محبت، پہاڑ، سدپارہ اور میں


واصف علی واصف نے کہا تھا

”زمین کے سفر میں واحد آسمانی چیز محبت ہے“

اور یہ جملہ میری زندگی میں مختلف مراحل میں کئی معنوں کے ساتھ مجھ پہ کھلتا رہا۔ محبت واقعی آسمانی شے ہے۔ اس کا زمینی سطح پہ رہنے والے ذہنوں سے کوئی میل نہیں ہے۔

یہ انہی دماغوں کا وسوسہ ہے جن کی اڑان کی حدود پروں کے ناپ تول پر منحصر نہیں ہوتی۔

بھلا ہم اس کے بارے میں کچھ کہنے کے اہل ہیں؟ جو فکر معاش میں صبح آنکھ کھولتے ہیں اور رات کو آنکھ بند کرنے تک ہمارے حلیے سے لے کر کھائے جانے والے ہر نوالے کا انتخاب بھی معاشرتی دباؤ میں کیا جاتا ہے۔ ہم راتوں کے اندھیرے میں دیکھے جانے والے خواب دن کی روشنی میں اس لئے بھی یاد نہیں رکھتے کیوں کہ ہم میں ان کو پورا کرنے کی ہمت نہیں۔

مگر ہم میں سے دو چار سر پھرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو انہی راتوں کے اندھیرے میں محبت کی مہم روشنی لیے ان خوابوں کا تعاقب میں کبھی نا لوٹنے کے اس آسمانی سفر پہ روانہ ہو جاتے ہیں۔

یوں تو محبت کے کئی روپ ہیں مگر نہ جانے کیوں ہم بد قسمتی سے ایک ہی روپ سے واقف ہیں۔

پچھلے کچھ وقت سے میں کئی مقامات پہ یہ دیکھ رہی ہوں کہ ایسے ہی کچھ لوگ کوہ پیما اور ان کے عشق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ”قدرت سے مقابلہ“ کرنے جیسے احمقانہ جملوں میں باندھ رہے ہیں!

میرا ان سے سوال ہے کہ کیا آپ محبت کے کسی بھی روپ سے واقف ہیں؟
کیا آپ لیلی مجنوں، ہیر رانجھا جیسی کہانیاں سن کر بھی ایسے سوالات کرتے ہیں؟
کیا آپ اولاد کے دکھ میں مرنے والی ماں کو بھی ایسے الزامات دیتے ہیں؟
کیا آپ جنگ میں مرنے والے سپاہی کو موت کو للکارنے پہ قدرت سے مقابلے نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟
کیا آپ کربلا کے میدان میں کی جانے والی محبت کو بھی خودکشی کا نام دیں گے؟

محبت چاہے کسی انسان سے ہو کسی رشتے سے، وطن سے ہو خدا سے ہو یا کسی پہاڑ کی چوٹی سے محبت ہر روپ میں آسمانی ہے اور اس کی وسعت ہمارے سطحی ذہنوں سے کئی زیادہ ہے۔

پہاڑوں سے میری محبت میرے جاننے والوں سے ڈھکی چھپی نہیں اگرچہ میری محبت کوہ پیمائی جیسے عشق کی صورت تو نہیں لے پائی۔ مگر چوٹیوں سے وابستہ جذبات ہمیشہ میری شخصیت کا نمایاں حصہ رہے۔

میں بچپن سے پہاڑوں کو دیکھ کر ان کے مزاج کے خاکے بناتی تھی میں سوچتی تھی کہ انسانوں کی طرح ہر پہاڑ ایک الگ مزاج کے ساتھ زمین پہ قدم جمائے کھڑا ہے کوئی غصے والا ہے تو کوئی بہت خوش مزاج۔ کوئی پہاڑ اپنی وسعت میں عظیم ہونے کے باوجود بھی نرم دل کا مالک ہے اور کوئی اپنی وجاہت کے خمار میں گم۔

مجھے ہمیشہ پہاڑوں کی ایک صفت بہت مائل کرتی تھی کہ یہ اپنی جگہ کھڑے رہتے ہوئے بھی خود سے کئی راستے نکال دیتے ہیں۔ اپنی وجاہت قائم رکھے یہ مسافر کو اس کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ چاہیں تو ان میں گھر کر لیں اور چاہیں تو ان سے راستے نکالتے ہوئے اپنی کسی منزل کو جا پہنچیں۔ چاہیں تو انہیں سر کر لیں اور چاہیں تو بس ایک نظر دیکھ کر اپنی محبت کا اظہار کر لیں!

مگر جہاں یہ پہاڑ منزلوں تک لے جانے والے ہیں وہیں ان میں سے کچھ پہاڑ آپ کی آخری منزل بن جاتے ہیں!
انہی سب خاکوں کی بناوٹ میں میرا تعارف ”نانگا پربت۔ دی کلر ماؤنٹین“ سے ہوا۔
Believe me it was love at first sight.
یہ پہاڑ 1895 سے 1953 تک کسی کی محبت سے قائل نہیں ہوا!
اور پھر 1953 میں ہرمن بہل نامی شخص کے ہاتھوں دل ہارنے والے اس پہاڑ پہ میرا دل آ گیا!

اس چوٹی سے میری محبت عجب ہے۔ چاہے وہ فیری میڈوز ہو یا ترشنگ میں نے جب بھی اس پر پہلی نظر ڈالی میں اس احساس کو کسی بھی زمینی جذبے سے نہیں ملا پائی!

اسی محبت کے راستے میں مجھے محمد علی سدپارہ بھی ملے جنہوں نے 2016 میں پہلی مرتبہ سردیوں میں اور 2017 میں پہلی بار خزاں میں نانگا پربت سر کیا!

انہوں نے دنیا کی 14 بڑی چوٹیوں میں سے 8 سر کی ہیں مگر میرا ان سے لگاؤ نانگا پربت کی بدولت رہا۔
نانگا پربت نے اپنا دل محمد علی سدپارہ کو 4 بار 2008، 2009، 2016، 2017 میں دیا۔

ہمیشہ سوچتی تھی کہ جب بھی ان سے ملوں گی تو اسی عاشق کے جیسے ان سے ساری روداد سنوں گی جو جواب نا آنے تک روز ہی قاصد سے محبوب کے خط لینے کی منظر کشی کرواتا ہو۔

مگر اس سے پہلے کہ میں ان تک پہنچ سکتی وہ اس سفر میں بہت آگے نکل گئے!
آپ یقین کریں یا نا کریں پہاڑوں سے عشق وجود رکھتا ہے اور اس کی گواہی میں آپ کو دیتی ہوں۔

اس کی گواہی محمد علی سدپارہ سمیت وہ تمام کوہ پیما دیتے ہیں جو انہی پہاڑوں میں کبھی نہ لوٹنے کے آسمانی سفر پہ رواں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments