نئی تعلیمی پالیسی بنا نے میں ماضی کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کریں : ماہرین تعلیم


ادارہ برائے سماجی انصاف کے تعاون سے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں محققین، انسانی حقوق کے کارکن اور تعلیمی اداروں سے وابستہ شرکاء نے جہاں بڑے پیمانے پر ایجوکیشن پالیسی 2021 کے بارے میں سفارشات طلب کرنے کے حکومت کے اعلان کا خیرمقدم کیا وہیں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کو گزشتہ تعلیمی پالیسیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس مشق میں ان غلطیوں سے بچنا چاہیے جو پچھلی چھ تعلیمی پالیسیوں کے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد میں کی گئیں۔

مشاورتی اجلاس میں شامل ڈاکٹر عبدالحمید نئیر، ڈاکٹر یعقوب بنگش، زیبا ہاشمی، ڈاکٹر افشاں ہما، انجم جیمس پال، پیٹر جیکب اور ابراہم مراد نے تعلیم کی ترقی کے لئے دیرینہ تاریخی عزم کا اعادہ کیا جو تمام انسانوں کے وقار اور معاشرتی ترقی کو قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ شرکاء نے اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کیا کہ اب تک کی تعلیمی پالیسیاں کچھ غیر معقول تجربات کا شکار ہوئیں جس کی ایک مثال 1972 کی تعلیمی پالیسی میں تعلیمی اداروں کو قومیائے کرنے کا فیصلہ تھا جس نے تعلیم کے معیار کو کافی نقصان پہنچایا جبکہ حکومتیں تعلیم کے شعبے کے لئے خاطر خواہ وسائل مختص کرنے میں ناکام رہی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی، تعلیم کے معیار، او دوسرے پہلوؤں میں پاکستان خطے کی دیگر ممالک سے پیچھے ہے۔

اجلاس میں انسانیت اور قومی مقاصد میں تعلیم کے لئے اقلیتی برادری کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی دیرینہ وابستگی کی توثیق کرتے ہوئے حکومت سے درخواست کی گئی کہ تعلیمی اداروں کو درپیش مشکلات کو دور کرے اور قومی تعلیمی پالیسی 2021 تشکیل دیتے وقت پاکستان کی تاریخ اور ترقی میں مسیحی برادری کے زیر انتظام اسکولوں کے ذریعہ ادا کردہ خصوصی کردار کو تسلیم کریں۔ اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ 1980 کی دہائی میں اپنائی جانے والی ڈی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر اب تک مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور تقریباً نصف اسکول اور کالجز اب بھی صوبائی حکومتوں بالخصوص حکومت پنجاب کے زیر کنٹرول ہیں جبکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس عمل کو تیز کرے اور تا حال حکومتی تحویل میں چرچ کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی واپسی کا کام مکمل کریں۔

ماہرین تعلیم نے سکولوں کی تحویل کے ساتھ مناسب وسائل مختص کرنے پربھی زور دیا تاکہ چرچ کے زیر انتظام اسکولوں کو ان کے انتظامی اخراجات کو پورا کرنے میں ضروری الاؤنس اور مراعات دی جاسکیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر غیر منافع بخش اور غیر تجارتی ادارے ہیں اور ان کو ٹیکس ادا کرنے سے مستثنی ٰکیا جائے۔ اس کے ساتھ ان وسائل کو مختص کرنے اور چرچ کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت کی اسکیموں کی سہولت مہیا کی جائے اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور ترقی میں درکار اخراجات میں مدد دی جائے اس سے نہ صرف تعلیم کے فروغ بلکہ حکومت کو ملینیم گول کو پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

محققین نے تجزیہ پیش کیا کہ ماضی میں تعلیم کی پالیسیوں کے تفریقی پہلوؤں نے معاشرے میں عدم رواداری پیدا کی ہے جبکہ نفرت انگیز مواد کو ختم کرنا ایک پہلا قدم ہے جس کے ساتھ، وزارت تعلیم کو مذہب، صنف، فرقہ، زبان، نسل وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے بچنے کے بارے میں صوبائی محکمہ تعلیم، اور ٹیکسٹ بک بورڈ کو مخصوص ہدایات جاری کرنا چاہیں۔ وزارت کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ نظام تعلیم طلباء کی شناخت کی بنیاد پر کوئی ترجیح نہیں دکھائے گاتا کہ تعلیم نفرت کو پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال نہ ہو۔

اجلاس میں شامل تمام شرکاء نے سینیٹ کے حالیہ بل کے بارے میں سخت تحفظات کا اظہار کیا جو عربی کی تعلیم کے کردار کو فروغ دے گا۔ اس بات پر متفقہ رائے قائم کی گئی کہ نہ صرف کہ یہ قدم مناسب مشاورت کے بغیر اٹھایا گیا بلکہ مختلف طبقات، مذاہب اور لسانی روایات سے تعلق رکھنے والے بچوں پر اس کا امتیازی اثر پڑنے کا مکان ہے۔ لہذا قومی اسمبلی سے اپیل کی گئی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر خصوصا۔ ً ماہرین تعلیم اور لسانیات کے مشورے کے بغیر بل کو منظور کرنے سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments