میں،سادہ لوح عاشق اور تمہارا ویلنٹائین


وہ بڑی عاجزی کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گیا اور بڑی انکساری سے کہنے لگا باؤ جی برائے مہربانی آپ مجھے اردو کے اچھے اچھے شعر زبانی یاد کرا دیں ۔ میں نے حیرت سے پوچھا ”شعر! لیکن تم شعر کیوں یاد کرنا چاہتے ہو؟ وہ شرماتے ہوئے لجاجت سے کہنے لگا جی میری منگنی بچپن سے ہی میں میری خالہ زاد سے ہو گئی تھی، میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں، بہت جلد ہماری شادی ہونے والی ہے۔

میں نے اسے ٹوکا لیکن شادی کا شعروں سے کیا تعلق ہے؟

کہنے لگا جی اصل میں وہ کالج میں پڑھتی ہے۔ بڑی لائق ہے، شاعری بھی کرتی ہے ۔ اگر آپ مجھے کوئی شعر سکھا دیں گے تو اسے لگے گا کہ مجھے بھی شاعری اچھی لگتی ہے ۔ اس کے بعد اس نے سگریٹ کا ایک لمبا سا کش لیا اور اپنے منہ سے دھوئیں کے گول گول دائرے بنا کر فضا میں بکھیرتے ہوئے کہنے لگا باؤ جی! میرا خیال ہے شعر محبت کے انجن کا اسٹارٹر ہوتا ہے اگر کسی کو شعر نہیں آتے تو اظہار کے لئے جتنی مرضی ہے باتوں کی“ چوک ”دیں یا ایکسیلٹر دبائیں محبت کی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو سکتی۔

اس کی آٹو الیکٹریشن کی چھوٹی سی ورکشاپ تھی جو میرے کالج کے راستے پر بس اسٹاپ کے نزدیک تھی ۔ وہ مجھے دیکھتے ہی اپنے شاگردوں میں سے کسی کو آواز دیتا اوئے چھوٹے! اندر سے کرسی لے کر آ۔ پھر وہ اپنی نگرانی میں اسے صاف کرواتا اور کہتا باؤ جی! اس پر بیٹھیں ابھی بس آنے میں کافی ”ٹیم“ ہے، ورکشاپ میں ہی پڑے ہوئے کسی ڈبے کو وہ اپنی کرسی بناتا، سگریٹ کی ڈبیا کھولتا، رجنی کانت اسٹائل میں سگریٹ کو اپنے منہ میں پھینکتا اور میرے سامنے آ کر براجمان ہو جاتا۔

اس دن اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی مجھے کہنے لگا: مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے، میں نے کہا ہاں بتاؤ۔ کہنے لگا مجھے اردو کے کچھ شعر زبانی یاد کرا دیں ۔ میں نے کہا اس میں کیا مسئلہ ہے میں تمہیں شاعری کی کوئی کتاب لا دیتا ہوں، وہ ہنس کر کہنے لگا مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ میں چوتھی جماعت سے سکول سے بھاگا ہوں اور پھر سکول کا منہ نہیں دیکھا۔

میں نے پوچھا وہ کیوں؟

کہنے لگا مجھے سبق یاد نہیں ہوتا تھا، ماسٹروں سے روز پٹائی ہوتی تھی لیکن ایسا لگتا تھا جیسے دماغ کے اندر کسی بلب کا کوئی فیوز اڑ گیا ہو یا پھر یادداشت کی بیٹری ختم ہو گئی ہو یا ذہن کے انجن کے پلگوں میں کچرا آ گیا ہو، تنگ آ کر ابا نے سزا کے طور پر مجھے ایک الیکٹریشن کے پاس بھیجا اور میں کچھ ہی مہینوں میں آٹو الیکٹریشن بن گیا اور اب دیکھیں اپنی ورکشاپ کھول کے بیٹھا ہوں۔

میں نے اس معصوم عاشق کی مدد کرنے کا تہیہ کر لیا اور اس سے وعدہ کیا کہ اسے کچھ ہی دنوں میں بہت سے شعر یاد کرا دوں گا ۔ میں بی ایس سی فائنل ایئر میں تھا، اردو کا مضمون چھوڑے ہوئے مجھے بھی دو سال کا عرصہ ہو چکا تھا، اس لیے مجھے خود بھی شعر وغیرہ اب اتنے یاد نہیں تھے البتہ میٹرک میں پڑھے ہوئے معتبر شعرا کے چند شعر اس کے سامنے پڑھے تو کہنے لگا یہ بہت مشکل ہیں، مجھے تو کوئی آسان سا شعر سکھائیں۔ میرے لئے اب یہ ایک معما بن گیا کہ آسان شعر کہاں سے لاؤں، پھر اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ بسوں، رکشوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے پیچھے اکثر شعر بڑے آسان اردو میں لکھے ہوتے ہیں ۔ میں نے اس مشن کے لئے بسوں اور رکشوں کے شعراء سے مدد لینے کی ٹھان لی۔

میں نے آسان شعر والے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے ٹریکٹر ٹرالیوں پر نظر ڈالی تو ان کے پیچھے اس طرح کے جملے لکھے ہوئے تھے ”ماں کی دعا جنت کی ہوا۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ ہارن دے راستہ لے۔ توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔ جب رکشوں کے پیچھے دیکھا تو لکھا ہوا تھا“ جس نے ماں باپ کو ستایا اس نے رکشہ ہی چلایا ”“ ماں کی بد دعا جا بیٹا رکشہ چلا ”بسوں میں زندگی کی بے ثباتی کے بارے میں اشعار تھے جیسا کہ،“ اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو / نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ” کچھ عشقیہ شعر بھی تھے لیکن ان کا لیول ایک کالج کی لڑکی کے لئے انتہائی نامناسب تھا مثلاً“ اے پھول یہ پھول میرے پھول کو دینا / کہنا کہ یہ پھول تیرے پھول نے دیا ہے ”، سگریٹ جلایا تھا تیری یاد بھلانے کو / ظالم دھوئیں نے تیری تصویر بنا ڈالی“۔ ”وہ کاپی ہی کیا جس کا کور نہ ہو / وہ لڑکی ہی کیا جس کا لور نہ ہو“ ۔ ”ڈرائیور ڈرائیوری کر عشق لڑانا چھوڑ دے/ بریک بے وفا ہے ریس لگانا چھوڑ دے“

اس طرح کے شعر پڑھ کر میں نے فوراً بسوں وغیرہ سے مدد لینے کا اپنا ارادہ ذہن سے جھٹک دیا۔

وہ ہر روز مجھے روک کر پوچھتا استاد جی شعر سکھانے کی تعلیم کا آغاز کب کریں گے۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد مجھے فرازؔ کا ایک آسان سا شعر مل گیا، میں نے اسے یاد کرانا شروع کر دیا ۔ میں نے کہا کہ یہ شعر شادی کے بعد تم نے اپنی بیوی کو سنانا ہے ”زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے/ تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے“ اس ایک شعر کو یاد کرنے میں اسے کئی ہفتے لگ گئے، وہ بھرے چوک میں بڑی اونچی آواز میں کہتا ”زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے۔“ اور اس کے بعد اسے دوسرا مصرعہ بھول جاتا تھا، وہ ہر روز مجھ سے یہی کہتا کہ دوسرا مصرعہ کیا ہے ۔ اس کی یادداشت کی بیٹری واقعی خطرناک حد تک کمزور تھی۔

آگے کیا تھا باؤ جی؟ پورا ہفتہ اس نے اس شعر کا پہلا مصرعہ یاد کرنے میں لگا دیا لیکن اس سے دوسرا مصرعہ یاد نہ ہو سکا۔ ایک دن میں نے اسے کہا جس رفتار سے تم شعر یاد کر رہے ہو اپنی بیوی کو پورا شعر اس وقت ہی سنا سکو گے جب تمہارے بچے ہو جائیں گے۔ وہ پریشان و مغموم ہو کر کہنے لگا بات تو آپ کی ٹھیک ہے باؤ جی! تو پھر کیا کروں، مجھے یاد ہی نہیں ہوتا۔ کہنے لگا کوئی ایسا شعر نہیں ہے جو صرف ایک ہی ”لین“ والا ہو، میں نے کہا ایک لائن کا مصرع ہوتا ہے مکمل شعر نہیں ۔ وہ مزید پریشان ہو گیا۔

ایک دن میں نے اسے چھیڑنے کی کوشش کی ۔ میں نے کہا میں نے سنا ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم نہیں دلوانی چاہیے کیونکہ اگر ان کی تعلیم مرد سے زیادہ ہو تو وہ خود سر ہوجاتی ہیں اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری نہیں کرتیں۔ اگر تم خود پڑھ نہیں سکے تو تمہیں اپنی خالہ کو منع کر دینا چاہیے تھا کہ وہ تمہاری منگیتر کو سکول کے بعد مزید تعلیم سے روک دیتیں تاکہ تم دونوں کے درمیان اتنا بڑا فرق پیدا نہ ہوتا۔ اس نے ناراضگی والی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ باؤجی! علم تو روشنی ہے، زندگی کے گھپ اندھیرے میں گاڑی کی ہیڈ لائٹ کی طرح راستہ دکھاتا ہے ۔ میں جس سے محبت کرتا ہوں اسے روشنی سے کیسے محروم کر سکتا ہوں بلکہ میں نے تو جب سے ورکشاپ بنائی ہے، اپنی خالہ کی مالی مدد بھی کرتا رہتا ہوں تاکہ وہ اس کی تعلیم میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں۔

میں نے پوچھا کیا کبھی تم نے اس سے بات کی ہے؟ کیا وہ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتی ہے؟ کہنے لگا نا باؤ جی نا۔ توبہ کریں، شادی سے پہلے منگیتر سے باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ میں نے اسے مزید چھیڑتے ہوئے کہا پھر تو تمہیں اس کی تعلیم فوراً رکوا دینی چاہیے تم دونوں کی بچپن کی منگنی ہے۔ اگر اس نے بہت زیادہ تعلیم حاصل کر لی اور کہا کہ وہ تم چوتھی فیل سے شادی نہیں کرنا چاہتی بلکہ کسی پڑھے لکھے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے تو تم کیا کرو گے وہ بہت سنجیدہ ہو گیا ”کہنے لگا“ باؤ جی! محبت خود غرضی تو نہیں ہوتی ہے۔ محبت میں ایسی کوئی شرط تو نہیں ہوتی کہ جس سے محبت کی جائے وہ بھی آپ سے محبت کرے ۔ اگر وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہے گی تو اسے انکار کا پورا حق ہو گا۔ میں کوئی اس کی آزادی تو خرید نہیں رہا لیکن میں اس کی تعلیم کیوں رکوا دوں۔ اس کی روشنی کیوں چھین لوں۔

اس کی محبت کی پاکیزگی اور خلوص دیکھ کر میں نے اسے کہا اگر یہ بات ہے تو میں تمہیں ایک مصرعے والا ایک ایسا شعر سناتا ہوں جو دنیا میں سب سے زیادہ مشہور ہوا اور جو تمہیں یاد بھی ہو جائے گا اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا ۔ پوچھنے لگا وہ کون سا شعر ہے جو میری خراب بیٹری والی یادداشت میں بھی ٹک جائے گا

میں نے اسے پوچھا جانتے ہو ویلنٹائین کون تھا؟ کہنے لگا جی نہیں ۔ میں نے کہا اس میں اور تم میں ایک بات مشترک ہے ۔ پوچھنے لگا کون سی؟  میں نے کہا دوسروں کو بے غرض روشنی دینے والی ۔ کہنے لگا وہ کیسے؟ میں نے کہا آج سے سترہ سو سال پہلے ایک بہت بڑا مسیحی پادری ہوا ہے، جس نے بت پرستی چھوڑ کر خدا پرستی کا مذہب قبول کیا تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے دور میں رومن بادشاہ کلاودیوس نے اپنے فوجیوں کی شادی پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شادی شدہ لوگ جنگ کی صورت میں اچھے سپاہی ثابت نہیں ہوتے۔

ویلنٹائین نے بادشاہ سے چوری چھپے فوجیوں کی شادیاں کروانا شروع کر دیں۔ رومن کافر بادشاہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائین کو سزائے موت سنا دی۔ اسے جس جیل میں رکھا گیا اس جیلر کی ایک اندھی بیٹی تھی۔ ویلنٹائین کو اس اندھی لڑکی سے محبت ہو گئی اس نیک دل پادری نے اس جیلر کی بیٹی کا علاج کیا تو اس کی دعا سے اس کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی۔ پادری کو سزائے موت دے دی گئی، مرنے سے پہلے اس نے لڑکی کو ایک خط لکھا جس پر صرف دو لفظ لکھے تھے یہ دو لفظ اتنے مشہور ہوئے  کہ تقریباً ًسترہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک دنیا میں کسی شاعر کا شعر محبت کرنے والوں کی زبان پر اتنا نہیں آیا جتنے یہ دو لفظ۔۔

یہ دو لفظ حقیقی عشق کا استعارہ بن گئے، آج بھی جب کسی نے اپنے محبوب کو اپنی محبت کا مکمل یقین دلانا ہو تو اسے یہی دو لفظ کہتا ہے یا پھر کارڈ پر لکھ کر دیتا ہے ۔ جانتے ہو ویلنٹائین نے مرنے سے پہلے اس کارڈ پر کون سے دو لفظ لکھے تھے؟ اس نے نفی میں سر ہلایا۔

میں نے جواب دیا وہ دو لفظ تھے ”تمہارا ویلنٹائین‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments