کراچی کے مسائل: سیٹی بجے گی تو کام نکلے گا


کراچی میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمن صاحب گزشتہ تین چار برس سے کراچی کے مختلف مسائل کے حل کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں، ریلیاں نکال رہے ہیں، جلوسوں کی قیادت کر رہے ہیں، جلسوں سے خطاب فرما رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح متعلقہ محکمہ جات کی توجہ ان معاملات کی جانب مرکوز ہو جائے جن سے کراچی دوچار ہے لیکن کسی بھی محکمے کے کانوں پر جوں تک رینگ کر نہیں دے رہی ہے اور سلگتے مسائل جو پہلے صرف دھواں ہی دیتے نظر آتے تھے ، اب ان میں آگ کے شعلوں کو اٹھتا صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

کے الیکٹرک کے مسئلے کو اٹھایا گیا، نہ صرف لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو گیا بلکہ فی یونٹ ریٹ بھی آسمان کی جانب سیدھی پرواز کرنے لگے۔ کچرے کی انبار کی جانب توجہ دلائی گئی تو کراچی کے محلوں اور سڑکوں کو کچرا کنڈیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ بارش کے پانی میں ڈوب جانے والی بستیوں کی جانب توجہ دلائی گئی تو پرانی بستیاں تو پرانی بستیاں، وہ بستیاں جو نئے سرے سے بسائی جا رہی ہیں ، ان کے انفرا اسٹرکچرز تک میں بارش کے پانی کی نکاسی کا خیال نہیں رکھا گیا جس کی اعلیٰ ترین مثال ”نیا ناظم آباد“ کا غرقاب ہو جانا تھا۔

ناقص سیوریج سسٹم کی جانب دیکھنے کا کہا گیا تو بستیوں کی ساری گلیاں گندے نالوں میں تبدیل ہو کر رہ گئیں۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ پر نظر ڈالنے کو کہا گیا تو چھوٹی بڑی سڑکیں موہنجو دڑو کی گلیوں کی مثل بنا دی گئیں۔ المختصر یہ کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے جن جن مسائل اور معاملات کی جانب بھی مقامی، صوبائی یا مرکزی حکومت کو توجہ دلانے کے لئے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی مہم جوئی کی، ان کی صدائے احتجاج کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اس طرح نکال دیا گیا جیسے دونوں کانوں کے درمیان کان کے پردوں کی بجائے سوراخ ہو جس سے آواز ایک جانب سے داخل ہو کر دوسری جانب نکل جاتی ہو۔

پاکستان بھر میں کئی مرتبہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی کم تنخواہوں، اپنے مسائل، اپنی ملازمتوں میں درپیش عدم تحفظات اور دیگر بنیادی مسائل کی جانب حکومت کی توجہ دلانے کے لئے جب جب سڑکوں پر نکلے تو ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے نہ صرف ان پر تشدد کیا گیا بلکہ نہ جانے کتنے ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف ملازمتوں سے ہی بر طرف کر دیے گئے۔ پورے ملک میں مزدوروں کے احتجاج ہوتے آتے رہے، اساتذہ کرام اپنے اپنے صوبوں کی اسمبلیوں، گورنر ہاؤسز اور وزرائے اعلیٰ کے دروازوں پر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافوں کے لئے ہڑتالیں اور دھرنے دیتے رہے لیکن مجال ہے کہ ان کی کسی بھی سہولت کے لئے کوئی ایک عملی قدم اٹھایا گیا ہو۔

گزشتہ تین برسوں سے پورے ملک میں مہنگائی کے ہاتھوں عوام و خواص سب ہی بری طرح پریشان ہیں۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر جہاں ملک کے ہر طبقے پر پڑتا ہے وہیں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ملازم پیشہ افراد کا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہنر مند اور رشوت خور اپنے ہنر اور رشوت کی قدر و قیمت میں اضافہ کر لیا کرتے ہیں۔ ایک چھابڑی والے سے لے کر بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور والے مہنگا خریدتے ہیں تو مہنگا بیچ کر پہلے سے بھی کہیں زیادہ منافع کے مالک بن جاتے ہیں لیکن ملازم پیشہ ہر مہنگائی کے بعد یا تو مرکزی و صوبائی حکومتوں کا مرہون منت ہوتا ہے یا پھر ملک کے مالکان  یا اپنے اپنے ذاتی کاروباری مالکان کی جانب دیکھ رہا ہوتا ہے کہ کب اجرتوں اور تنخواہوں میں اضافے کی نوید سنائی دیتی ہے۔

بے شک مہنگائی پر کوئی حکومت بھی آج تک قابو نہیں پا سکی لیکن اتنا ضرور ہوتا رہا کہ ہر بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور ہوتا رہا جس کی وجہ سے ملازمین کے گھر کے اخراجات کسی نہ کسی حد تک پورے ہوتے رہے۔ موجودہ حکومت نے مہنگائی کے پچھلے سارے ریکارڈ تو ضرور چکنا چور کیے لیکن گزشتہ 3 برس کے دوران تنحواہوں میں ایک پھوٹی کوڑی کا اضافہ تو درکنار، اضافے کے ہر مطالبے کے جواب میں وزیراعظم یہی فرماتے نظر آئے کہ ”ہم کیا کریں“ ۔ جب خزانے میں پیسہ ہی نہیں ہے تو تنخواہوں میں اضافہ کیسے کریں۔

بات وزیراعظم کی بھی درست ہی ہے۔ جب صدر کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے 9 لاکھ کردی جائے، وزیراعظم کا گزارہ 2 لاکھ میں بھی نہ ہوتا دیکھ کر تنخواہ 10 لاکھ تک بڑھا دی جائے، ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کی تنخواہیں 400 فیصد بڑھا دی جائیں، سینیٹرز آسمانوں پر پرواز کرنے لگیں اور سارے وزرا شاہی خلعتیں زیب تن کر کے نہ جانے کتنے کھربوں سالانہ کی دیگر مراعات حاصل کر رہے ہوں تو خزانے میں اتنے پیسے کہاں بچیں گے جن سے غریبوں کی تنخواہوں میں اضافے کو ممکنات میں بدلا جا سکے۔

وہ حکومت اور اس کا وزیراعظم جو کل تک یہ کہتا رہا کہ خزانے میں پیسہ نہیں ، کیا وہ اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ ملازمین کی جانب سے ”سیٹی“ کی آواز پر 25 فیصد اضافے سے کھربوں روپے ماہانہ کی رقم زمین سے اگے یا آسمان سے برسے گی۔ یہ تو ہے وزیراعظم سے پوچھنے کی بات، ملک بھر کے سارے ہڑتالیوں، مہنگائی سے متاثرین، سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے اور جیل جانے والوں کے ساتھ ساتھ امیر جماعت کراچی سے بھی یہ کہنا ہے کہ کیا ان کے پاس حکومت کی کوئی دکھتی ”رگ“ یا ”دم“ ہے جس پر ہاتھ یا پیر رکھا جا سکتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے پاس حکومت کے سارے کام جام کرنے کی دکھتی ”رگ“ اور ”دم“ تھی ، سو 12 گھنٹوں سے پہلے انہوں نے حکومت کی چیخیں نکال کر رکھ دیں، اگر حافظ صاب کے پاس ایسا کوئی ہنر ہے تو کام چلے گا ورنہ نقار خانے کی توتی کی طرح جتنی چاہے ٹیں ٹیں کر لیں، کچھ ہونے والا نہیں۔

قانون مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں مچھر، مکھی اور بھونگے ہی پھنسا کرتے ہیں، بڑے بڑے پرند تو اس کا شیرازہ ہی بکھیر کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! کراچی میں بغیر سیٹی بجے نہ پہلے کبھی کام ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی امکان ہے ، لہٰذا ہو سکے تو سیٹی نہیں ہوٹر بجا کر رکھ دیں ، ورنہ صبر کے میٹھے پھل کھائیں بھی اور ان کا رس بھی چوستے رہیں۔ اللہ بھلی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments