حیا ڈے بمقابلہ ویلنٹائن ڈے


لگ بھگ 7۔ 8 سال پرانا واقعہ ہے کہ جب ہم سرکاری جامعہ کے شعبہ فلسفہ میں زیر تعلیم تھے۔ جامعہ کی نئی نئی ہوا لگی تھے۔ شام تک جامعہ میں ہی رکتے تھے اور دوستوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا۔ ایک دن ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ میں گھوم پھر رہے تھے کہ اچانک ہم نے ایک کلاس میں پریمی جوڑے کو محو گفتگو دیکھا۔ محض وہ ہمارے لئے بہت عام سی بات ہوتی، مگرلڑکے کو دیکھ شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔ کیونکہ اس لڑکا کارائٹ ونگ پارٹی کے اسٹودنٹ ونگ سے تعلق تھا اور کچھ دن پہلے ہی اس نے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک لڑکے کو اس لئے مارا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں ایک لڑکی کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے دیکھے گئے تھے جس کی وجہ سے لڑکے کو بری طرح پیٹ ڈالا۔

یہ منظر میرے نزدیک منافقت کی اعلی منظر کشی تھی۔ جو لڑکا چند دن پہلے اپنے ہم جنس کو اس لئے مارتا ہے کہ وہ لڑکی سے اکیلے میں مذاق کرتا دیکھا گیا تھا مگر آج وہ خود تنہائی میں بہت قربت کے ساتھ ایک لڑکی کے ساتھ محو گفتگو ہے۔ یہ منظر کراچی کی ایک سرکاری جامعہ کا نہیں ہے بلکہ یہ منافقت کا منظر ہر سو نظر آئے گا کہ اگر آپ کی نظرو ں پر منافقت کا عینک نہ لگا ہو۔

مجھے نہ و یلنٹائن ڈے سے لینا دینا ہے نہ اس کے ٹسل میں منائے جانے والے حیا ڈے سے، لیکن حیا ڈے اس ٹکر میں منایا جا رہا ہے کہ ویلنٹائن منانا غلط ہے تو یہ حیا ڈے منانا بھی غلط ہے کیونکہ حیا صرف ایک دن کیوں؟ یہ تو پورے سال کی پریکٹس ہونی چاہیے۔ خواتین کو گھورنے والے حیا ڈے روز کیوں نہیں مناتے؟ بچیوں سے زیادتی کے واقعہ پر یہ لوگ حیا ڈے کیوں نہیں مناتے؟ یہ جو چھوٹے بچوں سے بد فعلی کے واقعات ہوتے ہیں اس پر حیا ڈے کیوں نہیں منایا جاتا؟ خواتین کو حق سے محروم کیا جاتا ہے اس پر کیوں حیا ڈے نہیں منایا جاتا؟ خواتین کو کاری قرار دینے پر، وٹہ سٹہ کرنے پر، تشدد کا نشانہ بنانے پرحیا ڈے کیوں نہیں منایا جاتا ہے؟ کیا یہ ظلم بے حیائی کے زمرہ میں نہیں آتے؟

سوال یہ ہے کہ صرف 14 فروری کو ہی حیا ڈے منانا چاہیے یا پورے سال؟ اور اگر کسی دن کے نام پر کوئی غلط کام ہوتا ہے تو کیا یہ صرف اسی دن ہوتا ہے یا پھر وہ کام پورے سال ہوتا ہے اور کیا غلط کام اسی دن کا محتاج ہے۔ وہ افراد جو غیر اخلاقی کام پورے سال کرتے ہیں وہ اس دن کے تو ہرگز محتاج نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ تواس دن پارسا بن کر گھومتے ہیں، بلکہ بہت سے تو اس دن کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہوں گے ۔

انتہا پسندی کسی فکر میں بھی ہووہ قابل قبول نہیں۔ انتہاپسندی کی ایک فکر اس دن کے حوالے سے بھی پائی جاتی ہے کوئی اس دن کو لے کر بہت جوش و جذبات کا اظہار کرتا ہے اور ایک طبقہ اس دن کے حوالے سے انتہائی سخت موقف رکھتا ہے۔ لیکن ایک اور رخ ہے اس معاملے کا کہ اگر یہ دن مثبت طور پر منایا جائے تو کیا قباحت ہے بھلا۔ اگر یہی دن میاں بیوی منا لیں تو بری بات تو نہیں، اگر ماں باپ کو تحفہ دے دیا جائے تو کیا برا ہے اور اگر کسی پرانے دشمن کو معاف کر دیا جائے اور مسکراکر مل لیا جائے تو کیا برائی ہے؟

ویلنٹائن ڈے کو مثبت فکر سے منانے والوں سے اتنا ہی سوال ہے آخر ایک ہی دن کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ دن ہر ہفتے یا ہر مہینے نہیں منایا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا میں ویسے بھی محبت کم ہے اور نفرتیں بہت زیادہ ہیں۔

ویلنٹائن کے مقابلے میں حیا ڈے منانے والوں سے اتنا سوال ہے آخر حیا ڈے ایک دن ہی کیوں؟ یہ اس دن کیوں نہیں منایا جاتا جب کسی ماں، بہن، بیٹی کی عزت کو تار تار کیاجاتا ہے؟ یہ حیا ڈے اس وقت کیوں نہیں منایا جاتا کہ جب کسی کام کرنے والی بچی کے ساتھ بری طرح مار پیٹ کی جاتی ہے، یہ حیا ڈے اس وقت کیوں نہیں منایا جاتا کہ جب کوئی مولوی کسی چھوٹے بچے کے ساتھ بد فعلی کرتا ہے۔ آخر ہمارے مثبت کام بھی کسی ٹکر میں کیوں ہوتے ہیں۔

کیا معاشرے کو ویلنٹائن ڈے سے خطرہ ہے اوراس کے علاوہ معاشرے سے تمام دوسری چیزیں ختم ہو گئی ہیں کیا؟ ویسے بھی محبت انسان کی فطرت میں شامل ایک احساس کا نام ہے یہ کسی کی جاگیر نہیں۔ جو لوگ محبت کی مخالفت میں کھڑے ہوتے ہیں وہ قابل رحم ہیں۔ فقط کسی دن سے اختلاف کی بنیاد پر ایک نیا دن منانے کاجواز بنانا کسی طور اچھی فکر نہیں۔ خیر ہمیں کیا جس کو جو منانا ہے منائیں ہم تو اتوار کی چھٹی منائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments