عالمی منڈی میں پاکستان کا چاول انڈیا کے باسمتی چاول سے پیچھے کیوں؟


پاکستان
پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں مجموعی طور پر گذشتہ سال کے ان ہی چھ ماہ کے مقابلے میں دس فیصد کم چاول برآمد کیا ہے
کراچی میں مقیم اور چاول کی ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک شمس الاسلام خان کی کمپنی کی جانب سے بیرون ملک بھیجنے جانے والے باسمتی چاولوں کے آرڈرز میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔

شمس الاسلام گذشتہ 31 برس سے چاول کی تجارت اور اس کی برآمد کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

شمس الاسلام کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان سے برآمد کیے جانے والے باسمتی چاول کی قیمت کے مقابلے میں انڈیا سے بین الاقوامی منڈیوں میں پہنچنے والے باسمتی کی کم قمیت ہے۔ ان کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان سے چاول کی برآمد میں حائل ریگولیٹری مشکلات نے بھی باسمتی چاول کی برآمد کو مشکل بنا دیا ہے۔

باستمی چاول کی برآمد میں کمی صرف شمس الاسلام کی کمپنی تک محدود نہیں کیونکہ اس کی برآمد میں کمی قومی سطح پر واقع ہوئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمد میں 38 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ کمی ایسے وقت میں واقع ہوئی ہے جب پاکستان اور انڈیا یورپی یونین میں باسمتی چاول کے جغرافیائی انڈیکیشنز (جی آئی) کے حقوق پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں باسمتی چاول ’کرنل باسمتی‘ کیسے بنا؟

سندھ میں گندم کی فصل تیار مگر کٹائی کے لیے لوگ نہیں

باسمتی چاول پر انڈیا کا دعویٰ پاکستانی برآمدات کے لیے کتنا بڑا خطرہ

پاکستان میں چاول کے شعبے سے وابستہ افراد اور برآمد کنندگان کے مطابق باسمتی چاول کی برآمد کے شعبے میں انڈیا کی برتری کی وجہ ان کی عالمی منڈیوں میں کم قمیت اور ان کا نئی اقسام اور پرانی اقسام کے معیار برقرار رکھنے کے لیے تحقیق کا کام ہے۔

جبکہ پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمد اس کی زیادہ قیمت کے ساتھ ساتھ اس پر تحقیق کے شعبے میں بھی کمی کی وجہ سے بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان نے کتنا باسمتی چاول برآمد کیا؟

چاول

پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے چاول کی برآمد سنہ 2020 کے اپریل سے دسمبر کے عرصے میں ایک کروڑ دس لاکھ ٹن سے زائد رہی جو گذشتہ سال کے اس عرصے کےمقابلے میں اسی فیصد زیادہ ہے

پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں مجموعی طور پر گذشتہ سال کے ان ہی چھ ماہ کے مقابلے میں دس فیصد کم چاول برآمد کیا ہے۔

اس عرصے کے دوران باسمتی چاول کی برآمد میں اُس وقت بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی جب اس کی برآمد 38 فیصد تک گر کر صرف 265 ہزار ٹن ہو گی۔

پاکستان سالانہ ستر لاکھ ٹن سے زیادہ کا چاول پیدا کرتا ہے جس میں چالیس لاکھ ٹن برآمد کر دیا جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ ملک کے اندر ہی استعمال ہوتا ہے۔

اگر گذشتہ مالی سال کی بات کی جائے تو پاکستان نے چالیس لاکھ ٹن سے زائد کا چاول برآمد کر کے دو ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ کمایا۔ اس برآمدی چاول میں تقریباً نو لاکھ ٹن باسمتی چاول اور باقی چاول کی دوسری اقسام تھیں۔

انڈیا نے کتنا چاول برآمد کیا؟

پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے چاول کی برآمد سنہ 2020 کے اپریل سے دسمبر کے عرصے میں ایک کروڑ دس لاکھ ٹن سے زائد رہی جو گذشتہ سال کے اس عرصے کے مقابلے میں اسی فیصد زیادہ ہے۔

انڈین میڈیا پر آل انڈیا رائس ایکسپورٹرز ایسوی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق باسمتی چاول کی برآمد میں 29 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کی برآمد تیس لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئی۔

پاکستان اور انڈیا سے باسمتی چاول یورپی یونین کے ممالک کے علاوہ خلیجی ریاستوں، افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔

چاول

’انڈیا چاول کی ایسی اقسام بھی باسمتی بنا کر بیچ رہا ہے جو روایتی باسمتی نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی اسے کامیابی سے بیچ رہا ہے‘

پاکستان کی انڈیا کے مقابلےمیں باسمتی چاول کی برآمد کیوں کم ہوئی؟

پاکستان کی باسمتی چاول کی برآمد میں کمی ایسے وقت میں واقع ہوئی جب چاول کی اس قسم کی برآمد میں انڈیا نے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے چاول کے برآمد کنندہ شمس الاسلام، جو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا فرق قیمت کا ہے جو انڈین باسمتی کا کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کے باسمتی کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کا باسمتی روایتی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے جس کی ایک خاص خوشبو اور ذائقہ ہے اور اس کی پیداوار بھی محدود ہے جبکہ اس کی کاشت پر لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔

شمس نے بتایا اس کے مقابلے میں انڈیا چاول کی ایسی اقسام بھی باسمتی بنا کر بیچ رہا ہے جو روایتی باسمتی نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی اسے کامیابی سے بیچ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان اقسام کی پیداوار بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی لاگت کاشت کار کے لیے کم آتی ہے جس کا فائدہ برآمدی شعبے کو پہنچتا ہے۔ ان کے مطابق قیمت کا فرق ایک بہت بڑا فرق ہے جو انڈیا کو باسمتی چاول کی ایکسپورٹ بڑھانے میں مدد کر رہا ہے۔

اگرچہ یہ روایتی باسمتی نہیں ہے جس کی کاشت انڈیا میں باسمتی کے علاقوں کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی ہو رہی ہے، یہا ں تک کہ چنئی کے علاقوں تک میں بھی اس کی کاشت کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا یہ چاول لمبا اور اچھا ہے اور نئی نسل کو روایتی باسمتی کے بارے میں پتا بھی نہیں اس لیے وہ اسے باسمتی سمجھ کر خرید لیتی ہے۔

چاول کے شعبے کے ماہر زاہد خواجہ نے تصدیق کی کہ انڈیا اور پاکستان کے باسمتی چاول کی قیمت میں فرق کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں جبکہ انڈیا کی چاول کی برآمد بڑھی ہے۔

انھوں نے کہا جہاں پاکستانی باسمتی 1150 ڈالر فی ٹن کے حساب سے بکنے کے لیے جاتا ہے وہیں پر انڈیا 950 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اپنا چاول بیچنے کی پیشکش کر دیتا ہے۔

انھوں نے کہا قیمتوں کا یہ فرق باسمتی چاول کی فروخت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

زاہد خواجہ نے کہا یہ انڈین باسمتی چاول کی کم قیمت کی وجہ اس کی کاشت اور عالمی منڈی میں پہنچنے تک اس پر اٹھنے والے اخراجات پاکستان کے مقابلے میں کم ہیں۔ انھوں نے کہا جہاں بجلی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم ہیں تو ایک بہت بڑی وجہ وہاں زراعت کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی ہے جو باسمتی چاول کے کاشت کاروں کے لیے سود مند ثابت ہوئی۔

پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبد القیوم پراچہ نے کہا کہ قیمت ایک بہت بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے انڈیا باسمتی چاول پاکستان سے برآمد ہونے والے باسمتی کے مقابلے میں سستا فراہم کر رہا ہے۔

ان کے مطابق باسمتی چاول کے علاوہ ان کے یہاں چاول کی دوسری اقسام کی قیمت بھی کم ہے جو ان کی برآمد کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔

چاول

باسمتی چاول پر تحقیق کیسے برآمد پر اثر انداز ہو رہی ہے؟

باسمتی چاول پر تحقیق اور اس کی نئی اقسام کی دریافت پر کام بھی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان کے مقابلے میں انڈیا میں زیادہ کام ہو رہا ہے۔

زاہد خواجہ کے مطابق انڈیا میں چاول کی اس قسم پر تحقیق پر بہت کام ہو رہا ہے کہ کون سی نئی اقسام دریافت کی جائیں تو اس کے ساتھ پہلے سے موجود اقسام کا معیار بھی برقرار رکھا جائے۔

انھوں نے کہا اس کے مقابلے میں پاکستان میں اس پر تحقیق کا کتنا کام کیا جا رہے اس کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ کالا شاہ کاکو (پنجاب) میں کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں ہو رہا کہ باسمتی چاول کی نئی اقسام دریافت کر کے اس کی برآمد بڑھائی جائے۔

شمس الاسلام نے کہا کہ پاکستان میں برآمد کی جانے والی مصنوعات پر 0.3 فیصد کے حساب سے ایکیسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج وصول کیا جاتا ہے تاکہ اس کے فنڈز کے ذریعے برآمدی شعبے کی مصنوعات پر تحقیق کر کے ان کے معیار کے ساتھ ان میں جدت لائی جائے۔

ہر سال اس سرچارج کی مد میں اربوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں لیکن برآمدی شعبے کی مصنوعات پر تحقیق کا کوئی کام نہیں ہوتا جس کی ایک مثال چاول کا شعبہ ہے کہ جس میں آج تک ان کی اطلاع کے مطابق کوئی بھی قابل ذکر تحقیق نہیں ہوئی کہ کیسے اس شعبے کو بہتر بنایا جا سکے۔

قیوم پراچہ نے بھی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا تاکہ زیادہ بہتر بیج بنایا جا سکے تو اس کے ساتھ انھوں نے چاول کی فی ایکٹر پیداوار بڑھانے پر بھی ز ور دیا جو برآمدی چاول کی مجموعی لاگت میں کمی لا سکتی ہے۔

پاکستانی چاول کے برآمد میں دیگر کیا مشکلات درپیش ہیں؟

پاکستان سے چاول کی برآمد کے شعبے کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ اس سلسلے میں شمس الاسلام نے بتایا کہ پاکستان سے چاول برآمد کرنے والے افراد کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹ رہی ہے۔

اگر چند سال پہلے پندرہ سے دو ہزار کے قریب چاول کی برآمد کرنے والے تاجر تھے تو آج کی تعداد سمٹ کر پانچ سو بھی نیچے آ چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ چاول کی برآمد میں حکومتی ریگولیشنز بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

چاول کی ایکسپورٹ کے لیے ایسے قواعد و ضوابط ہیں کہ جو نئے افراد کی اس شعبے میں آمد کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔

سیلز ٹیکس رجسٹریشن، ون کسٹم اور ان جیسے مراحل میں درپش مشکلات اس شعبے کی طرف آنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہیں۔

’ریگولیٹری مسائل بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے چاول کی ایکسپورٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp