ڈرامہ سیریل ‘ ڈنک’ پر تنقید: کیا عورت ولن نہیں ہو سکتی؟


پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ میں کئی ایسے ڈرامے بن چکے ہیں جنہوں نے معاشرے میں ہونے والے مظالم اور نا انصافیوں کی نہ صرف عکاسی کی بلکہ ناظرین کو ان موضوعات سے آگاہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ چاہے پھر وہ کامیڈی ڈرامے ہوں یا تاریخی، رومانوی کہانیاں ہوں یا کسی ایک واقعے کے گرد گھومنے والے لانگ پلے۔ ڈرامہ انڈسٹری نے شائقین کو کبھی مایوس نہیں کیا۔

لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں طلاق، ساس بہو کے جھگڑے، تھپڑ اور دوسری شادی جیسے موضوعات نے مقصدیت سے بھرے ڈراموں کی جگہ لے لی ہے۔ جس کے باعث ناظرین ٹی وی ڈراموں سے زیادہ اسٹریمنگ سروسز کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔

ایسے میں نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی ڈیجیٹل’ کا ڈرامہ ‘ڈنک’ ان ناظرین کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے جو ٹی وی ڈراموں سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بگ بینگ انٹرٹینمنٹ کا یہ ڈرامہ محسن علی شاہ نے لکھا اور اس کی ہدایت کاری بدر محمود نے انجام دی ہے۔ دونوں نے اس سے قبل ‘ایسی ہے تنہائی’ اور ‘عشقیہ’ جیسے ڈرامے بنائے جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔

ڈرامہ سیریل ‘ڈنک’ کی کہانی ایک ایسے یونیورسٹی پروفیسر (نعمان اعجاز) کے گرد گھومتی ہے جس پر ایک طالبہ امل (ثنا جاوید) جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے۔

https://twitter.com/DunkDrama/status/1342509647148802048

اس الزام کے بعد طالبہ کے منگیتر حیدر (بلال عباس) اور اس کے ساتھی یونیورسٹی میں ہڑتال کر دیتے ہیں۔ پروفیسر اپنی بے گناہی کا ثبوت نہ دیے جانے کی وجہ سے خودکشی کر لیتا ہے۔ ادھر حیدر کو پتا چلتا ہے کہ پروفیسر بے قصور تھا اور ساری کی ساری غلطی اس کی منگیتر امل کی تھی۔

جب تک ناظرین کو پروفیسر کے گناہ گار ہونے پر یقین تھا، ڈرامہ سب پسند کر رہے تھے۔ لیکن جہاں طالبہ کی غلطی سامنے آئی تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ‘ڈنک’ ٹرینڈ کرنا شروع ہو گیا۔

لوگوں نے پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کو ٹیگ کر کے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور لڑکی کو قصوروار دکھانے پر اپنے اپنے انداز سے غم و غصے کا اظہار کیا۔

ڈرامے کے پروڈیوسر فہد مصطفیٰ نے متعدد انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ اُن کے ڈراموں کی کہانی حقیقی واقعات سے متاثر ہوتی ہے اور ‘ڈنک’ بھی ایک سچی کہانی پر ہی مبنی ہے۔ یہ کہانی لاہور کے ایم اے او کالج کے ایک پروفیسر پر بنائی گئی ہے جس نے صرف اس وجہ سے اپنی جان لی تھی کہ ایک طالبہ نے اُن پر بے بنیاد الزام لگایا تھا۔

اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جرجیس سیجا کا کہنا تھا کہ ڈرامہ ‘ڈنک’ کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ ڈرامہ ایک واقعے سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے فائدے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

2020 کے ٹاپ پاکستانی ڈرامے: ‘وہی گھریلو جھگڑے، متنازع معاشقے اور جرائم’

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈنک’ کے ذریعے ناظرین کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر واقعے کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ ایک سچا اور ایک جھوٹا۔ ہمیں دونوں پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔

اُن کے بقول، “یہ پہلا موقع نہیں جب ہم نے کسی معاشرتی برائی کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔ اس سے قبل ‘میری گڑیا’ اور ‘رسوائی’ جیسے ڈرامے بھی نشر کیے ہیں جن میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے بارے میں آگاہی دی گئی تھی۔ جنہیں ناظرین نے بے حد پسند کیا اور یہی کچھ’ ڈنک’ کے ساتھ بھی ہو گا۔”

‘ڈرامے میں اور بھی بہت کچھ ہے’

جرجیس سیجا کہتے ہیں کہ ابھی ڈرامہ شروع ہوا ہے۔ اس میں آگے جا کر اور بھی بہت کچھ ہوگا جس سے ناظرین کی اس ڈرامے کے بارے میں رائے یقیناً تبدیل ہو گی۔

ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں ‘ڈنک’ ڈرامہ پسند نہیں آ رہا تو دوسری جانب ایسے بھی تجزیہ کار ہیں جن کے خیال میں ڈرامے کی کہانی میں تو جھول ہو سکتا ہے لیکن ڈرامے میں نہیں۔

مہوش اعجاز، جو پاکستانی ڈراموں پر ایک گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے تجزیوں کی وجہ سے ٹوئٹر پر کافی متحرک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ڈنک’ ایک بہترین پروڈکشن ہے جس کی ہر قسط میں کہانی ایک نیا موڑ لے کر سب کو حیران کر دیتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محسن علی کا لکھا ہوا ڈرامہ ایک ‘مسٹری تھرلر’ ہے، جس کے صرف ایک پہلو پر لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔

نامور پاکستانی فن کاروں کے بچوں کے شوبز کریئر ناکام کیوں؟

ڈرامہ جب شروع ہوا تو پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ “بے بنیاد الزامات لگانے والوں کے لیے ایک نذرانہ ہے۔”

اسی بیان کی وجہ سے لوگوں نے ڈرامہ دیکھے بغیر اس پر تنقید شروع کر دی تھی۔ لیکن آٹھ اقساط نشر ہونے کے بعد ناظرین کو سمجھ آ رہا ہے کہ ڈرامہ تو کچھ اور ہے۔

مہوش اعجاز کے بقول، “جنسی ہراسانی والا معاملہ اب ڈرامے میں سائیڈ پر ہوگیا ہے اور کہانی دو خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے، جس کے دو کردار امل اور حیدر ہیں جو پروفیسر کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ کون سچا ہے کون جھوٹا؟ یہ ڈرامے کی ایک ایسی پہیلی ہے جس کا ایک زاویہ پروفیسر کی خودکشی پر ختم ہوا۔”

مہوش کہتی ہیں اُنہیں ڈرامے سے کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ ان کے بقول، نہ تو اس میں عورتوں کو خراب دکھایا گیا ہے نہ ہی مردوں کو، بلکہ اس میں تو معاشرے کی اچھائی اور برائی کے دونوں پہلو موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈرامے میں ایک طرف سپورٹ کرنے والے ماں باپ ہیں تو دوسری جانب غیر ذمہ دار میڈیا۔ اس سے بہتر انسانی فطرت کی عکاسی ہمارے ڈراموں میں کہاں ہوتی ہے۔

پیمرا کا ڈنک کے پروڈیوسرز کو نوٹس

پاکستان میں نشریاتی مواد پر نظر رکھنے والے ادارے ‘پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی’ (پیمرا) کی جانب سے ڈرامے کے پروڈیوسر کو نوٹس بھیجے گئے ہیں۔

اس پر مہوش اعجاز کہتی ہیں “ڈرامے کی پہلی قسط کے بعد ہی پیمرا کی جانب سے پروڈیوسرز کو نوٹس بھیجنا سمجھ سے بالا ہے۔ کیا پیمرا کی اپنی کوئی سوچ نہیں یا پھر جب 10، 15 لوگ انہیں فون کر کے شکایت کریں گے تو وہ ڈرامہ بند کر دیں گے؟”

امریکہ میں مقیم بلاگر صدف حیدر کا کہنا ہے کہ اُنہیں ڈرامے میں امل کا کردار جس طرح لکھا گیا، اس سے مسئلہ ہے۔ لیکن ڈرامے کی کہانی سے نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ امل کا کردار تو بہت ہی پر اعتماد دکھایا گیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں اس طرح کے کیسز میں عورت کو ہی قصوروار تصور کیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صدف حیدر نے کہا کہ لوگوں کو اصل مسئلہ ڈرامے سے نہیں، بلکہ پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کے اس تبصرے سے ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ڈرامہ ایک ایسے پروفیسر کے گرد گھومتا ہے جس کے خلاف ایک طالبہ بے بنیاد الزام لگاتی ہے۔

پاکستان سے باہر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے پاکستانی فن کار

اُن کے بقول فہد مصطفیٰ کے ٹوئٹ کی وجہ سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اداکار و پروڈیوسر کے خلاف ٹوئٹ کیے۔ لیکن ڈرامے کی آٹھ اقساط دیکھنے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

صدف کہتی ہیں “یہ ڈرامہ نہ تو ‘می ٹو موومنٹ’ کے خلاف ہے اور نہ ہی جنسی ہراسانی کو فروغ دیتا ہے۔ بلکہ اس میں معاشرے میں جنسی ہراسانی کو کس طرح دیکھا جاتا ہے، اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔”

صدف حیدر کا مزید کہنا تھا ڈرامے میں امل کے کردار کو اتنا پُراعتماد دکھایا ہے کہ جسے اندازہ ہے کہ لوگ اس کی بات سنیں گے پروفیسر کی نہیں، مگر حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔

مہوش اعجاز کہتی ہیں دنیا میں کئی ایسی فلمیں بنی ہیں جن میں عورت کو ولن دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام فلمیں نہ صرف کامیاب ہوئیں بلکہ انہوں نے ایوارڈز بھی جیتے۔

اُن کے بقول “ہالی وڈ میں فیٹل اٹریکشن، گون گرل، سنگل وائٹ فیمیل جیسی فلموں میں عورت کو ولن دکھایا گیا۔ آخر کب تک ہم ہر ڈرامے میں اپنی عورت کو مظلوم دکھاتے رہیں گے جو ڈرامے کے اختتام تک اپنی بے گناہی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمیں بھی آگے بڑھ کر کھیلنا ہو گا اور ‘ڈنک’ ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے جو آگے جا کر مزید دلچسپ ہو سکتا ہے۔”

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments