وزیر اعظم عمران خان کے حق میں ترقیاتی فنڈز کیس میں فیصلے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پانچ نکاتی خط: ’یہ افسوسناک بات ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف ترقیاتی فنڈز کیس میں فیصلہ مجھے نہیں دکھایا گیا‘


پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کے رجسٹرار کے نام ایک خط لکھ کر ان سے یہ وضاحت طلب کی ہے کہ چیف جسٹس کا تحریر کردہ حکمنامہ انھیں دکھائے بغیر میڈیا کو کس کے حکم پر اور کیوں جاری کیا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں پانچ سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے رجسٹرار کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ انھیں یہ پتا چلا ہے کہ ’11 فروری کو ایک حکمنامہ (نہیں معلوم کہ کونسا والا) وزیر اعظم کی طرف سے پارلیمنٹیرینز کو فنڈز جاری کرنے سے متعلق مقدمے میں آرڈر میڈیا کو جاری کر دیا گیا۔‘

وہ لکھتے ہیں: ’یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ مجھ تک اس حکمنامے کی نقول نہیں پہنچیں۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ یہ ’قائم روایت کے مطابق جو جج بینچ کا سربراہ ہوتا ہے اور (اس کیس میں وہ چیف جسٹس ہیں) وہ اگلے سینیئر جج کو یہ فیصلہ بھیجتا ہے اور پھر اس کے بعد والے ججز کو یہ بھیجا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق بظاہر جسٹس اعجازالحسن (قاضی فائز عیسیٰ سے جونیئر جج) کو تو اس فیصلے کی نقل دی گئی ہے مگر ’مجھے سرے سے مجھے یہ فیصلہ مل ہی نہیں سکا، میرے دیکھنے سے پہلے ہی اب دنیا اس فیصلے کے بارے میں جانتی ہے۔‘

یاد رہے کہ ماضی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران قاضی فائز عیسیٰ کے وکلا کی طرف سے جسٹس اعجازالحسن پر اعتراض اٹھایا تھا جس کے بعد وہ اس بینچ سے یہ کہتے ہوئے علیحدہ ہو گئے تھے کہ انھیں امید نہیں تھی کہ ان کے ایک ساتھی جج کی طرف سے ان پر اعتراض اٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ کے جج کو کسی درخواست کی سماعت سے روکنا کتنا غیر معمولی ہے؟

خواتین ارکان پارلیمان فنڈز نہ ملنے پر ناراض، حکومت کا کہنا ہے کہ حلقہ نہیں تو فنڈ نہیں

جسٹس قاضی فائز کے وکلا نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ اگر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے سے ہٹایا گیا تو جسٹس اعجازالحسن اس فیصلے کے بنیفشری ہوں گے کیونکہ وہ ان سے جونئیر جج ہیں اور پھر ایسے فیصلے کے بعد وہ سنیارٹی حاصل کر لیں گے لہذٰا یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے جمعرات کو وزیراعظم کی طرف سے مبینہ طور پر ارکان پارلیمنٹ کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق از خود نوٹس کی درخواست نمٹاتے ہوئے میڈیا کو فیصلہ جاری کیا تھا جس میں یہ آبزرویشن دی کہ چونکہ بنچ کے ایک رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے، اس لیے غیر جانبداری کے اصولوں کا تقاضا یہی ہے کہ انھیں ایسے معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے جو کہ وزیراعظم عمران خان سے متعلق ہوں۔

عمران خان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پانچ نکاتی خط: ’فیصلے کو میڈیا کو جاری کرنے کا حکم کس نے دیا تھا‘

سپریم کورٹ کے رجسٹرار خواجہ داؤد کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ براہ مہربانی مجھے یہ بتایا جائے کہ یہ آرڈر مجھے کیوں نہیں بھیجا گیا؟

پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’مجھے یہ بتایا جائے کہ اس عدالتی روایت پر عمل کیوں نہیں کیا گیا کہ تحریری فیصلہ اگلے سینیئر جج کو بھیجا جاتا ہے۔‘

تیسری بات یہ ہے کہ ’میرے دیکھنے سے پہلے ہی یہ فیصلہ میڈیا پر کیوں جاری کیا گیا اور یہ موقع بھی نہیں دیا گیا کہ میں اس پر اتفاق یا اختلاف کرتا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سے پوچھا کہ ’اس فیصلے کو میڈیا پر جاری کرنے کے احکامات کس نے دیے تھے؟‘

پانچویں نکتے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار کو کہا کہ ’مجھے اس فیصلے کی کاپی دی جائے تاکہ میں اسے پڑھ سکوں۔‘

بی بی سی نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے ان کا مؤقف لینے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا مگر ابھی تک ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان بار کونسل کا رد عمل

وکلا کی مختلف نمائندہ تنظیموں نے بھی اس معاملے پر اپنا رد عمل دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے رکن اور سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ چیف جسٹس کو اپنے کسی ساتھی جج کے بارے میں آبزرویشن دینے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔

ان کے مطابق پیر کو پاکستان بار کونسل کا اجلاس ہے اور اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر وکلا کے حملے کے معاملے کا علاوہ چیف جسٹس کے ایک جج کے بارے میں آبزرویشن پر بھی غور کیا جائے گا۔

بلوچستان سے پاکستان بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ بار کے وائس چئیرمین و اراکین سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی جانب سے گذشتہ روز سپریم کورٹ کے اپنے ایک ہم مرتبہ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیراعظم عمران خان کو باہم فریق گرداننا اور ان کو عمران خان کے بارے مقدمات کی شنوائی سے باز رکھنا آئین و قانون و اخلاقیات اور مراتب کے اصولوں کے منافی ہے۔

ان کے مطابق ’پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کے دس رکنی بنچ نے متفقہ طور پر جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بدنیتی پر مبنی عمران خان اور اس کی حکومت کے دائر کردہ ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب قاضی فائز عیسیٰ اور حکومت کے مابین کوئی معاملہ و تنازعہ وجود نہیں رکھتا، اس کے باوجود عدالت عظمیٰ کے بنچ کی جانب سے بے بنیاد مفروضوں کی بنا پر اپنے معزز ساتھی جج کی دیانت و حلف کی پاسداری اور بلا امتیاز انصاف میں ان کے کردار پر انگشت نمائی کرنا ان کے اپنے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔‘

لاہور وکیل

فائل فوٹو

منیر کاکڑ نے کہا کہ لگتا ہے کہ عدلیہ کو ایک بار پھر 1990 کی دہائی کی جانب دھکیلا جارہا ہے جب ایک بینچ دوسرے بینچ کے خلاف فیصلے دیتا رہا ہے، جس سے عدلیہ کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

’ہماری خواہش ہے کہ عدلیہ جہاں اپنی عزت و وقار و اتفاق کا دفاع کرے وہاں حکومتوں کے جھوٹ و فریب دھوکہ دہی کا ادراک کرتے ہوئے آئین و قانون کی عملداری کو عوام کی امنگوں کے مطابق یقینی بنائیں۔ کسی بھی جج کے آئینی اختیارات کو کوئی سلب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کوئی قد غن یا ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہونا از خود مس کنڈکٹ کے زمرے اسی طرح جرم ہے جیسے تین نومبر 2007 کو ایک آرڈر کے ذریعے کام سے روکا کیا تھا۔ اس وقت بھی قوم و وکلا یکسو تھے، آج بھی عدلیہ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp