’تاریخ کی سب سے بڑی رشوت‘ کہلائے جانے والا ’پوتن محل‘ جسے بار بار مسمار اور پھر تعمیر کیا گیا


وہ پراسرار ’پیوتن محل‘ جسے روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی نوالنی کی ایک وائرل ویڈیو میں دکھایا گیا تھا، کے بارے میں لگتا ہے کہ عیش و عشرت سے بھرپور یہ محل صدر ولادیمیر پوتن کے دولت مند دوستوں نے انھیں تحفے میں دیا ہو گا لیکن پھر روسی ٹی وی نے بالکل مختلف رپورٹ نشر کر دی۔

پر تعیش تزئین و آرائش کی جگہ اب کنکریٹ کی سادہ دیواروں نے لے لی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس جائیداد کو پوری طرح سے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہو، جس سے یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس عمارت میں آخر کیا ہو رہا ہے۔

الیکسی نوالنی کی اس تحقیقاتی ویڈیو کو ریلیز ہونے کے بعد سے اب تک 110 ملین بار دیکھا جا چکا ہے۔ کریملن اس محل کے بارے میں دعوؤں کی سختی سے تردید کرتا ہے اور صدر پوتن نے اس کو ’بیزار کن‘ اور ’تالیف اور انحطاط‘ کا نام دیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ اگست کو 44 برس کے نوالنی پر زہریلے مواد ’نرو ایجنٹ‘ سے حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ بال بال بچے تھے اور وہ برلن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ وہ اس حملے کا الزام پوتن پر لگاتے ہیں لیکن کریملن اس کی بھی تردید کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ولادیمیر پوتن کا محل کیا واقعی تاریخ کی سب سے بڑی رشوت سے بنا؟

’یہ محل پوتن کا نہیں میرا ہے‘، روسی ارب پتی شخصیت کا دعویٰ

روسی صدر اتنے بے فکر کیوں نظر آ رہے ہیں

نوالنی کو جرمنی سے ماسکو واپس آنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ اب تک جیل میں ہیں۔

لیکن بی بی سی روس نے متعدد ایسے بلڈرز سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2005 اور 2020 کے درمیان محل کے مقام پر کام کیا، عمارت بنائی اور پھر اس کی تجدید کی۔

انھوں نے نوالنی کی ویڈیو میں لگائے جانے والے بہت سے الزامات کی تصدیق بھی کی ہے۔

بلڈرز کیا کہتے ہیں؟

سٹینیسلاو (فرضی نام) نے کہا کہ وہ سنہ 2018 کے موسم خزاں میں گیلیندزیک شہر میں بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے پر تعمیراتی سائٹ پر کام کرنے گئے تھے۔ اس محل میں نوالنی کی فلم میں دکھائے جانے والی پرتعیش آرائش کی بہت سی باقیات تھیں لیکن زیادہ تر فرنیچر جا چکا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’محل میں آرائش ناقابل یقین حد تک تھی لیکن بعد میں محل کا زیادہ تر حصہ خالی تھا۔‘

نوالنی کی ویڈیو میں محل میں پھپوندی لگنے کے مسئلے کی نشاندہی کی گئی تھی اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس وجہ سے محل کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ دو بلڈرز کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود پھپوندی دیکھی تھی۔

سٹینیسلاو نے بی بی سی کو بتایا: ’چھتیں اور دیواریں پھپوندی سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ صرف عام پھپوندی سبز رنگ کی۔ کچھ جہگوں پر کالی پھپوندی بھی تھی۔ جس نے پوری عمارت کو متاثر کیا۔ ہم حیران تھے۔‘

اس محل کو مرکزی دیواروں سے منسلک پلاسٹر بورڈ کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا اور یہ پھپوندی کنکریٹ کی دیواروں اور پلاسٹر بورڈ کے مابین نمودار ہوئی تھی۔

ایک اور بلڈر ایگور(فرزی نام) نے بتایا کہ وہ سنہ 2017 میں کام کرنے اس محل میں گئے اور تب تک پھپوندی زیری منزل سے آگے نہیں بڑھی تھی۔

کریملن کے ایک قریبی ذرائع نے بی بی سی روس کو تصدیق کی ہے کہ پھپوندی واقعی ایک بڑا مسئلہ تھا: ’محل کو مکمل کیا گیا اور کئی سال تک زیر استعمال بھی رہا لیکن پھر ایک ناخوشگوار بو کے ساتھ پھپوندی نمودار ہونے لگی۔‘

ایگور نے شکایت کی کہ انھیں ہر نشان اور کھڑچ مٹانے کا کہا گیا۔ ’تمام کیبنٹ مہنگی لکڑی سے بنائے گئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے یہاں کام کیا تھا۔ استعمال ہونے والا میٹیرئیل بہت مہنگا تھا اور پھر انھوں نے ہمیں کہا کہ ’تاریں کاٹ دیں، اس سب کو الگ کر دیں، اسے توڑ دیں۔‘

نوالنی نے ویڈیو میں کیا الزام عائد کیا؟

الیکسی نوالنی کی اس ویڈیو میں الزام لگایا گیا کہ بحیرہ اسود کے ساحلی علاقے پر موجود ایک شاندار محل نما عمارت صدر پیوتن کو رشوت کے طور پر دی گئی۔

اس ویڈیو میں الزام لگایا گیا کہ 1.37 ارب ڈالر کی مالیت کی اس جائیداد کو ’تاریخ کی سب سے بڑی رشوت‘ سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدا گیا ہے۔

لیکن گذشتہ ماہ کے اختتام پر روس کی ارب پتی کاروباری شخصیت ارکادی روٹنبرگ نے کہا کہ اس شاندار جائیداد کے مالک روس کے صدر ولادیمیر پوتن نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جگہ ’اگلے دو برسوں میں‘ مکمل ہو جائے گی اور اسے ایک اپارٹمنٹ ہوٹل بنا دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ الیکسی نوالنی کی ٹیم نے یہ ویڈیو گذشتہ ماہ اس وقت ریلیز کی تھی جب نیوالنی کو جرمنی سے ماسکو واپس آنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔

لیواڈا سینٹر کی ایک رائے شماری نے اس ہفتے بتایا ہے کہ 26 فیصد روسی باشندوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے اور ان لوگوں، جنھوں نے کہا ہے کہ انھوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے یا وہ اس کے مندرجات سے واقف ہیں، میں سے 17 فیصد نے کہا کہ مسٹر پوتن کے بارے میں ان کی رائے اس وجہ سے تبدیل ہو گئی ہے۔

ارکادی روٹنبرگ اور پیوتن

روس کی ارب پتی کاروباری شخصیت ارکادی روٹنبرگ کے مطابق اس شاندار جائیداد کے مالک روس کے صدر ولادیمیر پوتن نہیں بلکہ وہ خود ہیں

عمارت کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟

بلڈرز کا خیال ہے کہ پوری عمارت کو کم از کم دو بار جراثیم سے پاک کیا جا چکا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عمارت کے سمندر سے قریب ہونے اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوئے۔

مسائل اس وقت پہلی بار سامنے آئے جب نچلی منزل پر سوئمنگ پول کے قریب پلاسٹر کا ایک ٹکڑا تقریباً ایک صفائی کرنے والے کے اوپر گرا۔ ایگور کے مطابق ابتدا میں منصوبہ کاسمیٹک تجدید کاریوں کا تھا لیکن ایک بار جب انھوں نے ’جعلی دیواریں‘ کھول دیں تو انھیں احساس ہوا کہ پھپوندی پورے گھر میں پھیل چکی ہے۔

بی بی سی روس نے اس حوالے سے روس میں تعمیر و مرمت کے نگران ادارے گلیوگوسیکپرٹیزا، ارب پتی کاروباری شخصیت ارکادی روٹنبرگ اور گیلیندزیک شہر کی مقامی اتھارٹی سے اس حوالے سے سوال پوچھے ہیں تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ عمارت کتنی پر تعیش ہے؟

سنہ 2011 کے موسم خزاں میں یہاں جانے والے ایک بلڈر نے بی بی بی کو بتایا کہ ان کے لیے اس کا پہلا تاثر یہ تھا کہ جیسے کوئی مصری اہرام تعمیر ہو رہے ہیں۔

’مجھے یاد ہے کہ اس وقت تعمیراتی سائٹ پر کوئی 1500 لوگ کام کر رہے تھے۔ جو روسی، ازبک اور دوسرے فوجی تھے۔ اس عمارت کو مکمل کرنے کی جلدی تھی۔‘

ایک اور ورکر نے بتایا کہ تعمیراتی کام کے تمام نشانوں کو چھپایا گیا تھا تاکہ سمندر سے اس کی نشاندہی نہ کی جا سکے: ’ٹھوس اور دھات کے تمام ڈھانچوں کو پہاڑیوں، درختوں ، گھاس جیسا رنگ و روغن کر کے چھپایا گیا تھا تاکہ وہ قدرتی نظارے کا حصہ لگیں۔‘

وہاں ایک جاپانی باغ بھی تھا اور ایگور فرش کی سطح پر بنائے گئے پول سے شدید متاثر تھے۔ ’آپ بتا ہی نہیں سکتے تھے کہ وہاں پول موجود ہے۔‘

اس مقام پر کام کرنے والے بہت سے لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں متعدد بار تعمیراتی کام ہوئے۔ ایک بلڈر کے مطابق ’وہ تعمیر کرتے اور مسمار کرتے، عمارت بناتے اور پھر انہدام کرتے رہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’یہاں ایک بہت بڑا جم بھی تھا جسے ماربل سے بنایا گیا تھا لیکن وہ صرف دو یا تین سال ہی قائم رہا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی جب ایک دن ایک کھدائی کرنے والا آیا اور اسے توڑنے لگا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp