’نئے‘ گوادر کا قدیم اسماعیلی جماعت خانہ اتنا منفرد کیوں ہے؟ ’’اب چاہیں بھی تو کہیں اور دل نہیں لگے گا‘


جماعت خانہ
گوادر کے تاریخی شاہی بازار سے جب بھی گزر ہوتا ہے تو دو باتیں ہمیشہ ہوتی ہیں۔ ایک تو وہاں واقع فیروزی دروازے اور کھڑکیوں والی عمارت نظر آتی ہے اور دوسرا اِسی عمارت کے نزدیک رہائش پذیر ماسٹر منصور اس عمارت کے آس پاس ہی کہیں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

شاہی بازار کی تنگ اور تاریخی گلیوں سے گزرتے ہوئے جو عمارت نمایاں نظر آتی ہے وہ اسماعیلی برادری کا جماعت خانہ ہے۔ اس جماعت خانے کی اپنی ایک منفرد تاریخ اور اہمیت ہے۔

اب جبکہ گوادر نئے طرز پر پلان کیا جا رہا ہے تو یہاں بسنے والی اسماعیلی برادری کی اس ’نئے شہر‘ میں کیا جگہ ہو گی؟ اور یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اتنے سالوں سے وہاں پر آباد اسماعیلی برادری اب کتنی تعداد میں اور کہاں کہاں موجود ہے؟ اور مجوزہ ’نئے گوادر‘ میں یہ برداری خود کو کہاں دیکھتی ہے؟

لیکن اس سب پر بات کرنے سے پہلے رُخ کرتے ہیں شاہی بازار کا۔

شاہی بازار میں داخل ہوتے ہی دکانیں اور پرانے ڈیزائن میں تعمیر کردہ گھر قطار اندر قطار نظر آتے ہیں۔ یہ شاید گوادر کا واحد علاقہ ہے جہاں گھر خاصے نزدیک نزدیک بنے ہوئے ہیں۔

تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے متعدد جگہوں پر حلوائی، چائے بنانے والوں کے ڈھابے اور تندور نظر آتے ہیں۔

جماعت خانہ

انہی تنگ گلیوں میں تھوڑا اور آگے بڑھیے تو برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا بنا ہوا ایک پرانا مندر نظر آتا ہے جو اب اس قدر مخدوش ہو چکا ہے کہ علاقہ مکینوں کے لیے بھی اسے شناخت کرنے کی واحد نشانی شاید اِس کے مرکزی دروازے کے اطراف دیے رکھے جانے والے طاق ہیں۔

مگر ایک عمارت دور سے ہی نظر آ جاتی ہے اور وہ ہے اسماعیلی برادری کا جماعت خانہ، جسے کمیونٹی سینٹر اور عبادت گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جب آغا خان نے روایت کے برعکس اپنے بیٹے کے بجائے پوتے کو جانشین مقرر کیا

تلور کا شکار اور پسنی کا ابوظہبی: ’اب صرف شیخ صاحب کا انتظار ہے‘

وہ محل جہاں ٹی وی اشتہار بنانے والے ہی جاتے ہیں

سنہ 2015 میں جب گوادر بُک فیسٹیول جانا ہوا تھا تب بھی گھمانے کی غرض سے وہاں کے مقامی لوگ اسی گلی میں لے کر گئے جہاں جماعت خانہ موجود ہے۔

اس وقت ہمارے ساتھ موجود زیادہ تر فوٹوگرافرز اور دیگر افراد بھی مختلف علاقوں میں گھومتے گھماتے بلآخر اسی عمارت کے سامنے آ کر رُکے اور کچھ دیر تک صرف اسی عمارت کو دیکھتے رہے۔

جماعت خانہ

اس کی ایک وجہ جہاں اس عمارت کا خوبصورت ہونا ہے۔

ایک وجہ یہ بھی خیال کی جاتی ہے کہ گوادر کے شاہی بازار کی ان گلیوں میں جہاں آدھے سے زیادہ گھر اور عبادت گاہیں مخدوش حالت میں ہیں وہیں یہ جماعت خانہ اپنے رنگ و روغن اور منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے کچھ الگ سا نظر آتا ہے۔

اس عمارت کے بارے میں اگر بات کریں تو یہ باہر سے بالکل پرتگالی طرز تعمیر کی لگتی ہے اور اسے دیکھتے ہی اندر جانے کا دل کرتا ہے۔ لیکن اس عمارت کے فیروزی دروازے بند رہتے ہیں اور برادری کے لوگوں کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ یہ دروازے دن میں صرف دو بار ہی کھلتے ہیں یعنی ایک بار صبح سویرے اور اس کے بعد شام کو۔

اس عمارت کو دیکھنے آنے والوں کے لیے اس دروازے کو خصوصی طور پر نہیں کھولا جاتا۔

اسی جماعت خانے کے بالکل سامنے ماسٹر منصور کا گھر ہے۔

وہ سکول کے پرنسپل رہ چکے ہیں اور اب بھی مقامی سطح پر کسی نہ کسی سکول سے منسلک رہتے ہیں۔

رواں ماہ جب میرا دوبارہ گوادر جانا ہوا تو وہ پہلے سے ہی باہر کھڑے تھے اور آنے کی وجہ پوچھتے ہی برادری کے کمپاؤنڈ میں انھوں نے جماعت خانے کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہماری برادری جہاں بھی جاتی ہے سب سے پہلے وہاں ایک جماعت خانہ بناتی ہے۔‘

اس کے بعد وہ مجھے اس کمپاؤنڈ کا دورہ کرانے کے لیے لے گئے۔

اس کمپاؤنڈ میں چلتے ہوئے کئی ایسی تعمیرات آئیں جو کہ اسماعیلی برادری کے ساتھ ساتھ گوادر کی تاریخ کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔

گوادر کی تاریخ اور اسماعیلی برادری کا جماعت خانہ

جماعت خانہ

اگر جماعت خانے پر بات کرنے سے پہلے گوادر کی تاریخ دیکھیں تو گوادر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع مکران میں واقع ایک ساحلی قصبہ ہے۔ اس قصبے کے بارے میں، جو کہ اب دھیرے دھیرے ایک شہر کی صورت اختیار کر رہا ہے، مصنف شہاب الدین اے گوادری اپنی کتاب ’گوہرِ گوادر‘ میں لکھتے ہیں کہ قصبے کے تینوں اطراف میں سمندر ہے جبکہ شمال میں یہ خشکی سے ملا ہے۔

گوادر کے مشرق میں سمندر کے حصے کو ’دیمی زِر‘ اور مغربی حصے کو ‘’پدی ِزر‘ کہتے ہیں۔

جنوب میں بحیرہ عرب کے کنارے جو پہاڑی ہے وہ ’کوہِ باطیل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ شمال مشرق میں واقع پہاڑی کو ’کوہِ مہدی‘ کہتے ہیں جبکہ اس کے مشرق میں ایک اور پہاڑی کو ’کوہِ صُر‘ کہتے ہیں۔ کوہ صر کے پاس ہی صُر نامی بستی واقع ہے۔

گوادر کو محققین اور مصنف اپنی تحریروں میں ایک قدیم بستی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ شہر کی ایک خستہ اور بغیر گنبد والی عمارت پر 1468 کے آثار کندہ ہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ اس عمارت کی کیا حیثیت ہے اور یہ کس کام کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

اسی طرح مؤرخین گوادر کے بارے میں کہتے ہیں کہ 325 قبل مسیح میں سکندرِ اعظم ہندوستان سے واپسی پر اپنی فوج کے ہمراہ مکران سے گوادر اور گوادر سے گزرتے ہوئے ایران کی طرف بڑھے تھے۔

لیکن گوادری اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ ’گوادر کی تاریخ کے حوالے سے مستند حالات سولھویں صدی عیسوی میں پرتگالی حملے کے بعد سے ملتے ہیں۔ پرتگالیوں کی تاریخ میں گوادر کا نام ’گوادیل‘ بتایا گیا ہے۔‘

جماعت

اسماعیلی برادری کے بارے میں شہاب الدین گوادری لکھتے ہیں کہ وہ اٹھارویں صدی کے تیسرے عشرے سے یہاں آباد ہیں۔

’گوادر میں مستقل طور پر آباد ہونے والے اسماعیلی زیادہ تر سندھ اور کچھ سے تعلق رکھتے تھے تاہم لسبیلہ سے بھی کافی تعداد میں اسماعیلی یہاں آ کر آباد ہوئے جبکہ گنتی کے چند خاندان ایران (بندر عباس اور لنگا) اور کاٹھیا واڑ سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔‘

لیکن ثقافتی لحاظ سے اس برادری پر سندھ کا اثر زیادہ نمایاں رہا اور ان کی زبان میں بھی سندھی، کچھی کی ملاوٹ تھی جبکہ مقامی بلوچی زبان کے لہجے کا اثر بھی موجود ہے۔

حالانکہ اس وقت سیاسی طور پر سلطانِ مسقط کی حکومت تھی لیکن اسماعیلی جماعت نے برطانوی رعایا بن کر تاجِ برطانیہ کے زیرِ نگیں رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔

اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماسٹر منصور نے بتایا کہ برادری کے گوادر آنے اور یہاں آباد ہونے کا ایک مستند ریکارڈ موجود تھا لیکن 1863 میں یہ تمام تر ریکارڈ جماعت خانے میں آگ لگ جانے کے باعث جل گیا۔

پھر لوگوں اور بڑے بوڑھوں کے ذریعے سُنی اور کہی ہوئی باتوں اور مختلف ممالک میں مقیم جماعت کے دیگر افراد سے ملنے والے احوال اور دستاویزات کے ذریعے یہ ریکارڈ دوبارہ سے جمع کیا گیا۔

جماعت خانہ

جماعت کے پاس موجود ریکارڈ کے مطابق اسماعیلی برادری کے افراد برصغیر میں آنے والے پہلے مسلمان تھے۔ اسماعیلی برادری جو پہلے سے ہی تجارت پیشہ افراد پر مشتمل تھی، انھوں نے تمام تر اشیا جیسے کہ چاول، گیہوں، کپاس، اُون، کھالیں اور مچھلی اور چٹائی کا کاروبار اپنا لیا۔

پرتگالی طرز کا جماعت خانہ

جبکہ آتے ساتھ ہی ’جہاں وہ برصغیر کے مختلف علاقوں اور شہروں میں آباد ہوئے وہیں گوادر کے شاہی بازار کے اسماعیلی محلہ میں ابتدائی طور پر مٹی اور چٹائیوں سے ایک عارضی عمارت بنائی گئی۔‘

سنہ 1863 میں اس جگہ پر آگ لگ جانے کے بعد ایک مستقل عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ تین مراحل سے گزرنے کے بعد عمارت کے پہلے مرحلے پر سنہ 1864 میں کام شروع ہوا پھر اسی طرح کام چلتا رہا اور پھر سنہ 1874 میں ایک مرکزی ہال مکمل ہوا جس میں مذہبی رسومات ادا کی جانے لگیں۔

اس کے بعد نچلی منزل کے آس پاس کچھ کمروں کا اضافہ کیا گیا۔ اور ساتھ ہی پہلی منزل کی تعمیر کا کام بھی جاری رہا۔ پہلی منزل اور اضافی کمروں کا تمام تر کام سنہ 1894 میں مکمل ہوا۔

دستیاب تاریخی ریکارڈ کے مطابق 10 دسمبر 1894 کو اس کا افتتاح ہوا جس کے بعد ’پہلی منزل پر مذہبی رسومات اور نچلے حصے کو سماجی کاموں، مسافروں کی رہائش کے انتظام اور جماعت کے دیگر کاموں کے لیے وقف کر دیا گیا۔‘

اسی بات کا تفضیلی تذکرہ شہاب الدین گوادری نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔

اسمائیلی

گوادری لکھتے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ جب جماعت خانے کی جگہ کم محسوس ہونے لگی تو تیسرے مرحلے کی منصوبہ بندی شروع ہوئی۔

نچلی منزل پر جہاں لائبریری کا قیام، اسکاؤٹ بینڈ کے لیے جگہ، مسافروں کی رہائش اور ڈسپنسری بنائی گئی وہیں پہلی منزل پر لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے سکول، کونسل آفس، سماجی تقاریب کے لیے ہال اور خواتین کے لیے الگ سیڑھیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔

جبکہ تینوں منزلوں کا تمام تر کام سنہ 1910 میں مکمل ہوا۔ تاہم گوادر کے اس وقت کے قانون کے مطابق وہاں پر سلطانی جھنڈے کے علاوہ کوئی اور جھنڈہ نہیں لہرایا جا سکتا تھا۔ اسی لیے اسماعیلی برادری کا ’مائی فلیگ‘ یعنی سبز اور لال رنگ کا جھنڈا نہیں لہرایا جا سکا تھا۔ اس جھنڈے کو لہرانے کی اجازت بعد میں دے دی گئی۔

سنہ 1994 میں اس عمارت کے بارے میں جماعت کے ریکارڈ اور گوادری صاحب کی کتاب میں لکھا ہے کہ اس عمارت کی پہلی منزل کو بنے ہوئے سوا سو برس ہو چکے ہیں، دوسرے مرحلے کی تکمیل کو تقریباً سو سال اور تیسرے مرحلے کی تکمیل کو چوراسی برس ہونے والے تھے۔ اور اُس وقت بھی یہ علاقے کی مظبوط ترین عمارت تھی۔

آج سنہ 2021 میں بھی اس عمارت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسے ایک ماہ پہلے تعمیر کرایا گیا ہو۔

اب باتیں کرتے کرتے میں اور ماسٹر منصور صاحب دوبارہ اسی عمارت کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔

اس وقت اس عمارت کے اردگرد تمام تر گھرگِرنے کی حالت تک پہنچ چکے ہیں۔ یہاں پر 500 خاندانوں کے لیے گھر تعمیر کرائے گئے تھے۔ وہیں آج یہاں پر اکّا دّکا گھروں میں لوگ رہتے ہیں۔ لیکن تاثر ایسا ملتا ہے کہ جیسے کوئی نہ رہتا ہو۔

جماعت خانہ

شہاب الدین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’قدیم زمانے میں عربوں اور ہندوستانیوں کے درمیان تجارتی کاروبار ہوتا رہا ہے جبکہ سندھ اور کچھ کے کئی اسماعیلی تاجر خلیجِ فارس سے اور عراق کی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت کرتے تھے۔ اور وہ ان علاقوں میں سمندری کشتیوں کے ذریعے آتے تھے۔‘

جبکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہندوستان کا زیادہ تر کاروبار خلیج کے علاقوں اور زنزیبار سے ہوتا تھا۔ خلیج کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے گوادر سے آنے والی اور جانے والی تمام بحری کشتیاں اور جہاز یہاں آ کر رکتے تھے۔

یہی بات کرتے ہوئے ماسٹر منصور اب جماعت خانے کے بالکل سامنے اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے ایک مخدوش گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہاں کچے مکانات ہوتے تھے، اس بات کو بھی ڈھائی سو سال ہو گئے ہیں کہ جب ہمارا خاندان چابہار (ایران) سے گوادر منتقل ہوا تھا۔

ان ڈھائی سو سالوں میں اسماعیلی برادری سے منسلک بہت سے لوگ یہ کمپاؤنڈ چھوڑ کر باہر منتقل ہو گئے ہیں۔

ماسٹر منصور نے بتایا کہ ’کئی لوگ پہلے کراچی گئے اور وہاں سے کولمبو، تنزانیا اور پھر آسٹریلیا۔‘

’لیکن ہمارا کیا ہے۔۔۔ ہم لوگ ہو چکے ہیں گوادری۔۔۔ اب چاہیں بھی تو کہیں اور دل نہیں لگے گا۔‘

اب سوال آیا گوادر کو ’نیا‘ بنانے کے بارے میں۔ تو اس تمام تر نئی تعمیرات اور منصوبہ بندی میں کیا اسماعیلی برادری اپنا وہ ہی مقام رکھ پائے گی؟

مریم سلیمان جو پیشے کے لحاظ سے بلاگر ہیں اور گوادر کی تاریخ پر تحقیق کرتی رہی ہیں انھوں نے بتایا کہ سنہ 2005 میں جب گوادر کا پہلا ماسٹر پلان سامنے آیا تھا تب شاہی بازار سمیت گوادر کی جتنی بھی پرانی بستیاں تھیں ان علاقوں کو ختم کر کے گوادر پورٹ کا حصہ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

’2019 میں مقامی ادارے آر سی ڈی سی نے اپنے سالانہ کتب میلے کا اہم موضوع شاہی بازار کو رکھا۔ تب صوبائی حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اس علاقے اور یہاں پر مودجود مقامات کی تزئین کا کام شروع کیا جائے گا۔‘

پھر 2020 کے اواخر میں جب گوادر کا نیا ماسٹر پلان متعارف کرایا گیا۔ تب کہا گیا کہ اس نئے ماسٹر پلان میں شاہی بازار کی تزئین بھی شامل ہے ’لیکن اب تک اس حوالے کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آ رہی۔‘

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک سالانہ رپورٹ سامنے آنے والی ہے جس میں علاقے کو مزید بہتر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔

مریم نے کہا کہ ’شاہی بازار کی خصوصیت یہاں پر رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ اور بولنے والی مختلف زبانیں ہیں۔ اس کا اندازہ یہاں پر موجود مندر اور جماعت خانے سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی منفرد برادریاں یہاں آباد رہی ہیں۔ اس وقت یہاں سو میں سے دس دکانیں فعال ہیں۔ تو اسے بہتر کرنا بہت ضروری ہے۔‘

اسی جماعت خانے کے عین پیچھے ایک ایکسپریس وے بنائی جا رہی ہے۔ جس کے دوسری طرف سمندر ہے۔ ان مخدوش عمارتوں کو دیکھتے ہوئے ماسٹر منصور نے کہا کہ ’نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہم لوگ انھیں گھروں کو بنائیں گے۔ یا شاید نہ بنائیں۔ لیکن ہماری جگہ یہی ہے۔ اب بھی کچھ لوگ ہیں جنھیں پرانے علاقوں میں رہنے کی عادت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp