سینیٹ کی منڈی میں ضمیروں کا بیوپار



دنیامیں ہر شخص کا ایمان بکا ہے
قیمت مجھے معلوم ہے تم نام بتاؤ

سینیٹ الیکشن سے قبل ہی ایک ویڈیو جس میں کچھ قانون سازی کرنے والے ممبران کو بظاہر رقم لے کر ووٹ بیچتے دکھایا گیا ہے۔ اس ویڈیو سے قبل میں نے جب بھی مذکور شعر پڑھا مجھے شاعر کے منفی رویے پر غصہ آیا کہ وہ ایمان تو نہیں جو بک گیا۔ کیونکہ اہل ایمان کے بارے میں تو علامہ اقبال کے اس شعر کا میں قائل ہوں کہ جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اہل ایمان تو مانند خورشید جیتے ہیں۔ اور خورشید کا کام تو بس روشنی اور حرارت پھیلانا ہے۔ اور ان دونوں سے انسانی جسم کی نشو ونما ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک مومن یا اہل ایمان کا کام ہی یہی ہے کہ اپنے کردار و عمل سے راہ انسانیت میں ہر سو ایسی روشنی بکھیرنا کہ جس کے ہالے میں جو میں شامل ہو گا منزل مقصود اسی کا مقدر بنے گی۔

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر نکلے ادھر ڈوبے

گویا علامہ اقبال کی نظر میں اہل ایمان وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اسلام نے تشریح فرما دی کہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب پر عمل پیرا لوگ ہی دراصل اہل ایمان ہیں۔ لیکن ہم نے فی زمانہ قرآن کی اس آیت کو یکسر بھلا دیا ہے، ویسے تو ہم نے اسلام کو محض نام کے لیے ہی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رکھا ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ قرآن پر عمل کرنے کی بجائے اسے قسمیں اٹھانے کے لئے ایک مقدس کتاب سمجھ لیا۔ حالانکہ قرآن فرماتا ہے:

”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا“

سینیٹ الیکشن سے قبل ہی بہت سے ممبران کی بظاہر رقم لیتے ہوئے ویڈیو کا منظر عام پر آ جانا اور پھر اپنی صفائیوں میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسمیں اٹھانا، کیا قرآن کا کام بس اتنا ہی رہ گیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر علامہ اقبال نے صحیح فرمایا تھا کہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اب اس کے بعد یہ فیصلہ خدا کے لئے نہ کیجیے گا کہ اس میں فلاں پارٹی کے لوگ بھی تھے اور فلاں کے بھی۔ بھلے وہ نون لیگ سے ہوں، پی پی یا پی ٹی آئی میں سے۔ کوئی بھی اس سے ماورا نہیں ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو پھر اسلامی قوانین کی روشنی میں ہی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے ، اس بارے میں سب سے پہلے جس شخص کو قدم اٹھانا ہو گا وہ ہیں ملک کے وزیراعظم عمران خاں صاحب، کیونکہ انہوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔

اگر اس عزم میں انہیں اپنے چند اراکین کی قربانی دینا پڑے تو انہیں ریاست مدینہ کو مثال بناتے ہوئے رشوت ستانی میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا ضرور دلوانی چاہیے۔ کیونکہ یہی تو امتحان و آزمائش  ہوتی ہے اہل ایمان اور اہل منصب کی کہ جب انہیں اقتدار سے نوازا جاتا ہے تو ان طاقت ملتی ہے تو وہ اس کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو طاقت ملتی ہے تو اس کے ظرف کا پتہ چلتا ہے۔ اب یہی وقت ہے جب پتہ چلے گا کہ اہل طاقت کا کیا ظرف ہے؟

اگر واقعی انہوں نے رشوت لی ہے جو کہ ویڈیو سے لگتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام نے دودھ کی رکھوالی بلے بٹھا رکھے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں یعنی کہ سینیٹرز جنہیں کہ ملک کی رکھوالی قانون سازی کر کے کرنا ہوتی ہے۔ سینٹ جس کے کل ایک سو چار اراکین ہیں اور یہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا ایوان بالا کہلاتا ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز 1973 میں ہوا تاہم قانون سازی اور عمل داری میں اس کا بھرپور کردار ہوتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قانون کے ذریعے سے ملکی فلاح اور سالمیت میں سینٹ کا مضبوط کردار ہوتا ہے۔

یہ مستقل ادارہ ہے جس کے الیکشن ہر تین سال بعد ہوتے ہیں لیکن ایک سینیٹر چھ سال کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین انہیں ووٹ ڈالتے ہیں۔ چونکہ یہ ووٹ برابری کی سطح پر ڈالے جاتے ہیں تو ایک ایم پی اے کے ایک سے زائد ووٹ کی اہمیت کی بنا پر ہی انہیں کروڑوں روپے رشوت کی آفر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے پیسہ کسے برا لگتا ہے۔ ایمان پھسلتے ہوئے کون سے دیر لگتی ہے۔ جب ملک میں ہر سو رشوت کا بازار گرم ہو تو یہ اراکین بھی تو اسی ملک کے باسی ہیں۔

اگر ایک عام آدمی رشوت لیتا ہے تو اس کی اتنی پکڑ اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ ایک اہل منصب کی۔ کیونکہ اہل منصب اگر بے ضمیر ہو گا تو پھر سمجھ جائیں کہ قوم کا ضمیر بھی قابل فروخت ہی ہو گا۔ ایک انگریزی کہاوت ہے کہ مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے، اگر قانون ساز ادارے اور اس کے اراکین کھلے عام اپنے ضمیر کی سودے بازی کے لئے رشوت لیتے دکھائی دیں گے تو عوام سے کیا توقعات کی جا سکتی ہے۔

افسوس صد افسوس کہ چند اراکین کی اس حرکت نے ملکی وقار کو دنیا میں داؤ میں لگا دیا۔  انہوں نے ثابت کر دیا کہ واقعی دنیا میں ہر شخص کا ایمان بک سکتا ہے۔ ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ابراہام لنکن کے ساتھ ایک بزنس مین وائٹ ہاؤس کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ وائٹ ہاؤس کی قیمت بھی لگاتا جا رہا تھا۔ جب دونوں احباب آخری سیڑھی پر چڑھے تو ابراہام لنکن نے اسے پاؤں کی ٹھوکر سے سیڑھیوں سے دھکا دے دیا۔

وہ شخص اٹھا ، دوبارہ ابراہام لنکن کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ نے مجھ سے اگر وائٹ ہاؤس کا سودا نہیں کرنا تھا تو پہلی سیڑھی پر ہی انکار کر دیتے ، مجھے اتنی سیڑھیاں چڑھانے کی ضرورت کیا تھی، جس پر ابراہام لنکن نے جواب دیا کہ اگر ایک دو سیڑھیاں اور چڑھ جاتے تو مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرا ایمان لغزش کا شکار ہو جاتا اور میں تمہیں وائٹ ہاؤس فروخت ہی نہ کر دیتا۔

گویا جب تک آپ کا ضمیر آپ کے لئے اور قوم کے لئے زندہ ہے ، کوئی آپ کے ضمیر کی قیمت نہیں لگا سکتا وگرنہ ملک کے ہر کونے میں خریدنے والے اور ضمیروں کا سودا کرنے والے کھڑے نظر آئیں گے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں یا اپنے منصب کا خیال کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو بچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments