مسئلہ کشمیر: ہمیں ایک راستہ چننا ہو گا


پانچ فروری گزر گیا۔ 5 فروری دنیا بھر میں موجود پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور کئی دہائیوں سے ظلم و نا انصافی کا شکار اپنے عزم اور موقف پر ڈٹے رہنے والے کشمیری بھائیوں سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں۔ 1990 میں جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار ابراہیم نے تجویز دی کہ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد نے اس کے لیے 5 فروری کا دن تجویز کیا اور اس تجویز سے وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے اتفاق کر لیا۔ یوں 5 فروری 1990 کو پہلی بار یہ دن منایا گیا اور گزشتہ تین دہائیوں سے 5 فروری کے دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہماری نیت کشمیر کی آزادی کی ہے تو ہمیں اپنے اپ سے یہ سوال کرنا ہو گا کہ بحیثیت قوم ہم نے اب تک کشمیر یا کشمیری عوام کے لئے کیا کیا ہے؟

کیسے ہم کشمیر کا مقدمہ بہتر طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟ اس سب کے لئے ہم جذبات کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر ایک روڈ میپ بنانا ہو گا اور اس پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ دنیا بھر میں اگر کوئی بھی ایسا مسئلہ ہو اس کے حل کے لیے دو آپشن ہوتے ہیں۔ ایک حل بزور طاقت جنگ کے ذریعے، جب کہ دوسرا حل سیاسی طریقے سے بین الاقوامی طور پر دنیا کو اپنا ہمنوا بنانا۔ بحیثیت قوم ہم نے ابھی تک زیادہ زور پہلے آپشن پر ہی دیا ہے۔ اور اس آپشن پر بھی بغیر منصوبہ بندی کے ہی چل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سال کے ساتھ ہمارے ملک کا دفاعی بجٹ تو بڑھتا رہا لیکن ہماری معیشت کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔ ملک میں فوج مضبوط اور سیاست دان کمزور ہوتے گئے۔

کشمیر کی وجہ سے کئی جنگیں لڑنی پڑیں لیکن ان جنگوں کی وجہ سے ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ جنگ ہم نے روایتی اور غیر روایتی طریقے سے لڑی اور اس جنگ میں مذہب کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جس کے نتیجے میں ملک میں شدت پسندی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

1971 میں پاکستان بھر میں صرف 900 مدرسے تھے۔ 1971 سے 1987 ( صرف 16 سال) کے دوران مدارس کی تعداد 33000 تک پہنچ گئی۔ جیسے جیسے مدراس میں اضافہ ہوتا گیا شدت پسندی بڑھتی گئی۔ عسکریت پسندی کی وجہ سے ہمارے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ سیاست، معیشت، معاشرت، ہر چیز اس کی زد میں آئی۔ ہزاروں بچے، بوڑھے اور جوان اس کی نذر ہو چکے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے ہمیں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے ہماری معیشت کو اس کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا۔ اب آتے ہیں کشمیر کے لیے دوسرے حل کی جانب، دنیا کیوں اور کیسے ہماری بات سنے گی اور اس کو اہمیت دے گی؟ اس کے لیے ہمیں تعلیم، معیشت اور ملکی ترقی پر اپنا توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔

پچھلے ستر سالوں سے ہمارے بجٹ کا جو بڑا حصہ دفاع پر صرف ہوتا تھا، اب ہمیں انی توجہ تعلیم، سائنس اور معاشی ترقی پر مرکوز کرنی پڑے گی۔ کشمیریوں کو مزید اختیارات دینے ہوں گے، کشمیر کشمیریوں کا مسئلہ ہے، ہماری اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد ان کے ساتھ ہونی چاہیے۔

کشمیری قوم اپنی آواز اپنے مسائل کو بہتر طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کشمیریوں پر اعتبار کرنا ہو گا، ان کو مزید اختیارات دینے ہوں گے۔ ان کو یہ یقین دہانی کروانی ہو گی کہ پاکستانی عوام اور حکومت ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت مضبوط ہو تو اس کی بات دنیا میں اچھے طریقے سے سنی جاتی ہے۔ معیشت کی مضبوطی کا دار و مدار ملک کے سیاسی استحکام سے ہوتا ہے۔ پاکستان سے رقبے اور آبادی میں بہت سے چھوٹے ملک دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان قوموں نے ترقی کے حصول کے لئے علم پر مبنی معیشت کو فروغ دیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ قوم نہیں کہلا سکتی، اس لیے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہو گا محض جنگی جنون اور کھوکھلے نعرے پاکستان کو مضبوط نہیں بنا سکتے۔

اب جنگ معیشت کی ہے، ہتھیاروں کی نہیں۔ پیسے ہوں تو سائنس، ٹیکنالوجی، ہتھیار سب آ جاتے ہیں۔ اور یہ پیسے ریاستی ادارے نہیں بنا سکتے۔ یہ پیسہ بنانے کے لئے عام افراد کو مواقع فراہم کرنے ہوتے ہیں۔ افراد مل کر ریاست کو امیر کرتے ہیں۔ بس اتنی سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں گے تو دنیا ہماری بات ضرور سنے گی۔ کیوں کہ معاشی مفادات ان کو ہماری بات سننے پر مجبور کریں گے۔ لیکن یہ خواب دیکھنے سے پہلے ہمیں یہ حقیقت بھی مان لینی چاہیے کہ دور حاضر میں اسلحے کی تجارت کو دنیا کی اقتصاد میں اہم مقام حاصل ہے، دنیا بھر کے اسلحہ ساز، 75 ملٹی نیشنل کمپنیاں اور 93 فرمیں اپنا ہر قسم کا اسلحہ بلا تفریق سب کو فروخت کر رہی ہیں۔

اسلحے کی تجارت کی اہمیت کی ایک وجہ کشیدگی اور جنگ کے ساتھ اس کا گہرا ربط ہونا ہے، جو اسلحے کی خرید کے لئے بڑی مغربی حکومتوں کے تقاضے پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے اور بسا اوقات ان کی خرید میں مزید اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ اسلحہ ساز کمپنیاں پوری دنیا میں مسائل اور جنگوں کی وجہ بنتی ہیں۔ ان کے لیے جنگ ایک کاروبار ہے۔ اور ان کا کاروبار جنگ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، امن کے ساتھ نہیں اور ان کے لوگ ان تمام ممالک میں اہم عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں، خاص طور پر جن ممالک میں کشیدگی یا جنگ کی کیفیت ہو۔

ان مسائل سے نکلنے کا واحد حل تعلیم، سائنس اور معاشی میدان میں ترقی میں ہے۔ لیکن اگر ہم جنگ اور دفاع پر ہی اپنا بیش تر بجٹ لگائیں گے تو اس سے ہماری معیشت بھی کمزور رہے گی، ہم ہمیشہ مقروض رہیں گے اور دوسرے ممالک کے محتاج رہیں گے۔

کمزور معاشی طاقتیں کبھی اپنی بات منوا نہیں سکتیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کون سا راستہ ہم نے اختیار کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments