تبلیغی جماعت: بات دونوں پہلوؤں پر ہو


تبلیغی جماعت کا قیام (1926) میں عمل میں آیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں ایسے لوگ زندگی بسر کر رہے تھے جن کے نام تو مسلمانوں جیسے تھے مگر وہ دین سے بالکل نابلد تھے۔ ارکان اسلام کلمہ نماز روزہ حج زکوٰۃ تو دور کی بات رہی جنازے کی تجہیز و تکفین اور حرام و حلال سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ ایسا ہی ایک علاقہ میوات کا تھا جہاں سے تبلیغ یعنی مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی محنت شروع کی گئی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ جماعت اپنے بنیادی اغراض و مقاصد میں بہت حد تک کامیاب رہی۔

اس جماعت سے وابستہ ہونے والے افراد اپنے خرچ سے اور اپنا وقت لگا کر شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھر کر مشقتیں اٹھا کر خود بھی ”دین“ سیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی دین سکھاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیر منظم یعنی کاغذ قلم اندراج ریکارڈ اشتہار کے بغیر اور زیرو پبلسٹی کے باوجود اس کا بہت منظم نیٹ ورک ہے۔

مگر افسوس یہ جماعت وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے میں قاصر رہی۔

1۔ جس وقت اس جماعت کی داغ بیل ڈالی گئی تھی اس وقت ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں ناخواندگی عام تھی شرح ناخواندگی مسلمانوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔ ایسے مسلمانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جماعت کے بانیوں نے چھ باتوں کا آسان نظام العمل بنایا تھا۔ اب جبکہ اس جماعت کے مخاطب ناخواندہ، خواندہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سب ہیں تو نصاب اور نظام میں تبدیلی کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی۔

2۔ دین کے جس ناقص مفہوم کی اشاعت کا کام اس جماعت نے کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ اس سے وابستہ لوگوں نے دین کو مسجدوں میں قید کر دیا ہے۔ اس جماعت کا سارا زور محض جسمانی عبادات پر ہوتا ہے۔ اس سے وابستہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نماز روزہ وغیرہ یعنی حقوق اللہ کے جتنے پابند ہوتی ہے اتنے ہی حقوق العباد میں کوتاہی کرنے والی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں اخلاقیات اور معاملات پر گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ دین چند دینی شعائر اور جسمانی عبادات کا نام نہیں ہے۔

چوبیس گھنٹے میں پانچ وقت کی نماز فرائض سنن اور نوافل بشمول تہجد میں کم و بیش ایک، ڈیڑھ یا دو گھنٹے لگتے ہیں باقی 22 گھنٹے زندگی کس طرح گزارنی ہے اس کی تعلیم اور تربیت نہیں دی جاتی۔ مزید یہ ان کے بیان کا لازمی حصہ فضائل اعمال حقوق اللہ یعنی نماز روزہ صدقہ زکوٰۃ کے فضائل کی احادیث پر مشتمل ہے جو صبح دوپہر شام چالیس دنوں تک ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ اس جماعت سے جڑنے والوں کی اکثریت کم پڑھے لکھے لوگوں کی ہوتی ہے اور جب وہ یہ حدیث سنتے ہیں کہ اس تسبیح کے ورد یا یہ دو رکعت نماز پڑھنے سے پہاڑ کے برابر بھی گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھایا جاتا ہے کہ اس سے مراد وہ کمیاں اور کوتاہیاں ہیں جو حقوق اللہ میں ہوتی ہیں۔

اس کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ دو رکعت نماز یا ہر سال حج اور عمرہ کرنے سے بندے کے حقوق معاف ہو جائیں گے۔ دو رکعت نماز والی حدیث سنائی جاتی ہے مگر یہ حدیث بار بار نہیں سنائی جاتی جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ مفلس bankrupt کون ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا جس کا دیوالیہ ہو گیا مال و دولت لٹ گئی جہاز ڈوب گیا باغات میں آگ لگ گئی کارخانے بند ہو گئے۔

تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس دیوالیہ وہ ہوگا جو قیامت کے روز نیکیوں کا انبار لے کر آئے گا مگر اس کے حساب کتاب کے وقت کچھ لوگ لائن میں کھڑے ہوں گے اللہ ان سے پوچھے گا کس لئے کھڑے ہو وہ کہیں گے اس نے میرا حق مارا ہے۔ میں اس کا غریب پڑوسی تھا وہ اپنے گھر کے کوڑے میرے دروازے پر ڈال جاتا تھا منع کرنے پر الٹا ہمارے اوپر غصہ ہوتا تھا اور پولیس میں بند کرانے کی دھمکی دیتا تھا۔ دوسرا کہے گا کہ غلط بیانی کر کے میاں بیوی میں تفرقہ پیدا کرا دیا تھا تیسرا کہے گا کہ میری بیٹی یا بہن کا شادی کے لئے طے رشتہ تہمت لگا کر منقطع کرا دیا تھا کوئی کہے گا میری زمین دبا لی تھی کوئی کہے گا ادھار لے کر ادا نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔

اس طرح اس نیک صالح عبادت گزار بندے کی نیکیوں میں سے ہر ایک کی دین ادا کی جائے گی یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور حق لینے والے باقی رہ جائیں گے تو ان حق داروں کے نامہ اعمال میں سے گناہ نکال کر اس نیک صالح عبادت گزار کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے اور اس طرح یہ عبادت گزار شخص جہنم رسید ہوگا۔

تبلیغی جماعت ہو یا کوئی اور جماعت، ضرورت کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے۔ مقصد کی زیادہ سے زیادہ برآوری کے لئے کیس اسٹڈی کی جاتی ہے۔ ڈٹرجنٹ پاؤڈر ہر علاقے کے لئے ایک ہی قسم کا موثر نہیں ہوتا ہے تو کمپنی کیس اسٹڈی کرانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ جن علاقوں میں پانی میں ہارڈنیس زیادہ ہے وہاں کے فارمولے میں مناسب تبدیلی کر کے الگ پروڈکٹ دیا جائے۔ تبلیغی جماعت کیس اسٹڈی کے بغیر جو افراد سازی کر رہی ہے اس سے ناقص مسلمان بن رہے ہیں #مسجدی #مسلمان، کرتا پائجامہ داڑھی ٹوپی والا مسلمان۔ مسلم ایمان والا مسلمان نہیں۔

دوسری بات یہ کہ دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مگر دیکھنے میں ایسا بہت آیا ہے کہ بہت سارے لوگ رشوت لے کر لوگوں کے جائز ناجائز کام کرتے ہیں دھوکا اور فریب سے تجارت کو چمکاتے ہیں لوگوں کی زمینیں غصب کر کے یا دبنگئی سے کوڑی کے مول خرید کر پڑے بڑے بلڈرز ڈیولپر بن جاتے ہیں اور جب اچھی حیثیت کے مالک ہو جاتے ہیں تو جماعت سے جڑ جاتے ہیں جماعت کے ذمہ داروں اور مولوی مولانا کی دعوتیں کرتے ہیں اور سماج میں باعزت کہلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments