چین نے بی بی سی ورلڈ نیوز پر پابندی لگا دی


BBC News offices in London
جمعرات کے روز چین میں نشریاتی نگران ادارے نے اعلان کیا ہے کہ بی بی سی ورلڈ نیوز کو اب ملک میں نشریات جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ادارے کا دعویٰ ہے کہ بی بی سی کی صحافت نے مواد کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اور منصفانہ رپورٹنگ کے ٹی وی اور ریڈیو قوانین توڑے ہیں۔

چین نے بی بی سی پر اویغور برادری کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور کورونا وائرس کے حوالے سے کی گئی رپورٹنگ پر تنقید کی ہے۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین سنکیانگ سے متعلق خبروں کو کیسے کنٹرول کر رہا ہے؟

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

کیا ترکی اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے جا رہا ہے؟

’چینی حکومت اویغور خواتین کی نس بندی اور نسل کشی جیسے جرائم میں ملوث ہے‘

چین کی ریاستی فلم، ٹی وی اور ریڈیو انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بی بی سی ورلڈ نیوز کی چین کے بارے میں رپورٹس میں نشریاتی گائیڈ لائنز کی سنگین خلاف ورزی کی ہے جن میں ’خبروں کا سچا اور منصفانہ ہونا‘ اور ’چین کے قومی مفاد کی خلاف ورزی نہ کرنا‘ شامل ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی نشریات جاری رکھنے کی آئندہ سال کی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔

بی بی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم مایوس ہیں کہ چینی حکام نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ بی بی سی دنیا کا سب سے بااعتبار بین الاقوامی خبر رساں ادارہ ہے اور دنیا بھر سے منصفانہ، غیر جانبدار کہانیاں رپورٹ کرتا ہے بغیر کسی خوف یا لالچ کے۔‘

بی بی سی ورلڈ نیوز ٹی وی چینل دنیا بھر میں انگریزی میں نشریات کرتا ہے۔ اس چینل کے مالی وسائل کمرشل سرگرمیوں سے آتے ہیں۔ چین میں یہ پہلے ہی زیادہ تر جگہوں پر بند ہے اور صرف بین الاقوامی ہوٹلوں یا کچھ سفارتی کمپاؤنڈز میں پیش کیا جاتا ہے یعنی زیادہ تر چینی عوام اسے دیکھ نہیں سکتی۔

برطانوی وزیرِ خارجہ ڈومنک راب نے اس اقدام کو ’میڈیا کی آزادی پر ایک ناقابلِ قبول قدغن‘ قرار دیا ہے۔

https://twitter.com/DominicRaab/status/1359922807283609602?s=20

گذشتہ چند ماہ کے دوران چین اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور اس کی وجہ ہانگ کانگ کا معاملہ رہا ہے۔

جنوری میں برطانیہ نے ایک نیا ویزا متعارف کروایا جس کے تحت ہانگ کانگ کے شہریوں کو برطانیہ میں رہنے، کام کرنے اور ایک وقت کے بعد برطانوی شہری بننے کا حق ہوگا۔ چین کا خیال ہے کہ یہ چین کے علاقائی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

گذشتہ دو سال کے دوران چین منظم انداز میں غیر ملکی میڈیا پر پابندیاں لگا رہا ہے جن میں 2020 میں تین امریکی صحافیوں کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔ بی بی سی کی ویب سائٹ اور ایپ پہلے ہی ملک میں ممنوع ہے۔

اس ماہ کے آغاز میں برطانوی میڈیا کے نگراں ادارے آفکام نے چین کے ریاستی نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا کیونکہ برطانوی حکام کے مطابق یہ لائسنس غیر قانونی طور پر سٹار چائنا میڈیا لمیٹڈ کے پاس تھا۔

گذشتہ سال سی ٹی جی این کو برطانوی نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وقت پایا گیا جب انھوں نے برطانوی شہری پیٹر ہمفری کی مبینہ طور پر جبراً اقبالِ جرم کی ویڈئو نشر کر دی تھی۔

فروری میں بی بی سی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اویغور خواتین نے الزام لگایا تھا کہ انھیں چین کے ’تعلیمِ نو کے مراکز‘ میں ایک منظم انداز میں ریپ کیا گیا تھا۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے بی بی سی پر جھوٹی خبریں شائع کرنے کا الزام لگایا تھا۔

گذشتہ ماہ امریکہ کا کہنا تھا کہ چین نے اویغور اور دیگر اقلیتی گروہوں کے خلاف نسل کشی کی ہے۔

کچھ اندازوں کے مطابق چین میں دس لاکھ اویغور اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp