سینیٹ انتخابات: مائینڈ سیٹ بدل رہا ہے؟


حالیہ برسوں میں مرکزی مقتدرہ اور اب موجودہ حکمران جماعت آئین میں صوبوں کو تفویض کیے گئے اختیارات پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر چکی ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ مقتدرہ 18 ویں ترمیم سمیت پارلیمانی جمہوری نظام کو لپیٹ کر مضبوط مرکزی حاکمیت قائم کرنے کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ مرتکز شدہ مرکزی حاکمیت ان کی بالادستی کو مستحکم تر کرنے میں مزید معاون ہوگی۔ پی ٹی آئی حکومت علی الاعلان 18 ویں ترمیم پر تنقید کر چکی، اس کا ”واہمہ“ یہ ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں اور خاص طور این ایف سی ایوارڈ کے طے شدہ فارمولے کے بعد وفاق کے پاس ترقیاتی منصوبہ بندی کے لئے وسائل نہیں بچتے۔

یہ ادھورا سچ ہے۔ وفاقی حکومت اگر وفاقیت کے اصول پر چلے تو چار کے علاوہ اس کے پاس کوئی محکمہ ہونا ہی نہیں چاہیے چہ جائیکہ لاتعداد سیمی گورنمنٹ، دوہرے محکمے، کارپوریشنز اور نیم سرکاری ادارے بھی اس کی چھپر چھایا تلے چلیں۔ غیر ضروری اخراجات کو ختم کر کے امن، استحکام اور ترقی کے دیرینہ خواب کو عملی تعبیر دی جا سکتی ہے۔

حکومت سمجھتی ہے کہ مرکزی خزانے میں جو وسائل جمع ہوتے ہیں، وہ مرکزی حکومت کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں جبکہ درحقیقت تمام وسائل صوبوں کی معاشی صنعتی و تجارتی سرگرمی سے جمع ہوتے ہیں، پھر قابل تقسیم آمدن کے پول میں جمع ہو کرایک فارمولے کے تحت صوبوں کو واپس لوٹائے جاتے ہیں۔ تقسیم کا فارمولا آبادی کے تناسب پر استوار ہے جو صوبوں کی پیدا کردہ دولت اور رقبے کو نظر انداز کر دیتا ہے، نیز پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اولیت نہیں دیتا، پھر بھی وفاقی اکائیوں نے 18 ویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم کے ایسے فارمولے پر اتفاق کر کے ملک کو وحدانی مرکزیت کے چنگل سے نکالنے اور وفاقیت کی سمت ایک پیشرفت کے طور پر اٹھارہویں ترمیم پر اکتفا و صاد کیا تھا۔

مرکزی مقتدرہ، اس کے حاشیہ نشین سیاسی و دانشور حلقے اور موجودہ حکومت جس طرح اٹھارہویں ترمیم کو ہدف تنقید بناتے ہیں، جناب وزیراعظم بھی چین کے سیاسی نظام کو قابل تقلید مثال بنا کر پیش کرتے ہیں تو اس سے وفاقی اکائیوں اور وفاقیت پر سیاسی یقین رکھنے والوں میں تحفظات کا ابھرنا فطری بات ہے۔ موجودہ ہائیبرڈ نظام قائم کیے جانے پر وفاقیت پسندوں کے خدشات بہت شدید طور پر بڑھے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی عددی اکثریت مقتدرہ حکومتی حلقے کے مذکورہ عزائم کا اب تک دفاع کرتی رہی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں 2018ء میں سینیٹ کے انتخابات کے لئے جو کچھ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں بلوچستان جیسے وفافیت پسندی کے سوال پر انتہائی حساسیت رکھنے والے صوبے سے جس پس منظر رکھنے والے افراد کو سینیٹرز بنوایا گیا، وہ صوبے کی سیاسی ثقافت سے قطعی ہم آہنگ نہیں۔

وفاقیت پسند جمہوری حلقوں میں اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ کے نصف ارکان کے موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے انتخاب کے سوال اور اس کے امکانی اثرات اور اندیشوں سے متعلق سراسمیگی پیدا ہو گئی ہے۔

پی ڈی ایم کی تحریک اور جلسوں میں پس پردہ سیاسی مداخلتوں کی نشاندہی کرنے والے بیانات نے بہرحال ایک اعصابی ہیجان بالائی سطح پر مرتب تو کیا تھا جس کی نشاندہی ذرائع ابلاغ کے مباحث میں ظاہر کیے گئے اس خیال سے بخوبی ہوتی ہے کہ سینیٹ انتخابات کے طے شدہ آئینی طریق کار کو بدلنے کے لیے مطلوب ترامیم کے لیے حکومت کی خواہش و اپیل کے باوجود طاقتور مقتدرہ نے اس بار ماضی کی طرح تعاون سے انکار کیا ہے۔

یہ اطلاع درست ہو سکتی ہے کیونکہ حکومت چاروں شانے چت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پہلے اس نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار کی آئین کی بجائے انتخابی قوانین کے ذریعے متعین کرانے کی اجازت دے مگر قانونی و سیاسی حلقوں کے مضبوط اختلافی موقف سے آئین کی شق 226 کے برخلاف کسی فیصلے کی امید کم ہوئی تو حکومت نے پارلیمان سے آئینی ترمیم کرنے کی ٹھانی، یہ جانتے ہوئے کہ پارلیمان میں اسے تین چوتھائی اکثریت حاصل نہیں۔ پھر بھی پارلیمان میں بل پیش کرتے ہوئے حزب اختلاف سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے اسے دباؤ میں لانے کے لیے کرپٹ چوروں کا ٹولہ کہہ کر تذلیل اور سیاسی درجہ حرات میں شدت پیدا کی گئی۔

یہ تو جناب مودی ملتانی تھے جنہوں نے ترنگ میں آ کر کاٹھ کی حکومتی ہنڈیا کو یہ کہہ کر بیچ چوراہے پھوڑ دیا کہ حکومت ترامیمی بل پارلیمان میں لائی تو ہے لیکن اس کا مقصد و مطمح نظر اسے منظور کرانا نہیں بلکہ صرف حزب اختلاف کو ایکسپوز کرنا تھا یعنی اس پر کیچیڑ اچھال کر اپنی ہر طرح کی نا اہلی کی پردہ پوشی کرانا تھا ”کیونکہ ہمارے پاس تو مطلوبہ عددی تعداد موجود ہی نہیں جو ترمیم کے لئے ضروری ہے“

حکومت حزب اختلاف کو این آر او نہ دینے کے طعنے دے دے کر اڑھائی سال ضائع کر چکی ہے تاہم اگر سینیٹ انتخاب کے طریق کار اور اس کے نتیجے میں لاحق داخلی خوف کو نظر انداز نہ کریں تو بھی دراصل حکومت اپوزیشن اتحاد پر گالی گلوچ کر کے اصلاً اس سے ایک مختلف طرز کا این آر او ہی مانگ رہی ہے۔

سینیٹ انتخابات میں پیسے کے استعمال اور ارکان کے بکنے کی باتیں حکومت کر رہی ہے اور شفافیت جیسے عمدہ الفاظ کی جگالی کرتی ہے کیونکہ اس نے صدارتی آرڈیننس میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو شو آف ہینڈ سے مستثنیٰ ہی رکھا ہے۔

اب جبکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر کے نافذ کیا گیا ہے، یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ

الف: حکومتی اراکین ہی وہ گھوڑے ہیں جن کے بارے میں ہارس ٹریڈنگ کی بات کی جا رہی ہے

ب: طاقتور حلقے نے شاید فی الواقع ماضی کے برعکس پارلیمان کے ذریعے ترامیم کے مرحلے میں تعاون سے معذرت کر لی ہے

متذکرہ سطور میں بیان کردہ قیاس آرائی کو درست تسلیم کر لیں تو بحث کا بنیادی رخ و موضوع بدل جاتا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مرکزی مقتدرہ نے وفاقیت اور اٹھارہویں ترمیم کے متعلق اپنا روایتی منفی ذہنی رجحان بدل لیا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو سطور بالا میں بیان کردہ ”تمام بدلتے رجحانات کو رد کرنا ہو گا، بصورت دیگر بدلتی صورتحال کا خیر مقدم کرنا لازم ہے۔

یہاں ایک پہلو مزید غور طلب ہے جسے مکرر عرض کرنا چاہتا ہوں

کہیں ایسا تو نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد اس میں مداخلت اور غیر شفافیت کے عنوان سے وارد ہونے والے سیاسی قانونی اعتراضات کی نوعیت (کیفیت) و مقدار (کمیت) میں روز بروز بڑھتے اضافے کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالائی قوت نے یہ طے کیا ہو کہ ان کے تعاون کے بغیر بھی اگر پی ٹی آئی سینیٹ کی ایک بڑی جماعت بن رہی ہے تو اس عمل میں دخل دے کر مزید بدنامی کیوں مول لیں؟ کہ ان کی اتحادی یا منظور نظر جماعت پی ٹی آئی مستقبل قریب میں سینیٹ کے اندر وہی کردار ادا کرے گی جو اب تک اپوزیشن نے کیا ہے۔ فرق یہ ہو گا کہ آج کی پی ٹی آئی اگر ان کی من پسند آئینی ترامیم یا سیاسی ڈھانچہ منظور نہیں کرا سکی تو آنے والے دنوں میں بھی یہ جماعت،اگر عام انتخابات قبل از وقت ہو جائیں تو نئی حکومت یا قومی اسمبلی کے مقابل ان آئینی و قانونی ترامیم کی مدافعت کرے گی جو پارلیمان کی بالادستی اور وفاقیت کو مستحکم تر کرنے کے لئے کی جا سکتی ہیں۔

اسی تسلسل میں یہ بھی ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس کے بڑھتے عوامی دباؤ کے نتیجے میں قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کی ”خاموش تائید“ کر کے عوامی اعتراضات و تنقید کا سلسلہ روک دیا جائے پھر بے خطر ہو کر شفاف انتخابات کرائیں جن میں مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اپوزیشن انتخاب جیت گئی تو ان پر لگے سارے الزامات بھی دھل جائیں گے لیکن اسے ملنے والا اقتدار پھر بھی منقسم و مجہول ہی ہو گا کہ پارلیمان کا ایوان زریں ان کے مفادات کا نگہبان ہو گا اور حکومت کا ناطقہ بند رکھنے کا بہترین آئینی و سیاسی بندوبست بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments