انسداد دہشت گردی کا بیانیہ …. (قسط اول)


 

\"image\"مجاہد حسین

یقین کریں آج کے سب سے زیادہ مستعمل لفظ” دہشت گردی مخالف بیانیہ“ کے تصور ہی سے میرے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں، اِس کے خدوخال(اگر کبھی کہیں ہوں گے) کے بارے میں قطعی یقین سے بات کرنا، ایسے ہی ہے جیسے میں یہ کہوں کہ اگر خالہ کی مونچھیں نکل آئیں تو ہم ان کو خالو کہیں گے۔ اگرچہ میں اس تصور سے بھی خوفزدہ ہوں کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے واحد متکلم جیسی کراہت آمیز اصطلاح کا سہارا لینا پڑرہا ہے، لیکن اس کے بغیر چارہ نہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مذہبی مبادیات و معاملات پر پڑھنے، سیکھنے اور لکھنے کی کوشش میں مصروف ہوں اور اِس نتیجے (یاد رہے کہ یہ میرا اخذ کردہ اور احتمالی نتیجہ ہے) پر پہنچا ہوں کہ جب تک دو زانو ہوکر انتہا پسندی و فرقہ واریت کے منہ بولتے شاہکار اڑتالیس عدد ماہانہ، ہفتہ وار اور پندرہ روزہ دینی جرائد و رسائل کی تمام فائلیںاور درس نظامی کو ازبر نہ کر لوں، کسی طور بھی مصروف عمل مذہبی کرداروں کی جزیات اوردینی و دنیاوی طرز عمل کا کماحقہ احاطہ نہیں کرسکتا۔ واضح رہے کہ قدیمی و تاریخی تفاسیر و تواریخ کی سینکڑوں جلدوں کے مرتب کردہ اثرات اس کے علاوہ ہیں، جن کے تجزیے کے لیے درجنوں ماہرین بشریات و سماجیات کی خدمات درکار ہوں گی۔ اِس کے باوجودجو دوست میری طرح تساہل زدہ ہوتے ہوئے بھی نتیجہ خیزی کے مرض میں مبتلا ہیں اُن کے لیے عاجزانہ تجویز حاضر ہے کہ امیر المجاہدین حضرت مولانا مسعود اظہر مدظلہ کی تحریر کردہ چالیس کتب دل لگا کر پڑھ لیں اُس کے بعد دہشت گردی و انتہا پسندی کے انسداد کے لیے درکارنہایت ناگزیر بیانیہ کی جزئیات پر غور کرنے کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ مولانا موصوف کی مشہور سلسلہ وار تحریر ’سعدی کے قلم سے‘ انشاءاللہ جلد کتابی شکل میں شائع ہوگی تو اِن کی تحریر کردہ کتب کی تعداد ایک سو پچاس سے بڑھ جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ مذکورہ کتب ایسے لوگوں کی نظروں سے ہزاروں کوس دور ہیں جو پاکستان میں انسداد دہشت گردی کا بیانیہ تیار کرنے کے لیے بے قرار ہیں۔ بلکہ بعض تو اپنے اپنے طور پر ناقابل تردید بیانیہ تیار کرکے سر بمہر کرچکے ہیں۔

میں ایسے جلیل القدر دوستوں سے معافی کا طلبگار ہوں جو کذب بیانی کی حد تک مرنجان مرنج واقع ہوئے ہیں اور اپنی مثبت افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہوکر فروغ دہشت گردی و انتہا پسندی کے دستیاب تحریری و تقریری مواد میں سے انسداد دہشت گردی کے لیے معجون تیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں عطار کے لونڈے کے ذکر والا شعر وضاحت کا کام کرسکتا ہے لیکن مجھے خالد احمد سے ڈرلگتا ہے جو نثر میں شعر کا پیوند برداشت نہیں کرسکتے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوشش شعر اور نثر دونوں کے لیے یکساں مضر ہے۔

یہ ثابت کرنا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں مذہبی و مسلکی بنیادوں پر باقاعدہ مارا ماری شروع ہونے کے بعددوتین سنجیدہ اخبارات و رسائل میں کسی موقع کی مناسبت سے شائع ہونے والے نہایت مختصر اداریوں اور شذروں کے علاوہ ہم زیادہ تر زبانی بیانیے تیار کرنے اور سننے سنانے میں مصروف رہے ہیں۔ چند سنجیدہ دوستوں نے چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں بنیادی تصورات کو بھی بیان کرنے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ تر صدا بہ صحرا ثابت ہوئے اور آج اِن کا وجود کسی لائبریری میں بھی نہیں ملتا۔ البتہ بعض کتب میں ایسی مددگار تحریریں اور تجزیے ضرور مل جاتے جن کو آج کی ضرورت کے مطابق بیانیے کی تیاری میں بنیادی مواد کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے، اِس سے زیادہ کچھ دستیاب نہیں۔

لیکن وہ مجوزہ متوقع بیانیہ کیا ہوگا؟ کیا متشدد اذہان سے یہ درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنی سوچ کی ساختیاتی غلطیاں درست کرنے کے لیے اسی مواد اور اساطیر کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں، جس کے اولین مطالعہ اور اس کے اثرات سے وہ اس حال میں ہیں؟یا انہیں باور کرایا جائے کہ جس مرحلے سے آپ گزرے اور مخصوص قسم کے متشدد رویے کو اپنانے پر مائل ہوئے، ہم خود اس مرحلے سے گزر کرآپ سے قطعی مختلف بلکہ متضاد اثرات محسوس کرتے ہیں، لہذا آپ کا طرز فکر وہ نہیں بن سکا جودینی تعلیم کا اصل مطمح نظر تھا۔ اسی طرح ہمارے مجوزہ و متوقع بیانیے کا دوسرا بڑا مخاطب عوام ہوں گے، جن کے بارے میں عمومی رائے یہی پائی جاتی ہے کہ اگر اُنہیں قائل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ اگر جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ یہاں پر ہمیں قائل کرنے اور مائل کرنے کے حقیقی مفہوم کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہمارے سماجی تناظر میں کامیابی اسی کو حاصل ہوئی ہے جو مائل کرنے کی بہتر صلاحیت سے لیس تھا۔

مثال کے طور پر حضرت مولانا مسعود اظہر مدظلہ جب یہ لکھتے ہیں ’ پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ مغرب کے غلام ہیں، کاسہ لیس ہیں اور ان کی پھینکی ہوئی ہڈیوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔ پاکستان میں انگریزی لباس پہننے والے لوگ اسلام کی تعلیمات کو کیا سمجھ پائیں گے؟سوائے اسلامی ذرائع ابلاغ کے اسلام میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام دشمنوں کے پیسے پر پلنے والی این جی اوز کی سنڈیاں، امریکی چھچھوندریں اور انگریزوں کے سامنے دم ہلانے والے کالے انگریز کیا سمجھیں جہاد کیا ہے؟جب ایک خودکش بمبار اپنے جسم کے ساتھ بم باندھتا ہے اور اللہ کی راہ میں اپنے جسم کے چیتھڑے اُڑانے کے لیے بے قرار ہوتا ہے تو اللہ کی رحمت اس پر اپنا سایہ کردیتی ہے۔ ہدف کے لیے اس کا انتظار اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ ‘ اگر یہاں پر ایسے جملے درج کرنے کی کوشش ہی کی جائے جن سے ذہنی حالت کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اچھی خاصی ضخامت کی حامل سو سے زائد کتب تحریر کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کی تقریباً تمام مذہبی انتہا پسند اور فرقہ پرست جماعتوں اور گروہوں میں ایسے درجنوں بے مثال رہنما موجود ہیں جن کے شائع شدہ اقوال کو نہایت مختصر کرکے مرتب کرنے کے لیے ہزاروں کتب کی ضخامت درکار ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایسے تصورات ہی اکثریت کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں اور عام اذہان نے اِن کو بلا چون و چرا تسلیم کرلیا ہے۔

اگرچہ ایسی ذہن سازی کے وقت عقب میں ہیئت مقتدرہ خم ٹھونک کر بیٹھی تھی اور مطمح نظر بیرونی دشمن تھے لیکن تیاری کے بعد اس ذہن نے پہلا کاری وار اندرونی محاذ پر ہی کیا ہے۔ ایک چھابڑی فروش کو دوسرا چھابڑی فروش یہ نہیں بتاتا کہ یورپ اسلام کا بدترین دشمن ہے، امریکہ پاکستانی مسلمانوں کو بھوکا مارنے کے لیے ہمارے آسمانوں میں بننے والے بادلوں پر کیمیکل سپرے کرتا ہے، جن سے بادلوں میں پانی خشک ہوجاتا ہے، بھارتی بنیا نوجوان اور حسین لڑکیوں کو تربیت دے کر اسلام آباد میں چھوڑ دیتا ہے، جن کے سامنے ہمارے اعلیٰ عہدیدار تمام راز اگل دیتے ہیں یا اسرائیل میں ہر یہودی پر یہ سوچنا لازم ہے کہ پاکستان کو کس طرح نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اُس کو نہ صرف اپنی یہودی شناخت سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ سزا کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے ایسے ایمان افروز خیالات کا منبع ہمارے منبر، خطبات، بیانات، دینی رسائل و جرائد اورجہادی مطبوعات ہیں۔ اگر حضرت زید حامد اعلان کرتے ہیں کہ ہم چشم زدن میں ہندووں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے اور ہندو کبھی بھی مسلمان کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ مسلمانوں نے ہزار سال تک حکمرانی کی ہے، تواس کا ماخذ ہماری لازمی نصابی کتب ہیں جن کے تیار کنندگان کو ہماری مذہبی جماعتوں نے خاص طور پر تیار کیا۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments