رعایا اور سلطنت کے حقوق و فرائض کی تحدید


رعایا اور سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کا بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار اور خلفشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے اور یوں سول نافرمانی یا طوائف الملوکی کی صورت میں معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔

دنیا میں ہم انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ داری پوری پوری نسبت سے عائد ہوتی ہے۔

کوئی بھی معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب، وہاں رعایا اور سلطنت کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو طبقات اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کو اپنا سب سے بڑا فرض تسلیم کرتے ہوں۔ تاہم جہاں حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن، پہلو تہی یا غفلت کا ہونا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہو اور جہاں اس جرم کو جرم ہی نہ مانا جاتا ہو وہاں امن، محبت، قانون کی پاسداری، خوشحالی، امانت، سچائی اور دوسرے نیک اوصاف کو تلاش کرنے کا مطلب گویا وقت کا ضیاع اور محض دیوانگی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اگر ہم تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں اور ان عناصر کا جائزہ لیں جو کسی بھی سلطنت کے قیام اور اس کی بقاء کے واسطے لازم ہیں تو ان میں سب سے اہم جزو یا عنصر اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ آئین دراصل وہ دستاویز ہے جو سلطنت اور رعایا کے حقوق و فرائض کی نہ صرف تفصیل واضح کرتی ہے بلکہ، وہ ان ہر دو طبقات کو اپنی اس بنیادی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں کسی سلطنت نے استحکام کی حالت کو پا لیا تو اس کے بعد اس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو واضح کرتے ہوئے اپنے کاروبار سلطنت کے خد و خال اور عزائم کو واضح کیا تاکہ سلطنت اور رعایا کے درمیان رشتہ مضبوط ہو سکے اور ساتھ ہی داخلی اور خارجی استحکام بھی میسر آ سکے۔

لہٰذا جب ایک ریاست اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا اس نے اپنے اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کو واضح کر کے ہر دو کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی ہے کہ جس کو پاٹنے کا مطلب گویا اس توازن میں انتشار لا کر بنیادی ڈھانچے کو گرانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اور رعایا کو اس بات کا کلی پابند کرتی ہے کہ ہر دو طبقات اس آئین کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اور اپنی سوچ کا محور اس کو ہی مانیں گے۔

جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا وہ کاروبار حکومت کا آغاز کرتی ہے، جس کے تحت اس نے اپنی رعایا کو اس کے وہ تمام بنیادی حقوق جس کا وعدہ اس نے آئین کے اندر کیا ہے ان کو فراہم کرے گی۔ اور دوسری طرف رعایا اسی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس مدعا کو دہراتی ہے کہ وہ اپنی سلطنت کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر اس کو مضبوط اور مستحکم کرے گی۔

ایک سلطنت اس آئین کے ذریعے اپنے آپ کو جن بنیادی فرائض کو ادا کرنے کا پابند بناتی ہے، وہی دراصل رعایا کے حقوق ہوتے ہیں اور جب رعایا کو ان کے حقوق مکمل طور پر مل رہے ہوتے ہیں تو سلطنت اور رعایا کے درمیان انسیت و محبت کا رشتہ پروان چڑھتا ہے اور ہر فرد سلطنت کی طرف سے جاری شدہ احکامات کے اوپر عمل درآمد کرنے کو اپنا سب سے بڑا فرض جانتا ہے۔ اور دوسری طرف سلطنت اپنی رعایا سے ان فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو افراد کے ذمہ ہوتے ہیں اور جن کا تعین، اس ملک کے آئین نے کیا ہوتا ہے۔

چنانچہ ہم آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دراصل آئین وہ درمیانی نقطہ یا حد فاصل ہے جو سلطنت اور رعایا کے مابین حقوق و فرائض کی تقسیم کا کام کرتے ہوئے بطور فارق اپنا کام سر انجام دیتا ہے۔ اور جیسے ہی اس حد فاصل کو سلطنت یا رعایا عبور کرتے ہوئے دوسرے کی حد میں داخل ہوتے ہیں، تو نتیجہ عدم استحکام، بد اعتمادی، لوٹ کھسوٹ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، قانون شکنی، مطلق العنانیت، قہر، جبر، غصب، احساس محرومی، حق تلفی، لسانی اور صوبائی عصبیت جیسے مسائل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ جہاں بداعتمادی کی خلیج اس قدر وسیع ہو جاتی ہے کہ رعایا اور سلطنت ہر دو طبقات ایک دوسرے پہ اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور یوں ایک ایسی گھٹن کی فضاء قائم ہوتی ہے، جہاں کسی ذی روح کا آسانی سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔

ہمارے یہاں وہ اعتراض کرنے والے حضرات جو رعایا کو ہر دوسری بات پہ صرف ایک ہی جواب دے کر چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”تم نے اس ملک کو دیا کیا ہے“ ، ان سے اگر یہ پوچھا جائے کہ سلطنت نے اس رعایا کو ستر سال میں جو بھوک، غربت، قرض، احساس محرومی، قانون شکنی، جہالت اور جمہوری حق سے محروم رکھ کر جبر، دھونس اور جھوٹ کے بل بوتے پر اپنا کاروبار چمکایا ہے ، اس کا جواب کون دے گا۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی آج اشد ضرورت ہے کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر، محض ان سے ان کے فرائض کی بابت اگر بازپرس کی جائے تو یہ دراصل انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم اور ظلم والی بات ہے۔ کیونکہ اپنی رعایا کو ان کے حقوق فراہم کرنا ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے، اور اگر ریاست اس میں غفلت کی مرتکب ہوتی ہے، تو وہ رعایا سے بھی ان کے فرائض کا تقاضا کرنے میں حق بجانب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قانون کی عملی تشریح کا زمانہ مدنی دور کا ہے، اور مکی دور میں کسی بھی قانون، سزا یا جزا کا تصور ہمیں نہیں ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments