معرکۂ سائنس و مذہب اور غامدی صاحب کا سرسری جواب


نوجوان مذہبی عالم حسن الیاس نے اپنے استاد جاوید احمد غامدی کے سامنے یہی سوال رکھا۔ سوال کی بنیاد یہ مفروضہ تھا کہ اگر سائنس اس قدر ترقی کر لے کہ انسانی زندگی سے موت کا تصور ہی ختم ہو جائے تو کیا اس سے مذہب کی بنیاد ہی ختم نہیں ہو جائے گی؟

جواب میں غامدی صاحب نے جو کچھ فرمایا ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سائنس خدائی کاموں میں اس قدر مداخلت کرے گی تو قدرت بھی خاموش نہیں بیٹھے گی اور ایسی جسارت کا انسداد ہو گا۔

میں نے جاوید احمد غامدی کو جتنا پڑھا اور سنا ہے ، اس کو سامنے رکھ کر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان کے لئے اچانک اور غیر متوقع سوال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کا جواب دے کر آگے بڑھ گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا یہ جواب بات ختم کرنے کے لئے تو کافی ہو سکتا ہے لیکن اس میں ہم جیسوں کی تسلی کرنے والی بات نہیں ہے۔

یہ ایسا سوال ہے کہ اس پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ کیا مذہب اپنے کامل نفاذ کے لئے موت کے ادارے کا محتاج ہے؟

حسن الیاس کا سوال کہ ’کیا سائنس نے مذہب کے مقدمے کو شکست دے دی ہے؟‘ ہمارے لیے بھی غور و فکر کے دروازے کھولتا ہے۔ موت کی محتاجی والا سوال ہٹا بھی دیا جائے،  تب بھی یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ہماری دنیا میں سائنس نے مذہب اور مذہب نے سائنس کے سامنے کیا کوئی چیلنج کھڑا کیا ہے؟ کیا سائنس کی ترقی نے مذہب کے بیانیے کی جڑوں کو ہلا دیا ہے؟ یا پھر مذہب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سائنس کی پوری ریاضت جاگتی آنکھوں کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں؟

اہل مذہب نے سائنس کے ساتھ مذہب کے رشتے کو دو صورتیں دی ہیں۔ ایک طبقہ مذہب کے مقابلے سائنس کو تقریباً رد کرنے پر یقین رکھتا ہے جبکہ ایک گروہ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی کے امکانات ڈھونڈنے میں مسلسل مصروف نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی درجنوں تقریریں یوٹیوب پر مل جائیں گی جن میں وہ کسی سائنسی نظریہ کی بنیاد مذہبی متن میں دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ دیگر مذاہب میں بھی اپنے مذہبی بیانیہ کی سائنسی بنیادیں کھوجنے کا کام آپ اپنے چاروں طرف خوب دیکھ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس زور آزمائی کی جڑ کیا ہے؟

سائنس کے ساتھ خود کی ہم آہنگی ثابت کرنے کی کوشش کرنے والی نفسیات کو ایک مثال سے سمجھیے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں ایک مذہبی عالم بچوں کو بتا رہے ہیں کہ زمین اپنی جگہ رکی ہوئی ہے۔ اس ویڈیو پر ہاہا کار مچی تو بہت سے مذہبی علما آگے آئے اور بتانے لگے کہ زمین کے ساکن ہونے والی بات مذہبی متن کو سمجھنے میں غلطی کا نتیجہ ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا جیسے جدید فکر والے مذہبی اسکالر ثابت کرنے لگے کہ مذہبی متن میں یہی لکھا ہے کہ زمین گردش کر رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ مذہبی طبقہ اپنے مذہبی متن کی وہی تفہیم کرنا چاہتا ہے جو رائج سائنسی نظریات سے میل کھاتی ہو۔ یہ رویہ جانے انجانے میں اس بات کا اعتراف ہے کہ موجودہ دنیا میں حقائق کو پرکھنے کی کسوٹی سائنس ہی ہے۔

اسی فکر کا نتیجہ ان سیکڑوں کتابوں اور خطبات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ، جن کا موضوع مذہب اور سائنس کو ایک بتانے کی کوشش ہے۔ اس سوچ نے سائنس کا کچھ بھلا کیا یا نہیں ، یہ تو جانے دیجیے البتہ مذہب کے لئے مشکلات ضرور پیدا کر دیں۔ اگر مذہب اور سائنس کو دو بالکل مختلف امر مان کر دونوں کی دنیا الگ رکھی جاتی تو دونوں گھر بسے رہ سکتے تھے لیکن اس زبردستی کے تقابل یا تطابق کی کوششوں نے نیا جھمیلا پیدا کر دیا۔ اب سائنس والے مذہب کو سائنسی اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہب والے سائنس کو روحانیت کے ترازو میں تولنے کو بے تاب رہتے ہیں۔

مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے بھڑانے یا پھر ایک دوسرے کا شریک بنانے کی کوشش کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ دونوں اپنی بنیاد میں ہی دو بالکل مختلف حقائق ہیں۔ دونوں میں دو سب سے بنیادی فرق ان کی نظریاتی اور اصولی حیثیت کے ہیں۔

مذہب اور سائنس کے درمیان تقابل کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ دائمی، قطعی اور آسمانی ہونا مذہبی تصورات کا لازمہ ہیں۔ ان تصورات میں ذرہ برابر تبدیلی بھی اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس کی آسمانی اجازت ہو۔ ان تصورات میں انسانوں کا کوئی کردار نہیں اور انہیں فقط ان پر ایمانداری سے عمل کرنا ہے۔ حتیٰ کہ خدا اور انسانوں کے درمیان وسیلہ اور امین بنی ہستی بھی اس پیغام میں اپنی جانب سے کسی کمی زیادتی کی مجاز نہیں۔

اب ذرا سائنسی تصورات کی نوعیت دیکھیے کہ ان کے لئے نہ تو کوئی آسمانی جواز لازمی ہے اور نہ ہی ان میں دائمی اور قطعی ہونے کی شرط ضروری ہے۔ سائنسی تصورات کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ اسی وقت تک قطعی رہتے ہیں جب تک کہ کوئی نئی حقیقت نہ کھوج لی جائے۔ سائنس ہر نئے تصور کے ثابت ہوتے ہی سابق تصور کو منسوخ کر دیتی ہے۔ معلوم ہوا کہ سائنس میں دائمی تصور جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

سائنس اور مذہب میں دوسرا کلیدی فرق پہلے فرق سے ہی ملتا جلتا لیکن اپنی جگہ مستقل ہے۔ وہ یہ کہ تکمیل مذہب کا خاصہ ہے اور مسلسل نمو پذیری سائنس کی اساس ہے۔ مذہب سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی کامل اور قطعی شکل میں سامنے آئے لیکن سائنس کے پاس یہ سہولت نہیں بلکہ اسے تو مسلسل ترقی پذیر رہنا ہے، سائنس خود کے ذریعے کھوجی گئی ہر حقیقت کو مسلسل پرکھتے رہنا ہے اور اس سے زیادہ ٹھوس حقیقت تک پہنچنے کی تگ و دو میں خود کو ہمیشہ مصروف رکھنا ہے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو مذہب ایک علم کے طور پر اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے لیکن ہر لمحہ آگے بڑھتے رہنے کے باوجود سائنس کی زندگی میں شاید کبھی وہ منزل نہیں آئے گی جہاں سے آگے نہ بڑھا جا سکتا ہو۔

ایسے صریح فرق کے بعد اس بات کی کہاں گنجائش تھی کہ سائنس اور مذہب کا تقابل ہوتا یا پھر دونوں کا ایک دوسرے سے عقد کرانے کی کوششیں کی جاتی لیکن اس دل کا کیا کیجیے۔ سائنس اور مذہب کے یہ مناظرے شروع ہی تب ہوتے ہیں جب سائنس یا مذہب میں سے ایک کوئی ایک یا پھر دونوں اپنی پٹڑیاں چھوڑ کر دوسری لائن پر آ جاتے ہیں اور پھر بڑے زور کی ٹکر ہوتی ہے۔

پٹڑی چھوڑنے کی ایک مثال بیان کر کے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ کورونا وائرس کا قہر برپا تھا اور ایک ذاکر مولانا کمیل مہدوی صاحب مجلس سے خطاب فرما رہے تھے۔ کہنے لگے ’’یہ لوگ اپنی سائنسی تحقیقات پر کتنا فخر کرتے پھر رہے تھے ، اب ذرا دیکھو کہ ایک چھوٹے سے وائرس نے ان کو ان کی حقیقت بتا دی‘‘ ۔ مولانا کی بات سن کر سامعین پھڑک اٹھے اور داد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

مولانا نے جو پھلجھڑی چھوڑی یہی وہ باتیں ہیں جو مذہب اور سائنس کو مناظرے کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مولانا وبا اور موت کے روحانی مباحث کا تجزیہ فرماتے لیکن انہوں نے مائیک کے سامنے بیٹھ کر اور کیمرے کے ذریعے انٹرنیٹ پر نشر ہونے والی مجلس میں سائنس کی کمزوری بیان کرنا زیادہ مناسب جانا۔ اس بات کے جواب میں مولانا سے سائنس والے ایک سوال کر سکتے ہیں، جس کا جواب دینے میں مولانا کو کافی دقت آ سکتی ہے۔ اگر سائنس والے پلٹ کر پوچھ لیں کہ انسانیت کے وجود کو معلوم انسانی تاریخ کا سب سے سنگین خطرہ اس وبا کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ اس ہیبت ناک بحران سے نمٹنے میں انسانیت کی مذہب نے کیا مدد کی؟ وہ دوا کس نے بنائی جو اس بحران میں انسانیت کا سب سے بڑا ہتھیار بنی ہے؟

اس تنازع کا حل ایک سیدھی سی بات سمجھنے میں ہے اور وہ یہ کہ مذہب اور سائنس اپنی مخصوص عمل داری میں کام کرتے ہیں۔ جس طرح مذہب سے یہ توقع بے جا ہے کہ وہ کورونا ویکسین تیار کرے گا ، اسی طرح سائنس کو بھی یہ طعنے نہیں دیے جانے چاہئیں کہ تم نے اتنی ترقی تو کر لی لیکن انسانوں کی روحانی طہارت اور اخلاقی تربیت کے لئے تم نے کیا کیا؟

مذہبی بیانیہ کو سائنسی نظریات سے ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یہ نظریات حرف آخر نہیں ہیں۔ اگر کوشش کر کے آج کے کچھ نظریات میں مذہبی بیانیہ کو پانی دینے والی باتیں نکال بھی لی گئیں تو کیا خبر کہ کل خود سائنس ہی ان نظریات کو رد کر دے۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے آپ کی قیمتی سامان سے بھری الماری جس قالین پر رکھی ہو ، اسے کوئی اچانک کھینچ لے۔ اس صورت میں الماری اور سامان دونوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو گا۔

مذہب ہزاروں برس سے اپنی خصوصیات اور اپنے ماحول میں سفر کرتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں اس کو قبولیت بھی ملتی رہی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو بلا وجہ ایک بالکل مختلف دنیا میں گھسیٹ کر نئے امتحان میں ڈالا جائے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments