زاہد ڈار کی نظم ‘ایک ویران گاؤں میں’


زاہد ڈار کی نظم ’ایک ویران گاﺅں میں‘ پہلے بھی پڑھ رکھی تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے احمد مشتاق صاحب نے اس کا پس منظر بتایا تو اس کی معنویت اور طرح سے اجاگر ہوئی۔ 1965 کی جنگ ختم ہونے کے بعد زاہد ڈار نے احمد مشتاق، محمد سلیم الرحمان اور ریاض احمد کے ساتھ ایک سرحدی گاﺅں کو وزٹ کیا، جس کے بعد یہ نظم تخلیق ہوئی اور ’سویرا’ میں چھپی۔ احمد مشتاق اور محمد سلیم الرحمان کو یہ نظم پسند ہے۔ منیر نیازی نے ’1966 کی بہترین شاعری‘ کے عنوان سے انتخاب مرتب کیا تو اس میں بھی یہ نظم شامل تھی۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ‘شںب خون ‘ کے پچاس سالہ انتخاب میں اس نظم کو جگہ دی۔

زاہد ڈار کی یہ نظم بشیر عنوان کو بھی بہت پسند ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ نظم پڑھ کر ہمیشہ مجید امجد کی نظم ‘متروکہ مکان’ کو یاد کرتے ہیں۔ان کے بقول “مجھے یہ دونوں نوحے اداسی کی ایسی کیفیت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں جو پتھر میں بھی گداز پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ درحقیقت ایسی زندہ نظمیں ہی جدید نظم کا جواز ہیں۔”

جنگ ستمبر کے دوران زاہد ڈار نے ایک رات داروغہ والا میں سلیم صاحب کے گھر بھی گزاری تا کہ ’خطے‘ کی صورت حال کا ’جائزہ’ لیا جا سکے۔ سلیم صاحب نے بتایا کہ داروغہ والا کے قریب 155 ایم ایم توپ بھی نصب ہوئی جو چلتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے چاندنی نکل آئی ہو۔ درو دیوار لرز اٹھتے اور چھت کا سریا کھن کھن کرتا۔

جنگ کے دنوں میں بہت شاعری ہوئی، ریڈیو اور ٹی کے ذریعے بعض نظموں اور گیتوں نے خون بھی گرمایا۔ زاہد ڈار کی نظم اس شعری سرمائے سے مختلف ہے، یہ جنگ ختم ہونے کے بعد اس سے جنم لینے والی ویرانی کے بارے میں ہے۔ ایک ہنستا بستا گاﺅں ویران ہو چکا ہے۔ مقام کی ویرانی اور شاعر کے باطن کی ویرانی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ انسان اور مقامات دونوں کے لیے جنگ بربادی لاتی ہے۔ سرحدی گاﺅں کے مکینوں کو جنگ چھڑ جانے پر ہی نہیں اس کے امکان پر بھی نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ زاہد ڈار کو رنج ہے کہ جنگ کی وجہ سے جو جس جگہ پہ تھا اب وہاں نہیں رہا۔ اس پر وہ ملول اور دل گرفتہ ہوکر گزرے وقت کا موازنہ زمانۂ حال سے کرتے ہیں۔

٭٭٭

ایک ویران گاﺅں میں

انہی سوکھے ہوئے میدانوں میں

اب جہاں دھوپ کی لہروں کے سوا کچھ بھی نہیں

سبز، لہراتے ہوئے کھیت ہوا کرتے تھے

لوگ آباد تھے، پیڑوں کی گھنی چھاﺅں میں

محفلیں جمتی تھیں، افسانے سنے جاتے تھے

آج ویران مکانوں میں ہوا چیختی ہے

دھول میں اڑتے کتابوں کے ورق

کس کی یادوں کے ورق، کس کے خیالوں کے ورق

مجھ سے کہتے ہیں کہ رہ جاﺅ یہیں

اور میں سوچتا ہوں صرف اندھیرا ہے یہاں

 پھر ہوا آتی ہے، دیوانی ہوا

اور کہتی ہے: نہیں، صرف اندھیرا تو نہیں

یاد ہیں مجھ کو وہ لمحے جن میں

لوگ آزاد تھے اور زندہ تھے

آﺅ، میں تم کو دکھاﺅں وہ مقام….

….ایک ویران جگہ، اینٹوں کا انبار، نہیں، کچھ بھی نہیں

 اور وہ کہتی ہے یہ پیار کا مرکز تھا کبھی

کس کی یاد آئے مجھے، کس کی، بتاﺅ، کس کی!

اور اب چپ ہے ہوا، چپ ہے زمیں

بول اے وقت! کہاں ہیں وہ لوگ

جن کو وہ یاد ہیں، جن کی یادیں

ان ہواﺅں میں پریشان ہیں آج


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments