ہندوستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کا ایک ورق


تاریخ کے معتبر ہونے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ لکھنے کا موقع ہی اسے ملتا ہے جو فاتح ٹھہرتا ہے۔ لیکن جدید دور میں جہاں معلومات نہ صرف آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں بلکہ ان کے ایک سے زائد ذرائع تک رسائی بھی مشکل نہیں رہی۔ تاریخ کو مرتب کرتے وقت حقائق کو تعصب کی نذر ہونے سے بچانا کسی بھی محقق کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔

ہمارے نصاب میں پڑھائی جانے والی تاریخ کسی رخ سے تاریخ کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ کمال خورشید عزیز کی کتاب The Murder of History نصاب میں تاریخ کے نام پہ جعل سازی کی مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ ہے۔ جس میں پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف صوبوں میں نصابی کتب میں درج حقائق کے منافی مواد کی ناصرف نشاندہی کی گئی بلکہ اسے درست بھی کیا ہے۔

پاکستان کی نصابی تاریخ دو قومی نظریے کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ جس میں ہر اس چیز کو حذف کیا گیا جس کا متحمل ہونا دو قومی نظریے کے وجود کے لیے ممکن نہ تھا۔ از سرنو مرتب شدہ تاریخ میں بھارت مخالف عنصر بھی غالب نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ تقسیم سے قبل کے غیر مسلم آزادی کے متوالے، ہماری ہیروز کی فہرست میں جگہ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ایسے افراد میں سر گنگا رام، لالہ لاجپت رائے، بھگت سنگھ جیسی شخصیات بھی شامل ہیں جن کا تعلق ان علاقوں سے تھا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصہ میں آئے۔

بھارت میں نصاب میں بارہویں جماعت میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتاب جس کا نام Themes in Indian History Part 3 انتہائی دلچسپ ہے۔ جو 2019/ 20 کے نصاب کے لیے منتخب کی گئی ہے۔ وزیراعظم صاحب یکساں نصاب کے نام پر نصاب کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ لازمی کریں۔ مختصر سی کتاب کئی حوالوں سے قابل تقلید ہے۔ کتاب تقسیم ہند کے اردگرد کے واقعات پر مشتمل ہے ، جس میں تقسیم ہند کے طریق کار، اس کے نتائج اور بارڈر کے دونوں جانب پائے جانے والے جذبات پر ایک متوازن رائے قائم کی گئی ہے۔

کتاب ایک ہندوستانی ریسرچر کی کہانی سے شروع ہوتی ہے جو اپنی تحقیق کے دوران پاکستان میں قیام پذیر رہے۔ وہ ایک لائبریرین عبداللطیف کے شفیق رویے کو سراہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1992 کے موسم سرما میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے دورے کے دوران وہاں کے لائبریرین جناب عبداللطیف جو ایک ادھیڑ عمر، متقی و پرہیز گار شخص تھے، وہ اپنی ذمہ داریوں سے کہیں بڑھ کر میری مدد کیا کرتے تھے۔ میری فرمائش کردہ فوٹو کاپیاں اگلی صبح میرے پہنچنے سے قبل نہایت احتیاط کے ساتھ تیار کر کے رکھتے تھے۔

میرے کام کے تئیں ان کا رویہ میرے لیے نہایت غیر معمولی تھا۔ اس پہ میں خود کو نہ روک سکا تو ایک دن پوچھ ہی لیا۔ لطیف صاحب! آپ غیر معمولی طریقے سے میری اتنی زیادہ مدد کیوں کرتے ہیں؟ لطیف صاحب نے اپنی نظر اچانک گھڑی پہ ڈالی اور جھپٹ کر اپنی نمازی ٹوپی اٹھاتے ہوئے کہا۔ ”ابھی تو میں نماز کے لیے جا رہا ہوں لیکن واپسی پر میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ دفتر پہنچتے ہی اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔

آپ کا سوال۔۔۔ میرے والد کا تعلق ضلع جموں کے ہندو اکثریت والے گاؤں سے تھا۔ اگست 1947 میں علاقے کے ہندو غنڈوں نے چھوٹے سے گاؤں میں مسلم آبادی کا قتل عام کیا۔ ایک دن میرے والد کو پتہ چلا کہ شاید وہ اپنے گاؤں کے واحد مسلمان زندہ بچے ہیں۔ پورے خاندان کو پہلے ہی اس خونریزی میں کھو چکنے کے بعد بھاگنے کے راستے تلاش کر رہے تھے۔ انہیں ایک رحم دل ہندو پڑوسی عورت یاد آئی۔ انہوں نے اپنی پڑوسن سے اپنے گھر میں پناہ دینے کی عاجزانہ استدعا کی، جسے اس نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا! اگر تم یہاں چھپتے ہو تو وہ ہم دونوں کو پکڑ لیں گے۔ جس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ تم میرے پیچھے اس جگہ تک آؤ جہاں انہوں نے لاشیں اکٹھی کی ہوئی ہیں۔ تم وہاں مردہ بن کر لیٹ جانا ، میں تم پر کچھ لاشیں ڈال دوں گی۔ ساری رات ایسے ہی لاشوں کے درمیان لیٹے رہنا اور صبح ہوتے ہی سیالکوٹ کی طرف دوڑ لگا دینا۔

میرے والد نے یہ تجویز مان لی اور اسی طرح کیا۔ کوئی گھنٹے کے بعد ہندو مسلم چوروں کا گروہ وہاں آ پہنچا۔ ان میں سے ایک چیخ اٹھا۔ کسی میں جان باقی ہے؟ دیگر افراد اپنی گندی لاٹھیوں کے ساتھ لاشوں کے ڈھیر میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے لگے۔ کوئی شخص چلانے لگا۔ اس شخص کی کلائی پہ گھڑی ہے۔ اس نے اپنی بندوق کا بٹ میرے والد کی انگلیوں پہ زور سے مارا۔ والد صاحب عموماً بتایا کرتے تھے ، گھڑی والی کلائی کی پھیلی ہوئی ہتھیلی کو بغیر ہلائے رکھنا ان کے لیے کس قدر مشکل کام تھا۔ پھر وہ بے حرکت پڑے رہے۔ صبح کی سفیدی کا ہلکا سا اشارہ پا کر انہوں نے سیالکوٹ کی طرف دوڑ لگا دی۔

عبدالطیف صاحب نے کہا میں آپ کی مدد اس لیے کرتا ہوں کیونکہ ایک ہندوستانی نے میرے والد کی مدد کی تھی۔ میں تو والد پر واجب الادا قرض ادا کر رہا ہوں۔ اس پر اس ہندوستانی ریسرچر نے کہا ”میں تو ہندو نہیں ہوں۔ میرا تعلق ایک سکھ خاندان سے ہے یا زیادہ سے زیادہ ہندو سکھ مخلوط خاندان سے“، اس کے جواب میں لائبریرین نے کہا ”میں یقین کے ساتھ نہیں جانتا کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ آپ کیس (بغیر کٹے ) رکھتے ہیں اور آپ مسلمان نہیں ہیں۔ لہٰذا میرے لیے آپ ایک ہندو ہی ہیں۔ جو میں تھوڑا بہت آپ کے لیے کرتا ہوں ، وہ اس لیے کہ ایک ہندوستانی مائی نے میرے والد کی جان بچائی تھی۔

یقیناً اس کہانی سے ہندوستانی بچے کے ذہن پر پاکستان کا مثبت تصور ہی پیدا ہو گا۔ مصنف The Power of Stereotypes کی ہیڈنگ کے تحت اپنی بات اس جملے سے شروع کرتا ہے کہ پاکستان میں ہندوستان سے نفرت اور ہندوستان میں پاکستان سے نفرت کا جذبہ تقسیم ہند کی پیداوار ہے۔ ملک کی تقسیم نے کچھ ایسی یادیں، نفرتیں، دقیانوسی انداز اور شناخت تخلیق کر دی ہیں جو ابھی تک سرحد کے دونوں طرف عوامی تاریخ کی تشکیل کر رہی ہیں۔

اگر ہم بھی اپنے نصاب میں تاریخ کو یک طرفہ لکھنے کی بجائے جیسے ہوا ویسے لکھ دیں گے تو یقیناً زخم بھرنے کا سفر سہل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں بے شمار عبداللطیف صاحب اب بھی موجود ہیں جو ہندوستانیوں کے لیے ایسی کئی کہانیاں اپنے دل میں سموئے ہوئے ہیں۔

دنیا نے پچھلی صدی میں شدید خونریزی کے بعد بارڈر کا تصور اپنایا۔ اب گلوبلائزیشن کے تحت دنیا میں کوئی ملک اکیلا آگے بڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس صدی میں ترقی ممالک نہیں خطے کریں گے۔ جب مضبوط ترین معیشت ہونے کے باوجود چین ون۔ بیلٹ۔ ون۔ روڈ منصوبے کے تحت خطوں کے استحکام پہ یقین رکھتا ہے تو ہم دونوں ممالک دنیا کی اتنی بڑی آبادی کو 72 سال پرانی یادوں کے بوجھ تلے کیوں دفن کرنے پہ زور دے رہے۔ سافٹ بارڈر کا تصور ہی ہماری قسمت بدل سکتا ہے۔

نصاب کو نظریہ سازی کے ہتھیار کے طور پہ اپنانے کی بجائے حقائق کا امین بنانا چاہیے۔ وزیراعظم صاحب اگر یکساں نصاب کے خواہاں ہیں نصاب میں سے حقائق کے منافی مواد کو ہٹا دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یکساں نصاب کی آڑ میں جو کہیں سے کوئی حقائق کی رمق بچوں کے ذہن تک پہنچ جاتی تھی ، اس کا بھی تدارک کر دیں۔ جب ہماری مستقبل کی نسلوں نے بھی ساتھ ہی رہنا ہے تو ان کے لیے نفرت آمیز ماحول ورثہ میں کیوں چھوڑا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments