کیا بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے؟



بلاشبہ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے ، اسی لیے ہمارا قومی احتساب بیورو بدعنوان عناصر کی سرکوبی کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھا ہے۔ بدعنوانی کا سرطان ہمارے قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ ہم بحری جہاز کے وہ مسافر ہیں جو اپنے جہاز کے پیندے میں سوراخ کر کے پکنک منانے چلے گئے ہیں۔

ہمیں اس بدعنوان نظام میں بدعنوانی کے مرتکب افراد کو عبرت کا نشان بنانا ہے۔ ہمیں ڈھلوان کی جانب آنے والے گدلے پانی کو وائپر سے صاف کرنا ہے لیکن وہ منبع اور سرچشمہ جہاں سے پانی میں آلودگی داخل ہوتی ہے ، وہاں پر بند باندھنے سے ہمارے پر جلتے ہیں۔ ہمیں تو وہ پھانسی گھاٹ چاہیے جہاں پر ہم ان بدعنوان عناصر کو عوام الناس کی نگاہوں کے سامنے نشان عبرت بنا سکیں جو حکومت وقت کی آغوش میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

جب بدعنوانی افراد کے اندر تلاش کی جائے گی اور بدعنوان نظام کے نقشہ نویسوں کو مقدس گائے قرار دے کر پردے کے پیچھے چھپا دیا جائے گا توپھر یونہی علامات کا علاج ہوتا رہے گا اور انفیکشن اپنی جگہ موجود رہے گا۔ ہمیں تو ایسی ویکسین چاہیے جو ریاست کے تمام اداروں کو آئین کے اندر موجود ان کے اختیارات اور حدود و قیود تک محدود رکھ سکے۔ ہمیں تو اداروں کے اپنے ترجمانوں کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ ادارے غیر سیاسی ہیں۔ غیر جانبداری کی شہادت تو اداروں کے مخلص اور کھرے دوستوں کو دینی چاہیے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ دشمنوں سے تو بے لاگ شہادت کی توقع نہیں ہے۔

وطن عزیز کی معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ منہ زبانی کا روباری لین دین کو تحریری و دستاویزی لین دین سے افضل تصور کیا جاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار ہے اس لیے خاص و عام پاکستانی بلا واسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی سے انکاری ہیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان عجب اعتبار و بے اعتباری کا رشتہ قائم ہے جس میں بے اعتباری کا وزن اعتبار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

بے شک بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے لیکن بد عنوانی کا خاتمہ اس وقت ہو گا جب ریاست کے تمام فیصلہ ساز اس بد عنوانی کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھیں گے۔ جب انصاف عمر کی نقدی ختم ہونے کے بعد ملے گا اور قبر پر کتبے کی طرح آویزاں ہو گا تو پھر ایسے سماج میں کمزور فریق انصاف کا طلب گار نہیں رہے گا بلکہ اپنی جان و عزت کے تحفظ کے لیے طاقتور فریق سے امن کا معاہدہ کر لے گا۔

بدعنوانی واعظوں کی تقاریر اور سیاسی انتقام سے ختم نہیں ہو گی۔ ریاست کو ماں بن کر اپنے شہریوں کی کفالت کرنا ہو گی اور شہریوں کو بھی ریاست کو ماں کا درجہ دینا ہو گا۔ یہ دو طرفہ باہمی اعتماد کا رشتہ اسی صورت قائم ہو گا جب دونوں جانب سے فرائض کی ادائیگی کو حقوق کے مطالبے پر فوقیت دی جائے گی۔ ریاست اور شہریوں کا رشتہ اس وقت منقطع ہو جاتا ہے جب ریاست شہریوں میں سے کچھ کو تو اپنا لاڈلا بنا لیتی ہے اور باقی ساروں کو گھاس کھانے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں عام شہری ہو یا خاص شہری وہ ریاست سے اپنے حقوق تو مانگتا ہے لیکن اپنے فرائض کے متعلق جب اسے یاد دہانی کروائی جاتی ہے تو اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔

جو انسانی رشتے استحصال کے خمیر سے اٹھتے ہیں وہ جلد یا بدیر بدبو چھوڑ دیتے ہیں۔ شاید اسی لیے خاص پاکستانی تو اپنے ناک پر رومال رکھ کر وطن عزیز میں سفر کرتے ہیں جبکہ عام پاکستانی کو بدبو میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments