کورونا وائرس: کیا آپ کے ملک میں ویکسین پہنچ گئی ہے؟


An illustration of a needle and a vaccine dose
جب کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تقسیم کی بات آتی ہے تو پھر زیادہ تر لوگ ایک سوال ہی پوچھتے ہیں کہ میری باری کب آئے گی؟ بہت محدود تعداد میں کچھ ممالک نے اس حوالے سے بہت واضح انداز سے اپنے اہداف مقرر کیے ہیں مگر دنیا کے بیشتر ممالک میں ابھی یہ صورتحال واضح نہیں ہے۔

اس حوالے سے ابھی تک ہم جانتے کیا ہیں؟

دنیا کے لیے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

اس میں ایک پیچیدہ سائنسی عمل کے علاوہ ملٹی نیشنل کارپورپیشنز، کئی حکومتوں کے متضاد وعدے اور بیوروکریسی کے طریقے اور قواعد آڑے آ جاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں یہ ویکسین کب اور کیسے ملے گی اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں ہے۔

اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ (ای آئی یو) کے گلوبل فارکاسٹنگ ڈائریکٹر اگاتھے دیمارائس اس حوالے سے بہت جامع تحقیق کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سائنو فارم ویکسین کن افراد کے لیے موزوں نہیں ہے؟

کورونا وائرس: پاکستان میں آپ کووڈ 19 کی ویکسین کیسے لگوا سکتے ہیں؟

کورونا کی دوسری لہر سے زیادہ متاثر کون: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

اس بات کو جاننے کے لیے مختلف ممالک میں لوگوں تک یہ ویکسین کس طرح پہنچے گی ای آئی یو نے اس وقت دنیا میں اس ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو پرکھا ہے اور اس کے ساتھ ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر کا جائزہ بھی لیا ہے۔

اسی طرح کسی ملک کی آبادی کے حجم کو بھی دیکھا گیا کہ وہ کیسے لوگوں تک یہ ویکسین پہنچا سکیں گے۔

اس مطالعے میں امیر اور غریب کے فرق کو واضح طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔

اس وقت برطانیہ اور امریکہ اس ویکسین کو صیحح معنوں میں عوام تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ وہ ویکسین کی تیاری میں بڑی سرمایہ کاری کی سکت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ویکسین حاصل کرنے کے لیے صف اول میں ہیں۔

اسی طرح کینیڈا اور یورپی یونین میں شامل ممالک برطانیہ اور امریکہ سے ویکسین کے معاملے میں کچھ پیچھے ہیں۔

کئی کم آمدنی والے ممالک نے ابھی تک ویکسین لگانے کا عمل شروع ہی نہیں کیا ہے۔ مگر کچھ ممالک نے ویکسین سے متعلق سرپرائز دیا ہے۔

دیکھیے اس وقت دنیا میں ویکسین لگانے کا عمل کس طرح آگے بڑھ رہا ہے۔
Click here to see the BBC interactive
گذشتہ سال کے اختتام پر اس وقت کینیڈا کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے اپنی آبادی کے حجم سے پانچ گنا زیادہ ویکسین کے لیے آرڈر بک کرایا۔ تاہم یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا نے اپنے لیے ویکسین کی ترجیحی فراہمی کا خیال نہیں رکھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ویکسین کی برآمد پر ممکنہ پابندی کے خدشے سے یورپی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ تاہم یہ کینیڈا کے لیے بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔

ابھی یورپی ممالک کی فیکٹریاں ویکسین کی سپلائی پوری کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے بجائے یورپی یونین میں شامل ممالک اس ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں جب تک یورپی ممالک کو بڑی تعداد میں ویکسین دستیاب نہیں ہو جاتی تو اس وقت تک کینیڈا کو ویکسین بھیجنا ممکن نہیں ہو گا۔

تاہم کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو امیدوں سے بڑھ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اپنی عوام تک ویکسین کی فراہمی میں سربیا دنیا میں آٹھویں نمبر پر تھا، جو کہ کسی بھی یورپی ممالک سے آگے تھا۔

اگرچہ سربیا کی عوام تک ویکسین کی فراہمی کی کامیابی کسی حد متاثر بھی ہوئی مگر سربیا ویکسین ڈپلومیسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔ کیونکہ چین اور روس کے درمیان مشرقی یورپ میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کی ایک لڑائی جاری ہے۔

ویکسین کی فراہمی کا نقشہ

سربیا ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں روس کی تیار کردہ ویکسین سپونتک فائیو اور چین کی ویکسین سائنو فارم دستیاب ہیں۔

اگرچہ کاغذوں میں اب سربیا کی عوام کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ فائزر، سپونتک یا سائنو فارم میں سے کسی ایک ویکسین کا انتخاب کریں۔ تاہم حقیقت میں زیادہ تر لوگوں کو سائنو فارم ہی لگائی جاتی ہے۔

چین کا اس ملک میں اثر و رسوخ کافی عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اگر کوئی ملک پہلی اور دوسری بار چین کی سائنو فارم ویکسین استعمال کرے گا تو پھر مسقبل میں بھی اگر انہیں ضرورت ہو گی تو پھر وہ چین سے ہی مزید ایسے نسخے حاصل کرے گا۔

متحدہ عرب امارات بھی زیادہ تر چین کی سائنو فارم ویکسین پر ہی انحصار کر رہا ہے۔ اس وقت 80 فیصد تک اس ویکسین کے نسخے لوگوں کو لگائے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اس وقت ملک میں سائنو فارم کی فیکٹری بھی قائم کر رہے ہیں۔

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ چین پیداواری صلاحیت کے ساتھ آ رہا ہے، افرادی قوت کو تربیت دے رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب چین کا اثر طویل عرصے کے لیے رہے گا۔ اور مستقبل بھی چین کی طرف سے آنے والی کی چیز کو ایسے ممالک انکار نہیں کر سکیں گے۔

محض ویکسین سپر پاور ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس ملک کی عوام کو بھی پہلے ویکسین لگے گی۔

ای آئی یو کی تحقیق کے مطابق چین اور انڈیا میں دنیا کے دو پروڈکشن پاور ہاؤسز میں سب لوگوں کو 2022 تک ویکسین نہیں دی جا سکے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی آبادی زیادہ ہے اور وہاں ہیلتھ ورکرز کی کمی ہے۔

ویکسین کی فراہمی کا نقشہ

انڈیا میں ویکیسن کی تیاری کا سہرا صرف ایک شخص ادار پونے والا کو جاتا ہے، جس کی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا دنیا میں ویکسین بنانے والی بڑی کمپنی ہے۔ مگر گذشتہ سال کے وسط میں ان کے خاندان کو لگا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو گئے ہیں۔ وہ اپنی ہی رقم سے کروڑوں ڈالر ویکسین کے لیے خرچ کر رہے تھے جبکہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ کارآمد بھی ہو گی یا نہیں۔

جنوری میں آکسفورڈ کی تیار کردہ آسترا زینیکا ویکسین انڈین حکومت کے حوالے کی گئی۔ اب ادار پونے والا ایک دن میں 2.4 ملین نسخے تیار کر رہا ہے۔

ادار پونے والا کی کمپنی انڈیا کو ویکیسن فراہم کرنے والی دو کمپنیوں میں سے ایک ہے اور یہ کمپنی برازیل، مراکو، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کو بھی ویکسین فراہم کر رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اب تمام دباؤ اور پاگل پن اب ختم ہو جائے گا کیونکہ ہم نے پروڈکٹ (ویکسین) تیار کر لی ہے۔ تاہم ابھی بھی حقیقی چیلنج ہر کسی کو خوش رکھنا ہے۔ ان کے خیال میں دنیا میں ویکسین تیار کرنے والی دیگر کمپنیاں بھی ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنائیں گی۔ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ پہلے اور شائد اس کے بعد کے چار ماہ بعد بھی اس سال ہم ویکیسین کی فراہمی میں کوئی قابل زکر پیش رفت نہیں دیکھ پائیں گےگ

ویکسین کی اقسام

ان کے ویکسین تیاری کا مرحلہ راتوں رات مکمل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ادار پونے والا کے مطابق یہ ایک وقت طلب عمل ہے۔ ’اب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سیرم انسٹیٹیوٹ نے جادوئی نسخہ تیار کر لیا ہے۔ ان کے مطابق ہم جو کرتے ہیں وہ اچھا ہے مگر یہ جادوئی نہیں ہے۔

اب ادرام پونے والا کو اب ایک فائدہ حاصل ہے کیونکہ اس کی کمپنی نے گذشتہ برس مارچ میں ویکسین تیاری سے متعلق کام شروع کیا تھا اور اگست میں کیمیکلز کا سٹاک اور شیشے کے وائلز جمع کرنا شروع کیا ہوا تھا۔

ویکسین تیاری کے مرحلے میں جتنی تعداد میں ویکسین تیار ہوتی ہے ان کا انحصار مختلف مراحل پر ہوتا ہے اور اس دوران کئی مراحل ایسے ہیں جن میں چیزیں غلط بھی ہو سکتی ہیں۔

اگاتھے دمارائس کے مطابق اس میں اتنا ہی آرٹ ہے جتنی کہ سائنس ہے۔

ان ویکسین مینوفیکچررز کے لیے جو ابھی ویکسین کی تیاری کا عمل شروع کرنے جا رہے ہیں انھیں ویکسین کی تیاری میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ اور یہی معاملہ کسی بوسٹر کی تیاری کا بھی جو اس وائرس کی کی نئی قسم سے نمٹنے کے لیے درکار ہو گا۔

ادرا پونے والا کا کہنا ہے کہ انڈیا کو سب سے پہلے ویکسین کی فراہمی اس کا پہلا عزم ہے اور پھر اس کے بعد کوویکس کے ذریعے افریقی ممالک کو اس ویکسین کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

کوویکس عالمی ادارہ صحت، گاوی، دی ویکسین الائنس، سی ای پی آئی اور ’دی سینٹر فار ایپی ڈیمک پری پیئرڈنس‘ کا ایک اقدام ہے۔ اس پروگرام کا مقصد دنیا کے ہر ملک کے لیے قابل برداشت خرید نرخوں میں ویکسین کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

ایسے ممالک جو یہ ویکسین نہیں خرید سکتے انھیں خصوصی فنڈز سے یہ ویکسین مفت فراہم کی جائے گی۔ دیگر ممالک اس ویکسین کے لیے ادائیگی کریں گے مگر اس پروگرام کے تحت وہ ویکسین کی قیمت پر بہتر بھاؤ تاؤ کر سکتے ہیں۔

کوویکس فروری کے آخر میں ویکسین کی فراہمی شروع کر دے گی۔

کوویکس پلان کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ بہت سے ممالک اپنے طور پر ویکسین کے لیے اس پروگرام سے ہٹ کر ڈیل کر رہے ہیں۔

ادرا پونے والا کا کہنا ہے کہ تقریباً ہر افریقی رہنما ان کے ساتھ ویکسین فراہمی سے متعلق ان سے آزادانہ طور پر رابطے میں ہے۔ گذشتہ ہفتے یوگنڈا نے اعلان کیا ہے کہ اس سیرم انسٹی ٹیوٹ سے فی نسخہ سات ڈالر کے حساب سے 18 ملین نسخے خریدے ہیں۔ کوویکس کو 4 ڈالر فی نسخہ کے حساب سے اس ویکسین کی فراہمی سے یہ ریٹ کہیں زیادہ ہے۔

A woman gets a vaccines at Rajawadi Hospital in Mumbai, India

سیرم انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ وہ یوگنڈا سے مذاکرات کر رہے ہیں مگر انڈین کمپنی نے یوگنڈا سے طے پانے والی کسی ڈیل سے انکار کیا ہے۔

ادرا پونے والا عالمی ادارہ صحت سے ابتدائی منظوری حاصل کرنے کے بعد کوویکس کو اے زیڈ 200 ملین نسخے فراہم کرے گا۔ ادرا پونے والا نے کوویکس کو 900 ملین نسخے دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم انھوں نے اس حوالے سے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب تک یہ دے دیں گے۔ اگرچہ وہ اس پروگرام سے متعلق خاصے پرعزم تھے تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں انھیں مسائل کا سامنا ہے۔

ان کے مطابق کوویکس بہت ساری ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں سے ڈیل کر رہی ہے۔ ان میں سے ہر ویکسین کی علیحدہ قیمتیں اور فراہمی کی مختلف تاریخیں ہیں۔

اگاتھے دمارائس اور ای آئی یو کوویکس کے پروگرام سے متعلق زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ کامیاب بھی ہو گیا تو اس پروگرام کے تحت دنیا کی 20 سے 27 فیصد آبادی تک ہی ویکسین فراہم کی جا سکے گی۔ ادرا دمارائس کے مطابق یہ پروگرام محدود پیمانے پر فرق ڈالے گا مگر یہ کوئی گیم چینجر نہیں ہے۔

اگاتھے دمارائس کی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے لیے پیش گوئی کے مطابق 2023 تک کچھ ممالک میں ویکسین سرے سے یا مکمل طور پر نہیں لگائی جا سکے گی۔ تمام ممالک کے لیے ویکسین لگانا ترجیح نہ ہو خاص طور پر ایسے ممالک جہاں کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو اور وہاں بیمار لوگوں کی تعداد زیادہ نہ ہو۔

اس منظرنامے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وائرس کہیں پنپ سکتا ہے تو پھر یہ کہیں بھی جا سکتا ہے اور اپنی ہییت بدل سکتا ہے۔ ویکسین کے خلاف مزاحمت کرنے والے وائرس کی قسم پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ کوئی مکمل طور بری خبر بھی نہیں ہے۔ اس وقت تیزی سے ویکسین تیار کی جا رہی ہے۔ مگر اس ٹاسک کا حجم بہت بڑا ہے، جہاں 7.7 بلین لوگوں کو یہ ویکسین دینی ہے۔ اس سے قبل ایسی کوئی کوشش کبھی نہیں ہوئی۔

اگاتھے دمارائس کا کہنا ہے کہ حکومتیں اپنی عوام سے دیانتدار رہیں کہ کیا کچھ ممکن ہے۔ اگرچہ یہ کسی حکومت کے لیے کہنا بہت مشکل ہے کہ نہیں ہم کئی برسوں تک ویکسین لگانے کا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہنا چاہتا۔

ڈیٹا جرنلزم: بیکے ڈیل اور ناسوس سٹیلیانو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp