محبت، پاکستانی ثقافت اور ویلنٹائن ڈے


2014 کے بعد سے پاکستان میں ویلنٹائن ڈے اور اس کے جشن منانے کی مخالفت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ 2016 میں اس وقت کے صدر ممنون حسین نے، جو کہ سیاسی منظر نامے سے غیرحاضری کی وجہ سے بدنام تھے، لوگوں کو ویلنٹائن ڈے نہ منانے کی تاکید کی۔

ویلنٹائن ڈے میں صدر ممنون حسین کو اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ یہ موضوع سردار عبدالرب نشتر کی برسی کے موقع پہ بھی  چھیڑ نے سے نہیں چوکے۔ 2017 میں ایک پاکستانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ویلنٹائن ڈے کے خلاف پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ جشن پاکستان میں ”غیر اخلاقی، عریانی اور فحاشی“ پھیلانے کا سبب ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویلنٹائن ڈے کے فروغ پر پابندی عائد کر دی۔

اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیو ٹی وی چینل اور اس کے اینکرز کو ویلنٹائن ڈے پر پابندی کے خلاف بولنے پر شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے ۔ مذہبی جماعتیں متبادل کے طور پر اس دن کو’ یوم حیا‘  کے طور پر مناتی ہیں، گویا صرف بے حیا پاکستانی مرد و خواتین ہی ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ ایک یونیورسٹی نے اس دن کو ’بہنوں کے دن‘  کے طور پر منانے کا اعلان کیا، اور دعویٰ کیا کہ بہنوں کا دن ”پاکستان کی ثقافت اور اسلام کے مطابق ہے“۔ اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر کافی لطیفے بھی بنے۔

ویلنٹائن ڈے کے لیے مذکورہ بالا سارے متبادل نام اس مفروضہ پہ لگتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے بے حیا اور خاندان مخالف ہے، اس سے گھٹیا اخلاقیات اور جنسی بے راہ روی کو فروغ ملتا ہے، اوریہ کہ یہ ایک مغربی ثقافتی درآمد ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اور ترکی جیسے دوسرے مسلم ممالک کے کچھ علما نے کہا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانا ممنوع نہیں ہے۔

انسان متجسس ہوتا ہے کہ محبت کے اظہار میں ایسی کیا بات ہے جو پاکستان میں مذہبی لوگ، پاکستانی ریاست اور مختلف ادارے اس کی مخالفت میں اکٹھے ہو جاتے ہیں؟ تجسس یہ بھی ہوتا ہے کہ کیا پابندی لگانے یا چیزوں کا نام بدل دینے سے ثقافتی تبدیلی رک سکتی ہے یا کوئی مذہبی ضابطہ بحال ہو سکتا ہے؟ ان سب سے صرف مزید منافقت اور چھپن چھپائی کو فروغ ملتا ہے۔

اگر ہم ثقافت کی بات کریں تو وہاں ملے جلے پیغامات ہیں۔ ایک طرف لوگ ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مینیوال کی لوک داستانیں سناتے، گاتے اور مناتے ہیں۔ دوسری طرف، رومانوی رشتے کے تناظر میں محبت انتہائی برا اور شرمناک لفظ بن جاتا ہے۔

ہمارے بیش تر مشہور شعراء اپنی محبوباؤں کے لبوں، آنکھوں، بالوں اور ان کے خال و خد کے بارے میں کیا کیا نہیں لکھتے۔ لیکن دوسری طرف عام لوگوں کا کھلا اظہار محبت ایک شرمناک فعل بن جاتا ہے۔ الٹا لوگوں کو سرزنش کی جاتی ہے کہ محبوب کے زلفوں کا جال تو دراصل خدائے حقیقی تک نارسائی کا شکوہ ہے۔ اب کوئی ان متضاد ثقافتی اثرات کا جواز کیسے ڈھونڈے اور صرف مغربی ثقافت کو مورد الزام کیوں اور کیسے ٹھہرائے؟

ہماری 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور سوشل میڈیا تک آسان رسائی رکھتی ہے۔ ہمیں اس آبادیاتی اور سماجی تبدیلی کے مطابق اپنے قومی رویوں کو تبدیل کرنے پر آمادہ ہونا چاہیے۔ ثقافت جامد نہیں ہے۔ لوگوں کی مزاحمت کے باوجود ثقافت واضح یا مرئی طریقوں سے بدلتی رہتی ہے۔

اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ جوان لوگ ڈیٹنگ کرتے ہیں۔ کیا کوئی ادارہ یا والدین لوگوں کو ڈیٹنگ سے روک سکتے ہیں؟ ممکن ہی نہیں۔ ایسے میں پاکستانیوں کو پاکستان میں ثقافتی تبدیلی کو تھوڑیٖ فراخ دلی سے پرکھنے، سمجھنے اور اپنے رویے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ویلنٹائن ڈے کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر بھی ہمارے عام ثقافتی اصول کا عکاس ہے کہ ”کرو لیکن بتاؤ مت“ ۔ سب پابندیوں کے باوجود بھی جن لوگوں کی روپے پیسے، نجی جگہوں اور دیگر مطلوبہ وسائل تک رسائی ہے، وہ ویلنٹائن ڈے کو منانے کے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ نتیجے میں کم وسائل کے حامل اور نسبتاً متوسط ​​طبقے کے لوگوں کو ہمیشہ کی طرح اخلاقیات، ثقافت اور روایت کا پرچم سنھبالنا پڑتا ہے۔ زیادہ روایتی یا مذہبی لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچے ایک نئی  اور مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں اور ان چیزوں سے متعلق ان کا نقطۂ نظر بھی مختلف ہے۔

اگر والدین اپنے بچوں کو شرمندہ کرنے کی بجائے یہ تسلیم کر لیں کہ اب چند ثقافتی اصول بوسیدہ ہیں اور زیادہ عرصہ نہیں چلیں گے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو ان کی رومانوی زندگی کے بارے میں بے خوف اور با اعتماد طریقے سے سوچنے کے قابل بنائیں تو ان کے بچے باخبر، بہتر اور دانش مندانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔ اگر والدین کو اپنے بالغ بچوں کے فیصلے سمجھ نہیں بھی آتے، تب بھی وہ بچوں پر اعتماد کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ اپنی زندگی کے درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر والدین معاشرتی دباؤ کے زیر اثر ایسا نہیں کرتے تو پھر حالیہ غیر قانونی اسقاط حمل کے دوران نوجوان لڑکی کی موت جیسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے واقعات اور اس طرح کی ہلاکتیں زیادہ نہیں ہوتیں۔ محبت صرف جنسی ہی نہیں ہے جو کہ ہماری ثقافتی روایات، زبانی حکایات، اور ادبی تحریروں میں واضح ہے۔ بہرحال لوگوں کو شرمندہ کرنے، احساس گناہ دلانے اور ثقافت اور مذہب کا واسطہ دینے کی بجائے ان امور کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور ان مسائل کا حل تلاش کرنا زیادہ صحت مند اور مؤثر طریقہ ہے۔

لوگ اخلاقی گراوٹ اور خواتین کی خود مختاری (بہ زبان دیگر خواتین کی کھلی آزادی) کو طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، مگر انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تعلیم یافتہ، سمجھ دار، با اعتماد، ملازم پیشہ مرد و خواتین بری اور پر استحصال شادی پہ علیحدگی کو چن لیتے ہیں۔ کیا معاشرتی امیدوں پہ پورا اترنے کے لیے لوگوں کو اپنی زندگی قربان کرنی چاہیے؟ یا شروع سے ہی اپنی پسند کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ انجام بھی بہتر اور پر اطمینان ہو۔ اگر ہم ’محبت‘ اور ’ڈیٹنگ‘ کے الفاظ کو غیر جانب دار اور عمومی بنائیں تو ویلنٹائن ڈے جیسی روایات مثبت قوت ثابت ہو سکتی ہیں۔

اگر جوان لوگ باشعور ہوں، ان کے اہل خانہ کا ان پر اعتماد ہو تو وہ اپنی زندگی کے بارے میں باخبر فیصلے کر سکتے ہیں۔ دیکھ بھال کر اپنے لیے ایک بہتر، زیادہ مناسب جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس سے خوشگوار اور جذباتی طور پر صحت مند افراد اور کنبے اور نتیجتاً ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments