مطالعۂ تاریخ از مولانا کوثر نیازی


کتاب دوست برادرم کاشف منظور نے محبت کے ساتھ کوثر نیازی کی لگ بھگ 80 صفحات پر مبنی ایک چھوٹی مگر بڑی حقیقت کی ترجمان کتاب ”مطالعہ تاریخ“ بھیجی ہے جسے 1991ء میں جنگ پبلشرز لاہور نے شائع کیا تھا۔ کتاب وصول پا کر میں خود ماضی میں کھو گیا کہ یہ کتاب میں نے آج سے کوئی تینتیس، چونتیس سال پہلے اپنے گریجویشن کے زمانے میں پڑھی تھی۔ یہ کتاب جو اصل میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ”مجلس تاریخ“ ہسٹاریکل سوسائٹی کی سالانہ تقریب میں خطاب پر مبنی ہے۔

جسے 1975ء میں شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور نے شائع کیا تھا۔ کتاب کو علم دوستوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ اس کے بعد کے ایڈیشنز میں مولانا کے چند اور خطاب بھی شامل کر دیے گئے جیسا کہ پاکستان نیشنل سنٹر سیالکوٹ میں قوموں کے عروج و زوال میں تاریخ کا عمل کے موضوع پر خطاب اور پھر دانشوروں کے ایک اجتماع سے خطاب بھی شامل کتاب کر دیا گیا جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہو گئی۔ ہمارے زمانۂ طالبعلمی سے پہلے ہی ملک میں مولانا کوثر نیازی کی علمیت، خطابت اور سیاست کا خوب ڈنکا بجتا تھا۔

میں گریجویشن کے پیپرز دے کر راولپنڈی چلا گیا جہاں ان دنوں سلمان رشدی کی کتاب ”شیطانی آیات“ کے خلاف احتجاجی تحریک زوروں پر تھی۔ اسی سلسلے میں کوثر نیازی جامع مسجد راولپنڈی بنی روڈ پر آتے تھے جہاں ان سے میری ملاقاتیں بھی رہیں، وہاں انہوں نے جمعہ کا خطبہ دینے بھی دیا۔ میں ان کی خیال افروز علمی و تحقیقی کتاب مطالعہ تاریخ پڑھ کر ان کا مداح تھا۔ ان سے مل کر ان کی خوش گفتاری سے بھی متاثر ہوا پھر میں نے ان کی بہت سی دوسری کتب بھی خریدی اور پڑھی تھیں۔ 1994ء میں ان کی وفات کے بعد دھیرے دھیرے ان کا تذکرہ کم ہوتا گیا۔ برادرم کاشف منظور نے کتاب بھیج کر بہت سی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ جس پر ان کا شکرگزار ہوں۔

” مطالعہ تاریخ“ کے مصنف کا اصلی نام محمد حیات خان تھا جنہیں عام طور پر مولانا کوثر نیازی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ 1934ء میں موسیٰ خیل گاؤں، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فتح خان نیازی لیق خیل اور چچا مظفر خان نیازی لیق خیل اس علاقے کے معروف افراد میں سے تھے۔ وہ ایک مذہبی اسکالر اور مقرر تھے اور انہوں نے سیاست میں اپنا نام اور مقام بنایا تھا۔ کوثر نیازی نے ہفت روزہ ”شہاب“ کا اجراء بھی کیا، اس کا دفتر داتا دربار مارکیٹ لاہور میں تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک پاکستانی سیاست دان اور مذہبی رہنما تھے۔ کوثر نیازی بھٹو کی وزارت عظمی کے دور میں ان کی کابینہ میں، 1974ء سے 1977ء کے دوران پاکستان میں بہت زیادہ طاقتور وفاقی وزیر تھے۔ کوثر نیازی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے اور انہیں بھٹو کا مکمل اعتماد حاصل تھا، وہ ساری عمر بھٹو کے وفادار رہے۔ ایک وزیر کی حیثیت سے انھوں نے خدمات انجام دیں اور 6 سال تک بھٹو کے ساتھ بطور وفاقی وزیر کام کیا۔

انہوں نے 1976ء تک مذہبی اور اقلیتی امور کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس کے بعد انہیں وفاقی وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تھا۔ مولانا کوثر نیازی کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو معزول اور بالآخر تباہ کر دیا تھے۔ اس کے بعد کے سالوں میں، مولانا کوثر نیازی کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پر خدمت کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

مولانا کوثر نیازی کی تصانیف میں” اقبال اور تیسری دنیا“ ، اسلام کے معاشی تصورات ”، انیس ; شاعر انسانیت“ ، ”زر گل“ ، ”کوہ قاف کے دیس میں“ ، ”ایک ہفتہ چین میں“ ، ”ذکر رسول“ ، ”تخلیق آدم“ ، بنیادی حقیقتیں ”،“ بصیرت ”،“ ذکر حسین ”،“ میلادالنبی اور اس کے تقاضے ”،“ آئینہ تثلیث ”“ نقش رہگزر ”،“ لمحے ”، اور لائن کٹ گئی“ ، ”دیدہ ور“ ، ”جنہیں میں نے دیکھا“ اور ”مطالعہ تاریخ“ شامل ہیں۔

مولانا کوثر نیازی کی کتاب ”مطالعہ تاریخ“ میں تاریخ کے متعدد اہم مباحث کو اٹھایا گیا ہے۔ بہت ہی مختصر ہونے کے باوجود اس میں تصورات تاریخ کے موضوع کے حوالے سے کئی اہم سوالوں کے جواب موجود ہیں۔

ابتدائی صفحات میں بحث اس حوالے سے ہے کہ ماضی میں تاریخ کے کوئی معتبر ذرائع تھے کہ نہیں؟ انگریز مؤرخ ایچ جی ویلز کی رائے ہے کہ دو چار سو سال پہلے تک انسانی تاریخ محض قصے کہانیوں اور قیاس آرائیوں تک محدود تھی۔ کئی اور انگریز مؤرخین کا بھی ایسا ہی دعویٰ ہے۔ مغرب میں مختلف حوالوں سے پائی جانے والی تعلی میں ایک بات یہ بھی ہے کہ مغربی تاریخ نویس پوری انسانی تاریخ پر اپنے موجودہ عہد کو فوقیت دیتے ہیں۔ فن تاریخ نگاری میں بھی وہ ایسے خیالات کے ہی حامل ہیں۔

حالانکہ تاریخ نویسی اور تحقیقات میں اساطیری اور دیومالائی اثرات ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی اس پر طویل بحث کرتے ہیں اور بہت سے دلائل و شواہد سے ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں تاریخ کا فن بہت پرانا ہے۔ مسلم تاریخ نویسی نے صرف نقل پر انحصار نہیں کیا ہے بلکہ خارجی اور عقلی شواہد کو بھی متن کی سند میں استعمال کیا ہے۔ ان کے ہاں نقد و نظر کا بہت گہرا درک تھا اور جانچ پرکھ کا بہترین انتظام تھا۔

مسلمانوں کے علاوہ یونانیوں، چینیوں، ایرانیوں اور ہندوستانیوں، آریاؤں کے حوالے سے مختلف تاریخوں کے حوالے دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں ہزاروں سال سے نہ صرف تاریخ لکھنے کا عمل شروع ہو چکا تھا بلکہ اس کی تحقیق اور تنقید کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا۔ تاریخ کی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہندوستانی ادب چھ ہزار سال پہلے تخلیق کیا گیا، اس قدیم ادب میں کن چیزوں کو موضوع بنایا گیا ہے ، مولانا اس کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ خارجی شواہد آج بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، مطالعہ صحیح خطوط پر ہو، تحقیقات اصول و انصاف کے ساتھ کی جائیں تو تاریخ کے پوشیدہ گوشے بھی واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔

مولانا عروج و زوال کے قرآنی فلسفے کو بھی خوب بیان کرتے ہیں۔ قرآن میں زوال کی نشانیوں کے طور پر امراء قوم کا فسق و فجورمیں مبتلا ہوجانا اور عیاشی میں لگ جانا ہے، وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں، اور جو اقوام انسانیت کے لئے فائدہ مند نہیں رہتی، زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے الٰہی قاعدے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”آیت“ کے چار معنی ہیں۔ ایک تو آیات جن سے سورتیں مرکب ہیں، دوسرا ان معجزات کے لئے، تیسرا وہ علامت یا نشانی جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے، چوتھے ان دلائل کے لئے جو زمین و آسمان اور آفاق و انفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔

جس قوم نے ان میں سے کسی ایک آیت کو اپنایا ہے اس نے ایک شعبے کی حد تک جزوی طور سے کامیابی حاصل کی ہے۔ مغربی اقوام نے ایک طرح کی آیات میں غور کیا، ان میں تدبر کیا، علم و فنون میں مہارت حاصل کی، کائنات کے اسرار و رموز کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی زندگی میں مادی لحاظ سے آسانیاں پیدا ہو گئیں لیکن مغربی اقوام نے آیات تاریخ کو نظر انداز کیا، تاریخ کے اسباق کو پس پشت ڈالا نتیجہ آہستہ آہستہ ان کے اندر انحطاط پیدا ہونے لگا جیسا کہ اس عظیم برطانیہ کی حماقت ہمارے سامنے ہے جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

ہاں اشتراکی ملکوں نے آیات تاریخ پر پر ایک حد تک غور کیا، تاریخ کے فلسفے اور تاریخ کے سبق کو ایک حد تک سمجھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی اقوام فکری میدان میں ان سے شکست کھانے لگیں اور اشتراکی ملکوں کو کم ازکم اس میدان میں غلبہ حاصل ہونے لگا۔ مولانا اشتراکیت سے متأثر کمیونزم کے حامیوں میں سے تھے، پیپلز پارٹی جس کے ساتھ یہ منسلک رہے وہ بھی ملک میں اسی فکر کو نافذ کرنے کی خواہاں تھی۔ نوے کی دہائی میں اشتراکیت پر گزرنے والے حالات اور سرمایہ دارانہ نظام کی داعی ریاستوں کا آیات تاریخ میں غور و فکر کتنا درست ہے؟ یا اس انداز میں سوچنا کس حد تک درست تھا؟ یہ ایک تلخ سوال ہے جو آج بھی ہمارے عمومی انداز فکر سے جواب کا متقاضی ہے۔

قوموں کے عروج و زوال میں تاریخ کے عمل کا فہم سورۂ والعصر عصر کی تشریح کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ کامیابی اور عروج کے لائحہ عمل کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، سب سے پہلے ایمان یعنی مشن پر پورا یقین، عمل صالح یعنی کام کو اچھی طرح کرنے کا طریقہ معلوم ہو، اسی طرح ادا کرنا جس طرح مطلوب ہے، اس عمل کی اشاعت و تبلیغ، جو مشکلات آئیں ان پر صبر کرنا۔

لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ میں ایسی ہی قوموں کو عروج حاصل ہوا جو صبر، ضبط، اور عزم و عمل سے متصف تھیں اور جن کے اعمال، جن کے کام، اور جن کی کارکردگی انسانی معاشرے پر پڑنے والے مستقل نوعیت کے اثرات چھوڑنے کے قابل ہیں یہی بات قرآن کہتا ہے۔

انسانی عروج و زوال کی اصل قرآن کا یہ پیغام ہی ہے کہ وہ عمل جو انسانوں کے لیے مفید ہوتا ہے، وہ فلسفہ جو انسانیت کو فروغ بخشتا ہے، وہی زمین پر باقی رہتا ہے۔ یہی انسانی عروج و زوال کی اصل ہے۔ وہ قومیں جنہوں نے انسانیت کے لیے نفع بخش کام کیے وہ دنیا میں اوپر اٹھتی ہیں اور ان کا وجود باقی رہتا ہے۔ وہ غیر معمولی عروج پاتی ہیں۔

ایک اور پہلو پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سورہ معارج کی آیت چھ میں انسانی تاریخ کے پچاس ہزار برس کو ایک دن قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے قوموں کے حالات میں تبدیلی اتنی جلدی نہیں آتی۔ قوموں کا عروج و زوال کوئی دنوں یا دہائیوں کا کھیل نہیں، بلکہ اس میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔

اس کے بعد ایک اہم بحث اٹھاتے ہیں کہ تاریخ از خود جنم لیتی ہے یا اس میں کسی کا عمل دخل ہے جو پوری پلاننگ کے ساتھ اس کو چلا رہا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ تاریخ خدا کا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الأرض“ خدا انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو دور کرتا ہے، شکست دیتا ہے۔ اس لئے ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسلام تاریخ کوکوئی اندھی بہری طاقت تسلیم نہیں کرتا بلکہ مانتا ہے کہ وہ قدرت کے منضبط اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے، وہ رضائے الہی کے تابع ہوتی ہے۔

وہ اگر کبھی چنگیز اورہلاکو کا کردار ادا کرتی ہے تو صرف اس لئے کہ ناکارہ، نا اہل، اور اپنی حفاظت پر آپ قادر نہ ہونے والے انسانی گروہوں کو سزا دے۔ ایک دوسری آیت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے ”یدبر الأمر من السماء الی الأرض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون“ مطلب کاموں کی تدبیر کا عمل آسمان سے ہوتا ہے۔

والعصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے، جس کا اصل مفہوم بقول سید سلیمان ندوی زمانہ مع اپنی پوری انسانی تاریخ کے گواہ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تاریخ کی شہادت دلائی ہے، تاریخ کو گواہ ٹھہرایا ہے اور جو دعویٰ آگے کیا اس کے لئے دلیل کے طور پر تاریخ کو پیش کیا چنانچہ معلوم ہوا کہ تاریخ کوئی اندھی بہری اور گونگی قوت نہیں ہے۔ محض جذباتی عمل سے اس کے اندر انقلاب پیدا نہیں ہوتے بکہ یہ ان قوانین کی پابند ہے جنہیں سنن الہیہ کہتے ہیں۔

انسان کی حیثیت اس کائنات میں ایک بے حیثیت پرزے کی نہیں بلکہ یہ اشرف المخلوقات ہے، سپنگلر، ہیگل اور کارل مارکس کے نزدیک انسان سوسائٹی کا ایک پارٹ ہے جزء ہے۔ فرد کو سماج کا جزء قرار دینے سے انسان بھی دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہو جاتی ہے ان سے زائد کچھ نہیں، اسی طرح اس کی روحانی اہمیت کچھ نہیں رہتی۔ سماج اور معاشرہ انسان کے لئے ہے نہ کہ انسان اس کے لئے، جو ایک مشین ہو جس کو اس کے لئے بس کام کرنا ہے۔ کائنات انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے نہ انسان اس کائنات کے لئے کام میں لگایا ہے۔

مولانا ایک ایسے دور میں رہ رہے تھے جس میں سوشلزم ایک آئیڈیے، نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر عالمی حکومت کا داعی تھا۔ مولانا کے خیال میں تاریخ دنیا کو اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ایک عالمی حکومت کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا تھا۔ فلسفی برٹینڈرسل اور تاریخ دان آرنلڈ ٹوائن بی عالمی حکومت کی وکالت میں لب کشائی کرنے لگے تھے۔ انہوں نے جبر و اسبتداد، بے ایمانی اور دوسروں پر دھونس جما کر حکومت کے نظریہ کی جگہ راستی اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر عالمی حکومت کے نظریہ کو اپنانے پر زرو ر دیا ہے۔

مولانا کہتے ہیں دنیا اب سنجیدگی سے ایک ایسی عالمی حکومت کے قیام پر غور کر رہی ہے جو باہمی خیر خواہی اور معاہدات کے ذریعے عالم وجود میں لائی جائے، جس میں زبان، تہذیب و تمدن اور طرز زندگی کی یکسانیت اتحاد کی اساس ہو۔ روحانی او دلی اتحاد کی بنیاد پر قائم حکومت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتی ہے اور بنی نوع انسان کو اس سے فائدہ مل سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ایسی حکومت کے قیام کے لئے مشترک مذہب ایک لازمہ بن جاتا ہے ۔

ایک دور تھا جس میں حکومتیں مذہب کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں یا اپنی بقاء اور لوگوں کی وحدت کے لئے ان کو مذہب کا سہارا لینا پڑتا تھا، دو صدیوں سے ریاستوں کو مذہب کے عمل دخل سے پاک کرنے کی کوشش کے کیا اچھا برے نتائج نکلے ہیں جہاں یہ چیز گہرے غور و فکر کی متقاضی ہے ، وہیں اس امکان پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے کہ کیا واقعی مذہب مرچکا ہے اور آئندہ کی صدیوں میں لاخدا ریاستوں کا وجود ہی ہو گا یا مذہب اپنی قوت اور کشش کی بناء پر افراد و اقوام کو مجبور کر دے گا کہ اس کو سوسائٹی اور ریاست کا لازمی حصہ بنایا جائے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی عملی صورتیں کیا ہوں گی؟ مولانا نے اس بحث کے بنیادی حصے کو چھیڑا، لیکن اس کے ساتھ جڑے ان سوالوں پر غور وفکر ہمارا کام ہے جو شاید ہم تاحال نہیں کر سکے۔

آخر میں مولانا کہتے ہیں کہ جہالت یا لاعلمی کئی غلط نظریات کو جنم دیتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے عوام اسلام کو اس طرح سمجھیں اور اس طرح اس کا مطالعہ کریں جس طرح قرآن پاک اسے پیش کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا بھی اہم فرض ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تناظر اور جغرافیائی حدبندیوں سے بالاتر ہو کر دنیا کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اسلام کو پیش کریں اور اس کی تبلیغ کریں۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کے اس عظیم مذہب کے وہ نکات واضح طور پر پیش کیے جائیں جن کی اپیل عالم گیر ہے اور جو امن و سکون کی تلاش میں بھٹکنے والی دنیا کے مسائل کا حقیقی حل پیش کرتے ہیں۔

بلاشبہ مولانا کوثر نیازی کی یہ جامع اور خیال افروز تصنیف تاریخ کے مضمون سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک نادر کتاب ہے۔ اس میں بعض مغربی مؤرخین کے بے سروپا اتہامات کو منطقی اور علمی انداز میں رد کیا گیا ہے اور بیان کیا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کے وقت تاریخ کا علم وثوق کے درجے پر پہنچ چکا تھا۔ کوثر نیازی کی کتاب ”مطالعہ تاریخ“ کی ورق گردانی وقت کا صحیح مصرف ہے۔ اس کتاب سے میں نے آج ایک بار پھر لذت فکر کشید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments