نیپال میں ہندو مسلم دوستی: ’یہاں بی جے پی جیسی پارٹی نہیں ہے اسی لیے نیپال مذہب کی بنیاد پر نفرت سے آزاد ہے‘


نیپال
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں کشمیریوں کی مسجد میں ایک خاتون عبادت کر رہی ہے
دسمبر 1992 کو جب انڈیا میں بابری مسجد کا انہدام ہوا تو موہنا انصاری پانچویں کلاس میں زیر تعلیم تھیں۔

موہنا کا تعلق نیپال کے ضلع بانکے کے علاقے نیپال گنج سے ہے۔

موہنا یاد کرتی ہیں کہ اس دن وہ پورے خاندان کے ساتھ شادی میں شریک ہونے کی غرض سے انڈیا کی ریاست اُتر پردیش کے شہر نانپارہ گئی تھیں۔ ’اسی روز اُتر پردیش میں جہاں ہم تھے وہاں ہنگامہ برپا ہوا تھا۔‘

موہنا کا کہنا ہے کہ ’میرے والد کے پولیس سے اچھے تعلقات تھے۔ میرے والد اور نیپال گنج کے پولیس افسر کے مابین دوستی تھی۔ ان کے ذریعے میرے والد نے یو پی پولیس سے رابطہ کیا اور ہمیں نانپارہ سے نکالا۔‘

’میرے بچپن کی یہ یاد میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد علاقے میں ہونے والے فسادات سے نیپال کے مسلمان متاثر ہوئے۔ خاص طور پر وہ مسلمان جو یو پی اور بہار سے ملحقہ نیپال کے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں۔‘

موہنا کا کہنا ہے ’جب بھی انڈیا میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوا، اس نے قدرتی طور پر ہماری زندگیوں کو بھی متاثر کیا۔ لوگ چیزوں کو عجیب انداز میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ (ہم پر) شک کرنے لگتے ہیں۔‘

گذشتہ سال جب کووڈ 19 کی وبا انڈیا میں پھیلی تو تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں پر انگلی اٹھائی گئی۔ موہنا انصاری بھی اس کی گرفت میں آئیں۔

موہنا کا کہنا ہے کہ ’میں مارچ میں اپنے رشتہ دار کی شادی کے لیے اترپردیش میں کانپور گئی۔ اتفاقاً انڈیا میں اسی دوران تبلیغی جماعت کا پروگرام ہوا تھا۔ میرے اہل خانہ نے آج تک کسی ایسے مذہبی پروگرام میں حصہ نہیں لیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’کوئی نہیں جانتا پسند کی شادی کرنے والے پنکی اور راشد کہاں گئے‘

اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کا نیا آرڈیننس آتے ہی ’لو جہاد‘ کے الزام میں مقدمے

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

’شادی سے واپسی کے دوران انڈیا میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا۔ میرے پاس ٹریول پرمٹ تھا۔ اپنی کار بھی تھی۔ میں اس وقت نیپال میں انسانی حقوق کے لیے متحرک بھی رہی۔ شاید اسی لیے یو پی پولیس نے مجھے نیپال جانے دیا۔‘

موہنا کے مطابق ’میں نیپال گنج سے کھٹمنڈو آئی۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کر دیا کہ میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں شامل ہونے انڈیا گئی تھی۔

’جب میں آفس پہنچی تو لوگوں نے پوچھا کہ ’میڈم آپ جماعت میں گئی تھیں؟‘ اور ’پی سی آر ٹیسٹ کے بغیر کیوں واپس آئی ہیں؟‘ مجھے اس دوران کافی مشکل سے لوگوں کو سمجھانا پڑا۔‘

نیپالی مسلمان کیسے ہیں؟

نیپال

24 اکتوبر کی صبح نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے سندرا نامی علاقے میں کچھ لوگوں نے ایک مسجد کی دیوار گرا دی۔ اس مسجد کی آراضی کی ملکیت پر تنازع تھا۔

لوگوں نے یہ اقدام کسی بھی فوجداری مقدمے کی طرح سمجھا۔ پولیس کو شکایت کی گئی اور مسجد توڑنے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے ایک بار پھر مسجد بنانے کی اجازت دے دی۔ یہ معاملہ کسی بھی طرح ہندو بمقابلہ مسلمان کا نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے ایسا کرنے کے لیے ہوا دی۔ یہاں تک کہ جب اس مسجد کی دیوار کو منہدم کیا گیا تب بھی وہاں کوئی اجتماعی ہجوم نہیں تھا۔

اس علاقے کے مسلمان اور ہندو دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ اس زمین کی ملکیت پر تنازع موجود ہے لیکن یہ گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے پاس ہے۔ یہاں مسلمان گوشت بیچتے تھے اور بعد میں جب لوگوں نے نماز پڑھنا شروع کی تو ایک مسجد بنائی گئی۔

سنہ 2018 کے دوران نیپال میں مسلمانوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کے پی شرما اولی کی حکومت نے مسلم کمیشن تشکیل دیا۔ شمیم میاں انصاری اس کمیشن کے پہلے چیئرمین بنے۔ انصاری کہتے ہیں کہ یہ ’ہندو بمقابلہ مسلم‘ معاملہ نہیں تھا۔

انصاری کے مطابق ’زمین کو لے کر جھگڑا ہوا تھا اور یہاں مسجد ہونے کے باوجود مذہب کا زاویہ نہیں آیا۔ پولیس نے فوری کارروائی کی اور اب ایک نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔

’نیپال میں مسلمانوں کے خلاف ایسا کوئی تعصب نہیں ہے۔ کھٹمنڈو میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمان کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں لیکن اس فارم میں کبھی بھی کسی امتیازی سلوک کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔‘

محمد ایوب نیپال کے علاقے ترائی میں لمبینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلی کی جنوبی ایشین یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا۔ سنہ 2013 میں دلی چھوڑنے کے بعد سے وہ کھٹمنڈو میں محقق کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔

ایوب نیپالی زبان نہیں جانتے۔ وہ ہندی، اردو اور اودھی میں بولتے ہیں۔ ایوب کہتے ہیں کہ اودھی زبان لمبینی میں بولی جاتی ہے۔

ایوب کہتے ہیں کہ ’کھٹمنڈو میں مسلمانوں سے زیادہ مدھیسی آبادی ہے۔ انھیں زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ جب آپ کھٹمنڈو میں پہاڑی مکان مالک کا گھر کرایے پر لینے جاتے ہیں تو انھیں چہرہ دیکھ سمجھ آ جائے گی کہ آپ ترائی سے ہیں یعنی مدھیسی ہیں۔‘

’اگر آپ نیپالی نہیں بولتے ہیں تو انھیں شبہ ہو گا کہ آپ یو پی اور بہار سے ہیں۔ پہلا امتیاز یہاں سے شروع ہو گا۔ اس کے بعد وہ نام پوچھیں گے۔ نام سے انھیں پتا چل جائے گا کہ آپ مسلمان ہیں۔ تب ہی تفریق کی ایک اور قسم شروع ہو گی۔‘

ایوب کہتے ہیں کہ ’متعدد بار نیپال کے لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کا تعلق انڈیا سے ہے؟‘

مسجد

مسجد کی دیوار جو منہدم کر دی گئی

محمد ایوب کہتے ہیں کہ نیپال میں کوئی فرقہ ورانہ جماعت موجود نہیں ہے ورنہ مسجد کی دیوار گرانے کا معاملہ بڑا ہو سکتا تھا۔

ایوب کا کہنا ہے کہ نیپال کی انتخابی سیاست میں مذہبی پولرائزیشن کی کوئی برائی نہیں ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ’مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔‘

’اگر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے تو مدھیسی میں بھی ہندو ہیں۔ کمل تھاپا کی جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ نیپال کو ہندو قوم بنایا جائے لیکن انھوں نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ ترائی کے مسلمان بھی اپنی پارٹی میں ہندو قوم بننے کے مطالبے میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔

نیپال کمیونسٹ پارٹی کے رہنما رام چندر جھا کا کہنا ہے کہ نیپال کی سیاست میں انڈیا کی طرح مذہب کی بنیاد پر تقسیم پیدا کی جاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا میں انتخابات جیتنے کے لیے تفریق کی سیاست کی جاتی ہے۔ نیپال ابھی بچا ہوا ہے۔ نیپال میں امتیازی سلوک کا معاملہ اب ’ترائی بمقابلہ پہاڑ‘ ہے۔ چنانچہ مسلم بمقابلہ ہندو جیسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ یہاں بی جے پی جیسی پارٹی نہیں ہے لہذا نیپال مذہب کی بنیاد پر نفرت سے آزاد ہے۔‘

رام چندر جھا کا کہنا ہے کہ ہندی ذرائع ابلاغ نیپال میں ایسی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا اثر کچھ حلقوں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیپال کی سیاست کو اس معاملے میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ’انڈیا میں مودی حکومت کے آنے کے بعد نیپال میں بھی مذہبی جارحیت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘

محمد ایوب کہتے ہیں کہ سنہ 2014 میں نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد انڈیا کے مسلمانوں پر اس کا اثر پڑا ہے، اس کی جھلکیاں نیپال کے مسلمانوں پر بھی آ چکی ہیں۔

ایوب کہتے ہیں کہ ’2014 کے بعد انڈین میڈیا بھی بدل گیا۔ یہاں کے لوگ ہندی نیوز چینلز بھی دیکھتے ہیں۔ ہندی نیوز چینلز میں مسلمانوں کو کیسا دکھایا جاتا ہے، اس سے نیپال کے معاشرے پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ جعلی خبروں کا پھیلاؤ سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے ذریعے پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے۔‘

ایوب نے ایک مثال دی کہ ’پاکستان میں ایک مندر کو منہدم کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کا اثر لمبینی میں بھی پڑا۔ میں نے لمبینی کے لوگوں کو گفتگو میں یہ کہتے سُنا کہ ’نیپال میں اس سے بھی زیادہ مسلمان ہیں، ہمارے مندر بھی پاکستان کی طرح تباہ ہو جائیں گے۔‘

اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایک خدشہ ہے کہ نیپال میں اقتدار کے لیے مذہب کا استعمال کیا گیا تھا لہذا نیپال کے مسلمانوں کی حالت بھی انڈیا جیسی ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انڈیا کے مقابلے میں نیپال کا معاشرہ اب بھی بہت روادار ہے۔‘

دنیش پنت اتراکھنڈ سے متصل نیپال کے ضلع کنچن پور کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال دلی میں جنوبی ایشیا یونیورسٹی سے ماسٹرز مکمل کیا۔

دنیش یاد کرتے ہیں کہ پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہیلتھ ورکرز کے لیے بالکونی سے پلیٹ بجانے اور چراغ جلانے کی اپیل کی تھی۔ تب ان کے علاقے کے لوگوں نے بھی ایسا کیا تھا۔ دنیش کا کہنا ہے کہ لوگوں نے برتن بجائے اور چراغ بھی جلائے۔

نیپال

دنیش کہتے ہیں ’انڈیا میں وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عسکریت پسند ہندوؤں کا ایک گروہ متحرک ہوا اور اس کا براہ راست اثر مسلمانوں پر پڑا۔ یہاں ایک رپورٹ بھی نشر کی گئی جس میں مسلمانوں پر کورونا انفیکشن پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔‘

’انڈیا کا میڈیا یہ کر رہا تھا اور اس کا براہ راست اثر یہاں بھی پڑا ہے۔۔۔ انڈیا ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس کی جمہوریت اور سیکولرازم نیپال میں بادشاہت کے خلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر انڈیا میں جمہوریت اور سیکولرازم کو کمزور کر دیا گیا تو اس سے نیپال کو متاثر کر سکتا ہے۔

دنیش کا کہنا ہے کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں گائے کی ذبح کرنے پر پابندی کا براہ راست اثر نیپال پر پڑا ہے۔

پنت کہتے ہیں کہ لوگ یہاں گائیں بوڑھی ہونے کے بعد بیچ دیا کرتے تھے۔ لیکن اب وہ فروخت کرنے سے قاصر ہیں اور مسلمان بھی گائے کا گوشت کھانے سے گھبراتے ہیں۔ پنت کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ یہاں ہندو بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔

دنیش پنت کہتے ہیں ’نیپال میں مسلمان انڈیا کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ لہذا یہاں مسلمان کچھ بھی کہنے یا کرنے سے پہلے اکثریت کی آبادی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے نیپال کے مسلمانوں نے ’ہندو قوم کے خاتمے کا جشن‘ نہیں منایا۔ وہ ہندو قوم کی تشکیل کا مطالبہ نہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘

کھٹمنڈو سے تعلق رکھنے والے ایک اسلامی سکالر قاضی مفتی ابوبکر صدیقی قاسمی کا کہنا ہے کہ نیپال میں مسلمان کم ہیں لیکن وہ بہت آرام سے رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نیپال کے ہندو بہت اچھے ہیں۔ ہم میں مذہب کے بارے میں کوئی تنازع نہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم انڈیا کے مسلمانوں سے زیادہ سکون میں ہیں۔‘

اس سب کے باوجود، ماضی میں نیپال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین فسادات ہو چکے ہیں۔ لیکن زیادہ تر کا تعلق انڈیا کے واقعات سے ہے۔ ڈیوڈ سیڈن نے اپنی کتاب ’دی نیشنل مسلم کمیونٹی آف نیپال‘ میں لکھا ہے کہ جب بھی انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین فسادات کی صورتحال پیش آتی ہے اس کا اثر نیپال میں بھی دیکھا جاتا ہے۔

ڈیوڈ سیڈن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’1994 اور 1995 کے دوران نیپال کے ضلع بانکے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین فسادات ہوئے۔ اس کی وجہ اترپردیش میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد تناؤ ہے۔ نیپال گنج میں مسلم عبادت گاہ کی جگہ ہندو مندر بنانے کے لیے تین دن سے ہنگامے ہوئے۔ لیکن یہ عبادت گاہ مقامی سطح پر برقرار رہی۔ تیرہ خطے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تناؤ 1990 کی دہائی میں سب سے زیادہ تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کی وجہ سے انڈیا کی سرحدوں پر کافی تناؤ تھا۔‘

انڈیا اور پاکستان کے کرکٹ میچ کے دوران بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔ سنہ 1997 میں شیو سینا نے نیپال گنج میں ایک دفتر کھولا تھا۔ شیوسینا نے میونسپل انتخابات میں نیپال گنج میں میئر اور دیگر امیدواروں کو اپنی حمایت دی۔

نیپال

شیوسینا کے حامیوں نے مبینہ طور پر ایک مسلمان کو پولنگ سٹیشن جانے سے روکا۔ اس کے جواب میں شیو سینا کے ایک حامی کو گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا۔ پورا شہر فسادات کا شکار رہا۔ گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس میں ایک مسلمان شخص ہلاک ہوا اور 27 افراد زخمی ہوئے۔

عراق میں 12 نیپالیوں کا قتل

یکم ستمبر 2004 کو اسلامی شدت پسند تنظیم انصار السنہ کے ذریعہ عراق میں 12 نیپالیوں کو ہلاک کیا گیا۔ انھیں 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی حمایت کرنے پر انتہا پسندوں نے گولی مار دی تھی۔

یہ افراد عراق میں کھانا پکانے اور صفائی کا کام کرتے تھے۔

نیپال میں اسے عراقی مسلمانوں کی جانب سے نیپالی ہندوؤں پر حملہ سمجھا گیا۔ اس کے جواب میں کھٹمنڈو میں عام مسلمان نشانے پر آ گئے۔ مدرسوں اور مساجد پر حملے ہوئے۔ بہت دنوں تک مسلمانوں کے لیے نفرت کا یہ عالم برقرار رہا۔

تھامس بیل نے اس واقعے کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا کہ ہزاروں نیپالیوں کا ہجوم کھٹمنڈو میں واقع کشمیری مسجد میں داخل ہوا۔ تھامس بیل نے لکھا ’کشمیریوں کی مسجد تک پہنچنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ پولیس آنسو گیس کے شیل فائر کر رہی تھی۔ لیکن پولیس کی آمد سے پہلے ہی سینکڑوں فسادی مسجد پہنچ چکے تھے۔‘

’عربی میں لکھے گئے صفحات مسجد کے کیمپس میں بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ مٹی کے ٹوٹے برتن اور شیشے ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ مسجد کے گنبد کو بھی نقصان پہنچا۔ پولیس لاٹھیوں کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ امام کو بری طرح سے مارا پیٹا گیا اور اپنی جان بچانے کے لیے وہ ایک کمرے میں بند تھا۔ دوپہر کے بعد حکومت نے کرفیو نافذ کر دیا جو اگلے چار دن تک برقرار رہا۔‘

تب رپبلیکا اخبار نے لکھا تھا کہ عراق میں 12 نیپالیوں کے قتل کے بعد کھٹمنڈو میں نہ صرف جامع مسجد پر حملہ ہوا بلکہ مسلمانوں کے املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ اخبار نے لکھا کہ اس کے بعد نیپال میں مسلمانوں کو نہ صرف اقلیت کی حیثیت سے بلکہ ایک خطرے کے طور پر بھی دیکھا جانا شروع ہو گیا۔

نیپال میں یہ واقعہ ایک سیاہ بدھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ڈیوڈ سیڈن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے بھی متحد ہونے کی کوشش کی اور کچھ تنظیمیں تشکیل دی۔ 2005 میں نیشنل مسلم فورم تشکیل دیا گیا۔ اس طرح کی بہت ساری تنظیمیں دونوں اطراف تشکیل دی گئیں۔ ڈیوڈ سیڈن کے مطابق تبھی مسلمانوں نے اپنی شناخت مدھیسی سے مختلف دیکھنا شروع کی۔

نیپال میں کتنے مسلمان ہیں؟

نیپال

نیپال میں سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی 11 لاکھ 62 ہزار 370 ہے۔ یہ تعداد نیپال کی کل آبادی کا چار سے پانچ فیصد حصہ ہے۔ اس وقت نیپال کی مجموعی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے۔

نیپال کے 97 فیصد مسلمان ترائی اور تین فیصد کھٹمنڈو کے علاوہ مغربی پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ نیپال میں ترائی کی کل آبادی کا 10 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

تاہم کچھ مسلم سکالرز کا ماننا ہے کہ نیپال میں اصل مسلم آبادی 10 فیصد کے قریب ہے اور ترائی میں یہ 20 فیصد ہے۔ نیپال ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرمین موہنا انصاری کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں اصل اعداد و شمار نہیں آتے۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت سے کنبے حقیقی تعداد ظاہر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ انھیں حکومت کی کسی کارروائی کے حوالے سے تشویش رہتی ہے۔ مردم شماری میں بہت سی غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ ’مجھے یقین ہے کہ نیپال میں مسلمانوں کی اصل آبادی 10 سے 12 فیصد ہے۔‘

سنہ 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق نیپال کے روتہٹ (19.70 فیصد)، کپلواستو (18.15 فیصد) اور بنکے (18.98 فیصد) اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں نیپال کا آئین دوبارہ لکھا گیا تھا۔ تاہم اس آئین میں نیپال کی ہندو قوم کی حیثیت بھی برقرار رہی۔

ہندو قوم ہونے کے باوجود 1990 کے آئین کے آرٹیکل 11 اور 12 میں واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ریاست نیپال کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہو گا۔

آرٹیکل 19 میں کہا گیا ہے کہ تمام مذہبی لوگوں کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کا حق حاصل ہوگا اور وہ اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن اس آئین میں بھی تبدیلی کی اجازت نہیں تھی۔

سنہ 1990 کی دہائی سے نیپال میں کثیر الجماعتی جمہوریت کو فروغ ملا۔ کثیر الجماعتی جمہوریت میں مسلمان بھی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔

ڈیوڈ سیڈن نے اپنی کتاب ’مسلم کمیونٹی آف نیپال‘ میں لکھا ہے کہ نیپالی کانگریس یا یونائیٹڈ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو سی پی این) نے مسلمانوں کو عوامی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے ٹکٹ دیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 91 مسلم امیدواروں نے 1991 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ان میں سے پانچ افراد ممبران منتخب ہوئے تھے۔

کثیر الجماعتی جمہوریت کی آمد کے بعد تمام جماعتوں نے مسلمانوں پر توجہ دینا شروع کر دی۔ صوبہ نمبر دو کے وزیر اعلی محمد لال بابو راوت ہیں جو مسلمان ہیں۔

ماؤ تحریک کی کامیابی کے بعد نیپال نے سیاسی کارروائی کرنا شروع کر دی۔ 240 سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور نیپال نے ہندو بادشاہت ختم کرنے پر اتفاق کیا۔

انڈیا کی طرف سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا دباؤ یہ تھا کہ نیپال کو ہندو قوم ہی رہنا چاہیے لیکن نیپال کی تحریک رُک نہیں سکی۔ نیپال 2006 تک ہندو قوم کی ریاست بنی رہا جہاں مذہب تبدیل ہونا جرم تھا۔

لیکن نومبر 2006 میں ماؤ نوازوں اور سات جماعتوں کے اتحاد کے مابین ایک تاریخی امن معاہدہ ہوا۔ اس دوران ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی اور نیپال کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔ 2007 کے عبوری آئین میں بھی سیکولر ریاست کی بات کی گئی تھی۔

نیپال میں مسلم کمیشن کے چیئرمین نے شمیم ​​میاں انصاری سے پوچھا کہ ’ہندو ریاست سے سیکولر ریاست بننے کا مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا؟‘

شمیم میاں نے جواب میں کہا کہ ’ہماری شناخت اور حقوق کو اجاگر کیا گیا۔ ہمارا شمار مدھیسیوں میں ہوتا تھا، لیکن مسلم شناخت کو پہلی بار آئین میں ایک مقام دیا گیا۔ ہم آئینی طور پر یکساں ہے۔ مسلم کمیشن جس کا میں چیئرمین ہوں وہ بھی سیکولر ریاست بننے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اب میں اس کمیشن کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق میں اضافہ کروں گا۔ اس سے پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔‘

نیپالی مسلمانوں میں تعلیم؟

نیپال

نیپال کی کشمیری مسجد

نیپالی مسلمانوں کے لیے نظام تعلیم کی حالت اچھی نہیں۔ نیپال نے حالیہ دہائیوں میں تعلیم میں بہت ترقی کی ہے لیکن مسلمان اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق نیپال میں خواندگی کی شرح 1991 میں 39.6 فیصد تھی جو 2011 میں 14.1 فیصد سے بڑھ کر 53.7 فیصد ہوگئی۔

اسی دوران 1991 میں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 22.4 فیصد تھی جو 2001 میں بڑھ کر 34.7 فیصد ہوگئی۔ نیپال میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آبادی پہاڑی برہمنوں کی ہے۔ نیپال کی کل آبادی میں ان کا حصہ 12.91 فیصد اور خواندگی کی شرح 74.90 فیصد ہے۔

نیپال میں مسلمان اپنی روزی روٹی کے لیے بنیادی طور پر کاشتکاری پر منحصر ہیں۔ وہ یا تو کھیتی باڑی کرتے ہیں یا زرعی مزدور ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی 2009 کی رپورٹ کے مطابق نیپال میں ماہانہ فی کس آمدنی 15000 نیپالی روپے ہے لیکن مسلمانوں کی آمدنی صرف 10200 نیپالی روپے ہے۔ نیپال میں سب سے زیادہ ماہانہ آمدنی 26100 نیوار ذات کی ہے۔ اس کے بعد برہمن اور چھتری ہیں۔ مسلمان نیچے سے دوسرے نمبر پر ہیں اور آخری نمبر پر 8830 روپے کے ساتھ ہل دلت ہیں۔

نیپال کے مسلمان بڑی تعداد میں خلیجی ممالک میں بھی کام کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp