کورونا وبا اور ویکسین حاصل کرنے کی جدوجہد


کورونا وبا کو ایک سال ہونے کو آیا ہے، ایک ایسا سال جس کا ہر دن سال کی طرح طویل محسوس ہوتا تھا، 23 لاکھ سے زائد افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، تقریباً سارے ممالک کسی حد تک لاک ڈاؤن کا حصہ رہے جبکہ اکثر یورپی ممالک اور شمالی امریکہ تو ابھی بھی ان پابندیوں سے گزر رہے ہیں۔ زندگی کے معمولات کافی حد تک بدل چکے ہیں اور مختلف اقوام ان حالات کا اپنے اپنے انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ جہاں صحت کی جدید سہولتوں نے اس وبا سے نمٹنے میں انسانوں کی مدد کی، وہیں ایک سال سے کم عرصے میں اس کے خلاف ایک نہیں دسیوں ویکسینز کی تیاری شروع ہوئی اور جانچ پڑتال کے سخت مراحل کے بعد پانچ تو انسانی استعمال میں آ بھی چکی ہیں۔

جہاں یہ سب امید افزا ہے، وہیں اس وبا کے خلاف انسانیت ایک ایسے مرحلے میں داخل شروع ہو چکی ہے جہاں ویکسین کا حصول بین الاقوامی سطح پر آپا دھاپی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ انسانوں میں امارت اور غربت کا فرق اب انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی سطح پر نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ آج کا یہ بلاگ اس فرق کو بیان کرنے اور اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ہے۔

سب سے پہلے تو اس وبا کے بارے میں چند بنیادی حقائق

ابھی تک کے مشاہدے کے مطابق اس وبا کے خلاف کوئی انسانی قدرتی مدافعت موجود نہیں ہے۔ اس وبا نے بلا تفریق ہر انسانی آبادی کو متاثر کیا ہے، اس کے اتنی تیزی سے پھیلاؤ میں بنیادی عنصر سفر کی آسان سہولیات کا ہونا ہے اور یہ کہ انسانی آبادی کے چند طبقات میں اس کے اثرات انتہائی شدید ہیں۔ اس کے پھیلاؤ اور شدت کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات صرف اسی صورت کامیاب ہوں گے ، اگر انسانی آبادی کا بڑا حصہ ان پر عمل کرے۔

وباؤں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہرڈ امیونٹی (Herd immunity) کے اصول کی مطابق کسی بیماری سے پچنے کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اس کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہو۔ یہ حصہ کتنا بڑا ہو، اس کا انحصار اس بیماری کے جراثیم کی پھیلنے کی صلاحیت پر ہے، اگر یہ تیزی سے پھیل سکتا ہے تو زیادہ بڑی آبادی میں حفاظتی ویکسین کا استعمال ضروری ہو گا مثلاً خسرہ (measles) سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کے 95 فیصد حصے میں حفاظتی ٹیکے کا استعمال ہو چکا ہو۔

اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اب جبکہ محفوظ ویکسینز بن چکی ہیں ، اس کے ساتھ ہی ان کو پہلے حاصل کرنے کی جدوجہد شروع ہو چکی ہے۔ ہم نے جنوری میں اپنے بلاگ میں اس پر روشی ڈالی تھی کہ کس طرح امیر ممالک نے ان ویکسینز کی تیاری کے ابتدائی مراحل ہی میں ان دوا ساز اداروں کو رقم فراہم کر کے ان ویکسینز کی پہلے سپلائی کو یقینی بنا لیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک نے جوا کھیلا تھا جو کامیاب ہو گیا اور اب ان ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم زور و شور سے شروع ہو چکی ہے۔

ابھی تک کی اطلاع کے مطابق مختلف ویکسینز کی تقریباً 12.7 ارب خوراکوں کے سودے ہو چکے ہیں جو کہ دنیا کی کل 6.6 ارب آبادی کے لیے کافی ہونے چاہئیں، لیکن یہ تو کتابی باتیں ہیں، موجودہ سودوں میں 4۔ 6 ارب خوراکیں صرف امیر ممالک کے لیے ہیں جہاں کل آبادی صرف سوا ارب ہے۔ ان ممالک میں کینیڈا، امریکہ، برطانیہ، یورپین یونین، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں 90 فیصد آبادی کے لیے اس وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسینز کا استعمال مستقبل قریب میں تو ایک سہانے خواب سی زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

ان ممالک کی اکثریت نے اپنے طور پر ان ویکسینز کی خریداری کا کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا اور یہ کوویکس (Covax) پروگرام پر انحصار کے ہوئے تھے۔ Covax پروگرام عالمی ادارہ صحت، یونیسیف، ورلڈ بینک، بل &ملینڈا گیٹ فاونڈیشن سمیت کئی انٹرنیشل اداروں کے باہمی تعاون سے بنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ان ویکسینز کی دو ارب خوراکیں 2021 میں ان 145 ممالک کی تقریباً 20 فیصد آبادی تک پہنچانی ہیں، جو کہ ان ممالک کی اصل ضرورت کا صرف دس فیصد بنتا ہے۔لیکن اس پروگرام کے تحت ابھی تک ایک خوراک بھی مہیا نہیں کی گئی اور اس سلسلے میں ان ممالک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ”دنیا ایک تباہ کن اخلاقی ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس کی قیمت دنیا کے غریب ترین ممالک میں انسانی جانوں کی صورت ادا کی جائے گی“ انہوں نے ممالک کو ویکسینز بارے علیحدہ علیحدہ سودے بازی کے نقصانات سے آگاہ کیا جن کا براہ راست اثر Covax پروگرام پر پڑے گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ Covax جیسا پروگرام انسانی تاریخ میں کبھی پہلے اتنے کم وقت میں نہیں شروع کیا گیا، جبکہ مالی طور پر اس کا انحصار امیر ممالک اور دوسرے اداروں سے فراہم کردہ چندوں پر ہے۔

اس طرح ویکسین بارے موجودہ صورت حال کئی دہایوں سے موجود ورلڈ آرڈر کی اندرونی اور ظاہری منافقت کا اظہار لگتی ہے، جس میں انسانی جان کی قیمت اور اہمیت کا تعین اس بات پر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوا، بجائے اس کے کہ زندگی بذات خود قابل احترام ہو۔ ترقی پذیر ممالک میں شہریوں کو ویکسینز کی فراہمی میں تاخیر دنیا کو بہت مہنگی پڑے گی۔ یہ وبا اسی طرح چلتی رہے گی اور معاشی سرگرمیوں کی معطل رکھے گی، کیونکہ اس وائرس کے نئے نئے نمونے سامنے آتے رہیں گے جو انسانی ترقی کی رکاوٹ میں کا باعث بنیں گے۔

اس افراتفری کے دور میں جہاں ایک طرف امیر اور متوسط آمدنی والے ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع ہو چکی ہے، وہیں غریب غرباء جو ماضی میں ویکسینز کے حصول کے طریقہ کار کے مطابق انتظار بیٹھے رہتے تھے ، اب اپنے طور پر ویکسینز کے حصول کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں کیونکہ اب میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں خبروں کی فراہمی تیز تر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے حکومتیں کافی دباؤ کا شکار ہیں۔

حالیہ دونوں میں پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع ہو گئی جو کہ بنیادی طور پر عطیہ کی ہوئی ویکسین پر مبنی ہے ، اسی طرح بنگلہ دیش کا پروگرام شروع ہوا جب اس نے اپنے آرڈر کردہ تیس ملین ٹیکوں کے سلسلے میں ملنے والی پانچ ملین ٹیکوں کی پہلی کھیپ وصول کی، علاوہ ازیں اس کو دو ملین ٹیکوں کا عطیہ ملا۔ اسی طرح سربیا جس نے Covax کے لاحاصل انتظار کے بعد اپنے انتظامات کے ذریعے فائزر، چین اور روس سے ویکسینز کی خریداری کے بعد یہ مہم شروع کر دی۔

اسی طرح اور ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں لیکن انفرادی ممالک کی ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں Covax کا پروگرام اور دباؤ کا شکار ہو جائے گا کیونکہ ویکسینز کی تیاری، سپلائی اور انسانوں میں اس کے استعمال کے اس پورے عمل میں تیاری کا مرحلہ سب سے کمزور ہے  اس لیے کہ اس کی تیاری کی صلاحیت محدود ہے کیونکہ چند دوا ساز کمپنیوں کا اس پورے عمل پر اجارہ ہے۔

یہاں ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ سرمایہ داری نظام کی منافع کی بھوک ہے جو اس سنہری موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ عالمی ادارۂ صحت اور دوسرے اداروں اور ترقی پذیر ممالک نے ادویات ساز اداروں پر زور دیا کہ وہ ان ویکسینز کی بڑے پیمانے پر تیاری کو یقینی بنانے کے لیے اپنے دانشوارنہ املاک کے حقوق (intellectual property rights) سے دستبردار ہو جائیں۔ جس سے ان کمپنیوں نے صاف انکار کر دیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ نام ان دوا ساز کمپنیوں کا ہے لیکن ان ویکسینز کے ریسرچ بلیو پرنٹ، ٹرائلز اور مینوفکچرنگ کے تمام مراحل میں مالی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ حکومتوں نے مہیا کیا ہے جو کہ عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔

ایک انار اور سو بیمار کے اس کھیل میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے جس کی بنیاد انسانی زندگی کی برابری ہو نہ کہ اس بات پر کہ وہ کہاں پیدا ہوا۔ اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو اکانومسٹ انٹلیجنس یونٹ (The Economist Intelligence unit) کے مطابق ”ترقی پذیر ممالک میں اکثریتی آبادی تک ان ویکسینز کا استعمال 2023 سے پہلے ممکن نظر نہیں آتا اور خطرہ یہ ہے کہ کہ ان میں چند ممالک بشمول انتہائی غریب، کہیں ویکسینز کے استعمال بارے مایوس ہو کر اس کا خیال ہی نہ چھوڑ دیں“ ۔

ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اگرچہ کئی بیماریوں ( مثلاً ٹی بی اور پولیو) کی ویکسینز تو موجود ہیں لیکن بہت سے غریب ممالک میں بہت سے لوگ اب بھی ان بیماریوں میں مبتلا ہیں کیونکہ متعلقہ ویکسینز تک ان لوگوں کی پہنچ نہیں ہے یا عوامی سطح پر رائے ان کے حق میں نہیں ہے۔

وطن عزیز میں تو ٹی بی اور پولیو دونوں ہی ابھی بھی موجود ہیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ یہ نئی ”کورونا وبا“ ، جس کا تعارف صرف ایک سال پہلے ہوا، کافی عرصہ ہمارے ساتھ دوسری بیماریوں کی طرح رہے گی، جنہوں نے صدیوں سے انسانی تاریخ کی موجودہ شکل متعین کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments