ڈان اور مافیاز


پاکستان میں جب وی سی آر نیا نیا آیا تھا تو وہ امیتابھ کے عروج کا زمانہ تھا۔ کمرشل فلموں میں بھی اسمگلنگ کے علاوہ سرمایہ داروں کے استحصال، مزدوروں کی حالت زار اور ٹریڈ یونین لیڈروں کی جد و جہد کو موضوع بنایا جاتا تھا۔ وہاں بیکار فلمیں بھی بنتی ہیں مگر سیاستدانوں کی ہوس اقتدار کے بارے میں تو بے شمار اور بہت اچھی فلمیں بنیں اور آج بھی وہاں ریپ، مرد اور عورت کے علاوہ دیگر صنفی شناختوں اور عوامی مسائل کے بارے میں حساس انداز میں خوبصورت اور اچھی فلمیں بنتی ہیں۔

میں سوچتی ہوں کہ ہم عوامی موضوعات پر فلمیں اور تھیٹر و ٹی وی ڈرامے کیوں نہیں بناتے۔ ویسے بھی یہ تو ڈیجٹل میڈیا کا دور ہے اور سیاستدانوں کی خریدو فروخت کے بارے میں ویڈیو ریلیز ہو رہی ہیں تو عوام کے مسائل اور حکومت اور بلڈرز کس طرح انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں، اس بارے میں بھی کوئی فلم یا ڈرامہ بن سکتا ہے۔

ایک تو جب میں لوگوں کو زمین اور جائیداد کی ہوس میں مبتلا دیکھتی ہوں تو بے ساختہ ٹالسٹائی کی کہانی یاد آتی ہے کہ آخر ایک انسان کو کتنی زمین چاہیے؟ مرنے کے بعد تو سب کو ڈھائی گز زمین ہی ملتی ہے تو پھر اتنا لالچ کس لئے؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہری کو رہنے کو ایک چھوٹا سا گھر مل جائے، بے زمین کسانوں کو وہ زمین مل جائے جس پر وہ غیر حاضر زمینداروں اور وڈیروں کے لئے اپنا خون پسینہ بہا کر فصل اگاتے ہیں، مزدوروں کو کارخانوں اور صحافیوں اور دفتری کام کرنے والوں کو اپنے اداروں اور کمپنیوں میں شیئر ہولڈر بنا کے منافع میں حصہ دیا جائے۔ تو ہم ریاست سے سگی ماں جیسی محبت کرنے لگیں گے۔

بات ہو رہی تھی فلم یا ڈرامے کی تو چلئے وہ لوگ جو فلم یا ڈرامہ تیار کرنا چاہتے ہیں، ان کو میں ایک آئیڈیا دیتی ہوں۔ ایک شخص ہے جو بے حد با اختیار ہے، اسے جہاں کوئی اچھی زمیں یا رئیل اسٹیٹ نظر آتی ہے، وہ اسے ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایک بلڈر ہے، اسے بھی زمین ہتھیانے کا شوق ہے لیکن وہ اس زمین پر امیروں کے لئے بستیاں بساتا ہے اور اس کے لئے غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرتا ہے۔ بلڈر اور صاحب اختیار شخص کا گٹھ جوڑ ہو جاتا ہے۔ دونوں مل کے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان کی بستیاں مسمار کر کے امیروں کے لئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس فلم میں مختلف غریب گھرانوں کی کہانیاں الگ سے دکھائی جائیں گی کہ اس سارے عمل میں ان پر کیا گزرتی ہے۔

یہ سب کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کراچی والوں کو یعنی کراچی کے غریب عوام کو زمین اور مکانات کے حوالے سے آئے دن نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے سرکلر ریلوے کی بحالی کا غوغا اٹھا۔ عدالت عالیہ کا فیصلہ آیا کہ ریلوے لائن کے آس پاس بنے ہوئے مکانوں کو تو جلد از جلد گرا دیا جائے اور ایک سال بعد متاثرین کے لئے متبادل رہائش کا انتظام کیا جائے۔ اب کوئی پوچھے درمیانی عرصہ میں وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ لیکن سوال اٹھانے کی ہمت کس میں تھی۔ اس سے پہلے کراچی کو پرانی حالت میں واپس لانے کے لئے ٹھیلوں اور فٹ پاتھوں پر کاروبار کر کے زندگی کی گاڑی گھسیٹنے والوں کو روزگار کے لئے متبادل جگہ فراہم کیے بغیر بھوکا پیاسا مارنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

گزشتہ بارشوں میں جب کراچی کے امیروں اور غریبوں دونوں کے گھروں میں پانی گھس آیا تو بہت شور مچا اور عوام کو بتایا گیا کہ یہ سب بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے بنائے جانے والے نالوں پر تجاوزات کا نتیجہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکلر ریلوے، ملیر ایکسپریس وے، گجر نالہ اور منظور کالونی نالہ کے منصوبوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگ در در مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اب ہم جیسے سادہ لوح لوگ تو یہی سمجھیں گے کہ غلط جگہ پر مکانات بنائے گئے تھے، اس لے گرائے جا رہے ہیں لیکن عوام دوست اربن پلانر عارف حسن نے جب ہمیں حقیقت حال بتائی تو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ حکومت اور بلڈرز تو مافیا بن چکے ہیں اور ڈون کی طرح کام کر رہے ہیں۔

ایک ٹیکنیکل ادارے کے سروے کے مطابق صرف چالیس مکانات گرانے کی ضرورت تھی لیکن یہاں بستیوں کی بستیاں گرا دی گئیں۔ بھلا کیوں؟ عارف حسن کے مطابق حکومت اور بلڈرز کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں غریبوں اور کم آمدنی والے لوگوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں تاکہ بلڈرز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں کو نوازا جا سکے۔ ان کی معلومات کے مطابق حکومت بلڈرز کے ساتھ (عوام دشمن) ترقیاتی منصوبوں پر دستخط بھی کر چکی ہے۔

ایک اور عوام دوست اربن پلانر ڈاکٹر نعمان احمد کی رائے میں ’بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بناتے وقت محنت کش طبقے کی رائے نہیں لی جاتی، دوسری طرف ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ عوام کو صرف پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے کا موقع دیا جاتا ہے اور بس‘ ۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس سے براہ راست متاثر ہونے والے عوام سے رائے ضرور لی جائے اور عوام کے لئے متبادل انتظام کیے بغیر کوئی منصوبہ شروع نہ کیا جائے۔

ہم جب چین میں تھے تو وہاں تین گھاٹی ڈیم بنانے کے بارے میں کوئی تیس سال سے بحث چل رہی تھی۔ ایک سے زیادہ مرتبہ فیزیبلٹی اسٹڈی کی جا چکی تھی لیکن بڑا ڈیم بناتے وقت بہت سے لوگوں کو اپنی آبائی جگہ چھوڑنی پڑتی ہے، یہ نہ صرف اقتصادی بلکہ جذباتی مسئلہ بھی ہوتا ہے، اس لئے حکومت جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چین میں مغربی جمہوریت نہ سہی لیکن وہاں حکومت ترقیاتی منصوبے اور پالیسیاں بناتے وقت عوام سے رائے ضرور لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments