صدر شی جن پنگ سے بات کی اور نئے چینی قمری سال پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ میں نے ان سے چین کی معاشی و تجارتی طریقہ کار، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، تائیوان پر چین کے بڑھتے دباؤ پر تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ میں نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ تب ہی چین کے ساتھ کام کرے گا جب اس کا فائدہ امریکی عوام کو ہو گا۔’

امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے ‘بیجنگ کے زبردستی اور غیر منصفانہ معاشی طریقوں کے بارے میں اپنے بنیادی خدشات، چین کی جانب سے ہانگ کانگ پر جبری تسلط، چینی صوبے سنکیانگ میں اقلیتی اویغور مسلمانوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور تائیوان پر دباؤ سمیت خطے میں بڑھتے جارحانہ اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا۔’

جو بائیڈن

چین پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنے سنکیانگ صوبے میں ' تربیتی کیمپ' کہلانے والے کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو بغیر مقدمہ چلائے قید کر رکھا ہے اور اس بارے میں شواہد موجود ہیں کہ چین اپنی مسلم اقلیتی ایغور برادری سے جبری مشقت لے رہا ہے اور ان خواتین کی جبری نس بندی کر رہا ہے۔

چینی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ افراد اپنی مرضی سے حکومت کے ایسے خصوصی مراکز میں زیرِ تربیت ہیں جن کا مقصد دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی سے نمٹنا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے سمیت مشترکہ عالمی سطح پر صحت کے بحران کی مشکلات، موسمیاتی تبدیلی اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

چین کے سرکاری ٹی وی سی سی ٹی وی نے کہا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ’دو طرفہ تعلقات سمیت اہم عالمی اور علاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔’

چین اور امریکہ میں تنازعات کا پس منظر

چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کا آغاز ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ہوا تھا۔اس وقت سب کی نگاہیں بائیڈن انتظامیہ پر مرکوز ہیں کہ اس کی چین کے بارے میں پالیسی کیا ہو گی؟

سنہ 1972 میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے تب سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔

امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات 2013 میں اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب صدر شی جن پنگ برسر اقتدار آئے تھے۔صدر شی جن پنگ کو اپنے سابقہ صدور کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ اور طاقتور سمجھا جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، شی جن پنگ

چین اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اس نے ہانگ کانگ کے لیے سخت حفاظتی قوانین متعارف کروائے اور اقلیتی اویغور مسلمانوں پر مبینہ طور پر جبرو تشدد کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ ایک عالمی نظریہ کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چین کا تنازعہ بہت بڑھ گیا۔

سرد جنگ کی عکاسی کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے چینی رہنماؤں پر عالمی تسلط کو برقرار رکھنے کی کوشش میں آمریت کا الزام عائد کیا۔اس کے ساتھ ہی، انھوں نے امریکہ اور چین کے مابین جنگ کو آزادی اور جبر کے خلاف جدوجہد قرار دیا تھا۔

جس کے بعد امریکہ نے چین پر تجارتی محصول بڑھانا شروع کیا، جس کے جواب میں چین نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین تجارتی جنگ کا آغاز ہوا۔

گذشتہ برس جولائی میں، امریکہ نے ہیوسٹن میں چینی قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

چین نے جلد ہی امریکہ کے اس اقدام کا جواب دیا اور امریکہ کو مغربی چین کے شہر چینگڈو میں اپنا قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا۔

کسی بھی ملک کا قونصل خانہ کوئی پالیسی سازی کا ذمہ دار نہیں ہوا تاہم وہ اس ملک میں کاروبار کرنے اور کسی بھی طرح کی رسائی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہ اقدام دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات اور ڈھانچے کو ایک اور دھچکا تھا۔

چینی حکومت کا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ چین کو روکنا چاہتی ہے تاکہ وہ امریکہ کو معاشی طور پر پیچھے نہ چھوڑ دے۔ چینی حکومت میں بہت سے لوگ بات پر ناراض ہیں کہ امریکہ نے چینی ٹیلی مواصلات کی ٹیکنالوجی استعمال کرنا چھوڑ دی ہے۔

اب صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سب کی نگاہ بائیڈن انتظامیہ پر ہے کہ وہ اس بارے میں کیا اقدامات اٹھائیں گے۔

مزید پڑھیے

چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟

چین اور تائیوان: کشیدہ تعلقات اور سفارتکاروں کے درمیان ہاتھا پائی کا معاملہ

’روس نہیں اب چین امریکہ کا عسکری حریف‘

چین میں اویغوروں کے حراستی مرکز

چین، سنکیانگ

چین نے اپنے صوبے سنکیانگ میں آباد اقلیتی مسلم آبادی اویغورں کو جبری طور پر حراستی مراکز پر قید کر رکھا ہے جنھیں وہ 'تربیتی مراکز' کا نام دیتا ہے۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران انسانی حقوق کی تنظیموں، مختلف دستاویزات کے شواہد کے سامنے آنے کے بعد الزام عائد کیا ہےکہ چین اپنی مسلم اقلیت کے خلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور اویغور مسلم آبادی سے جبری مشقت، تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اویغور مسلمانوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے اس برادری کی خواتین کی نس بندی کرا رہی ہے یا انھیں مانع حمل آلات کے استعمال پر مجبور کر رہی ہے۔

چین کی انتہائی سکیورٹی والی جیلوں کے نیٹ ورک میں ہزاروں مسلم اویغوروں کے زبردستی ذہنی خیالات تبدیل کرنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ چین مسلسل اس تمام الزامات سے انکار کرتا رہا ہے اور ان حراستی کیمپوں کو ‘ری ایجوکیشن کیمپ’ یعنی تربیتی کیمپ قرار دیتا ہے۔

جیسے جیسے عالمی تنقید بڑھتی جا رہی ہے چینی حکام نے اپنے اس موقف کو مزید بڑھا چڑھا کر پروپیگنڈے کی شکل میں بیان کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ مراکز سنکیانگ کی مسلم اقلیت کے لیے بنائے گئے ہیں جن میں سے اکثر چینی زبان نہیں بولتے۔

اقلیتی اویغور مسلم آبادی کون ہیں؟

اویغور مسلمان خواتین

چین کے صوبے سنکیانگ میں ایک کروڑ اقلیتی مسلم اویغور آباد ہیں۔ وہ ترک زبان بولتے ہیں اور شکل و صورت میں چین کی ہان آبادی کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی علاقوں کے افراد سے بھی ملتے ہیں۔

جنوبی شہر کاشغر کو اکثر بیجنگ سے زیادہ بغداد کے قریب کہا جاتا ہے اور اکثر یہ ثقافتی طور پر لگتا بھی ہے۔

چینی حکومت سے بغاوت اور مزاحمت کی تاریخ کے تناظر میں اویغوروں اور ان کے موجودہ سیاسی حکمرانوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں۔ کمیونسٹ دور سے پہلے سنکیانگ مختصر عرصے تک آزاد بھی رہا۔ اس کے بعد سے وہاں مظاہروں اور تشدد کا سلسلہ وقتاً فوقتاً چلتا رہا ہے۔

جرمنی سے رقبے میں پانچ گنا بڑے اس خطے میں تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل کی بدولت یہاں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں معاشی ترقی ہوئی وہیں ہان چینی آباد کار بھی آئے۔

اویغوروں میں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مسئلے پر بےچینی پائی جاتی ہے۔ اس تنقید کے جواب میں چینی حکومت سنکیانگ کے شہریوں کے بہتر ہوتے ہوئے معیارِ زندگی کا حوالہ دیتی ہے۔

تاہم گذشتہ دہائی میں اس خطے میں دنگوں، انٹر کمیونٹی لڑائیوں، مربوط حملوں اور پولیس کی جوابی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں سنکیانگ میں سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں۔

ان میں چہروں کی شناخت کرنے والے کیمروں اور موبائل فون کا مواد پڑھنے والے آلات کی تنصیب اور آبادی کا بایومیٹرک ڈیٹا جمع کیا جانا شامل ہے۔ اب وہاں لمبی داڑھیاں رکھنے اور حجاب اوڑھنے پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ بچوں کے اسلامی نام رکھنے کے حوالے سے بھی بندشیں موجود ہیں۔

پالیسی میں ایک واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ علیحدگی پسندی کو چند افراد کا نہیں بلکہ اویغور ثقافت سے خصوصاً اور اسلام سے عموماً جڑا مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔ اویغور اب مجموعی طور پر شک کے دائرے میں ہیں۔

ان کی نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ کی جا رہی ہے اور انھیں ان ہزاروں شناختی چوکیوں پر روک لیا جاتا ہے جہاں سے چینی ہان باشندے آرام سے گزر جاتے ہیں۔ انھیں سفری پابندیوں کا بھی سامنا ہے چاہے وہ سفر سنکیانگ میں ہو یا اس سے باہر۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پاسپورٹ پولیس کے پاس باحفاظت رکھنے کے لیے جمع کروا دیں۔

اویغور سرکاری ملازمین اسلام پر اعلانیہ عمل پیرا نہیں رہ سکتے۔ وہ نہ ہی مسجد جا سکتے ہیں اور نہ ہی رمضان میں روزے رکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp