ہم بھی حق رکھتی ہیں


یہ تمھاری بہو نظر نہیں آ رہی فہمیدہ خالہ کو جب رضیہ خالہ کے گھر آئے ایک گھنٹہ سے اوپر ہو گیا اور نادیہ نظر نہیں آئی تو انھوں نے سوال کرنا ضروری سمجھانادیہ نے تو نوکری شروع کردی ہے اب شام کو ہی گھر واپس آتی ہے۔ مطلب کیا نوکری شروع کردی؟ ایک تو یہ آج کل کی لڑکیوں کوکوئی خیال ہی نہیں ساسوں کا اب گھر کا سارا نظام تم ہی سنبھالتی ہوگی۔ ارے میں کیوں سنبھالونگی نادیہ ہی سنبھالتی ہے۔ میں نے تو کہانہیں ہے نوکری کرنے کا اپنا شوق ہے گھرمیں بیٹھانہیں جاتا ہاں بھئی سچ ہے تم کیوں سنبھالو جس کی ذمہ داری ہے وہی سنبھالے اب میں کل بیان سن رہی تھی مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ آج کل کی ماؤں کے پاس گھر داری اور بچوں کے لیے وقت ہی نہیں بس نوکریاں کرنی ہے نوکریاں۔

کتنی عجیب بات ہے نہ کہ اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کے معاشی طور پر مستحکم ہونے کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا

پھر اپنی معاشرتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے چار باتیں بھی خود جوڑ لی جاتی ہے جن میں اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی عورت نوکری کر رہی ہیں تو اسے آزاد رہنا پسند ہیں اسے بچوں اور گھرداری سے کوئی دلچسپی نہیں حتی کے حقیقت میں وہ عورت جو نوکری کرتی ہے وہ ایک گھر میں رہنے والی عورت سے زیادہ کام کرتی ہیں اسے نوکری کے بکھیرے بھی سنبھالنے ہوتے ہیں اور گھر کے بھی کیونکہ سسرال میں یہیں کہا جاتا ہے نوکری کرنا اپنا شوق ہے ہم نے یا پھر شوہر نے تو کہا نہیں ہیں کرنے کواور بچی کچی کسر اس پڑوس کے لوگ ان سوالات سے پوری کردیتے ہیں

1 شوہر کی تنخواہ کم ہے؟
2فرمائشیں کرتی ہو؟
3بچے کون سنبھالے گا؟
4بچوں کی تربیت کے بارے میں سوچا ہے؟
5 گھرداری میں دلچسپی نہیں ہے؟

جن کا جواب دینا وہ ضروری بھی نہیں سمجھتی مگر جس ضبط کا مظاہرہ وہ کرتی ہیں اس کا اندازہ صرف جب ہی کیا جاسکتا ہے جب کوئی ان کے دل میں اترے ان سے ہمدردی کے دو بول بولے تو وہ بتائینگی کہ آخر کو کیوں انھوں نے نوکری کا فیصلہ کیا ہے ان کے پاس سوالات کے جوابات بھی ہوں گے اور وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہوں گی جس میں ان کا اپنا ذکر معدوم ہوگا۔

شوہر کی تنخواہ کم ہوتے ہوئے وہ کسی سے یہ بات نہیں کہہ سکتی کہ شوہر کی تنخواہ کم ہے کیونکہ وہ حساس دل کی مالک ہوتی ہیں انھیں نظر آتا ہے کہ ان کا شوہر ان کے لیے اور بچوں کے لیے دن رات ایک کرتا ہے مگر اس مہنگائی کے دور میں کوئی لاکھوں بھی کمائے تو وہ بھی کم محسوس ہوتے ہیں اور چونکہ ان کی نظر میں شادی کا مطلب ساتھ ہوتا ہے ایک دوسرے کا ہر انداز اور ہر طریقہ سے ساتھ پھرچاہے وہ خوشی و غم بانٹنا ہو یا پھر معاشی طور پر ساتھ دینا کیونکہ گھر اور بچے کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ہوتے اس لیے وہ شوہر کا ساتھ دینے کے لیے نوکری کر رہی ہیں۔

وہ اپنی فرمائشیں تو بابا کے گھر ہی چھوڑ کر آ گئی تھی مگر جب بچے دوسرے بچوں کو نئی سائیکل خریدتے اور انھیں چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی بھی چاہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس بھی ایسی سائیکل ہو ایسے میں وہ اپنی تنخواہ میں سے ان کی فرمائش پوری کرتی ہے اور سائیکل خریدتی ہیں۔

ان کے دل میں اس بات کی ضرور تمنا ہوتی ہے کہ وہ ان سوال کرنے والوں سے یہ ضرور پوچھے کہ وہ کن بچوں کے سنبھل جانے اور تربیت کی بات کر رہے ہیں ان بچوں کی جنھیں اس نے نو ماہ اپنی کوکھ میں پالا ہے اسے ان کی فکر نہیں ہوتی کہ انھوں نے اپنی مددآپ کے تحت کھانا کھالیا ہوگا؟ کہیں انھیں ماں سے کوئی ضروری بات تو نہیں کرنی تھی جو وہ اس گھر میں نہ ہونے کے باعث اس سے نہیں کرسکے۔ اسے ان سب باتوں کی فکران سے زیادہ ہوتی ہے مگر جب وہ ان

بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے اسکولوں کے چکر لگاتی ہے تو معلوم ہوتاہے اگرآپ معاشی طور پر مضبوط نہیں تو گورنمنٹ اسکول میں بچوں کو پڑھائے جن کی حالت کے بارے میں آپ میں سب ہی واقف ہیں ایسے میں وہ اپنی تنخواہ آگے کرتی ہے کہ اس کے بچوں کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئے اور وہ کسی پرائیوئیٹ اسکول میں پڑھے۔

آپ لوگ میرے بچوں کی ذہانت کی تعریف کرتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ ان کی فیسوں کی ادائیگی میری تنخواہ سے ہوتی ہے کیونکہ گھر کے اخراجات کے ساتھ پرائیوئیٹ اسکول ناممکن ہے میں ماں ہوں اس لیے اپنے بچو ں کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہوں اور نہیں چھوڑی میں نے گھر داری میرے شوہر اور بچے میرے ہی ہاتھ کا بنا کھانا کھاتے ہیں اور گھر کی ذمہ داریاں بھی میں ہی سنبھالتی ہوں تعریف کے دو بول نہیں بول سکتے تو سوالات کی بوچھاڑ تو مت کیا کریں انسان ہوں دل ٹوٹ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments