کیا قائداعظمؒ مسلم لیگ قائم رکھنا چاہتے تھے؟


متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن جب اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے ہندوستان آئے تو انہوں نے معاملات کو سمجھنے کے لیے نامور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جب جواہر لعل نہرو ان سے ملے تو گفتگو کے دوران ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا کہ ”آپ کے خیال میں جناح کیسے شخص ہیں؟“ نہرو نے بغیر رکے جواب دیا کہ ”He is one of the most extraordinary men in history“ ۔ ماؤنٹ بیٹن نے چونکتے ہوئے سوال کیا ”In history؟

“ نہرو نے پھر اسی اعتماد سے جواب دیا ”Yes، وہ اس لیے کہ پوری تاریخ میں مسلمان کبھی متحد نہیں ہوئے لیکن جناح نے انہیں مسلم لیگ کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ ایسا کام کرنے والا Extraordinary Man ہی ہوگا“ ۔ یہ واقعہ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے برطانوی حکومت کی طرف سے مرتب کی جانے والی 12 جلدوں پر مشتمل کتاب ”ٹرانسفر آف پاور“ میں درج ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے تحت اکٹھا کرنے والی اس تاریخ ساز ہستی نے پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے بارے میں شاید مختلف انداز سے سوچنا شروع کر دیا تھا۔

حکومت پاکستان کے تحقیقی ادارے ”قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت“ کی طرف سے معروف مؤرخ پروفیسر سید ذوالقرنین زیدی کی شائع کردہ کتاب ”قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں“ میں لکھا ہے کہ ”جناح ریاست قلات کے سرکاری وکیل تھے اور خان آف قلات احمد یارخان سے ان کی ذاتی دوستی بھی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے خان آف قلات کو اپنے ذاتی مہمان کی حیثیت سے کراچی بلا بھیجا۔ خان آف قلات اس دعوت پر 21 روز تک بانی پاکستان کے مہمان رہے۔

مہمان نوازی کے دوران قائداعظمؒ نے خان آف قلات سے بہت سی باتیں ذاتی حیثیت میں کیں۔ خان آف قلات نے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظمؒ کا نظریہ مسلم لیگ کے بارے میں بدل گیا تھا، وہ مسلم لیگ کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں تھے، وہ اس کو خداحافظ کہنا چاہتے تھے۔ میں ان کے اس خیال سے متفق نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ آپ کانگریس کی طرف دیکھیں ہندوؤں نے اس کو پکڑا ہوا ہے، لیکن اگر آپ نے مسلم لیگ کو چھوڑ دیا تو ہمارے پاس اور کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔

میں نے برطانیہ کی لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی مثالیں بھی دیں۔ اس پر قائداعظمؒ نے فرمایا کہ مسلم لیگ جس مقصد کے لیے بنی تھی وہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ اب نئی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں، مسلم لیگ کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے“ ۔ محمد ایوب کھوڑو سندھ سے تحریک پاکستان کے نمایاں کارکن، آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن اور قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ تین مرتبہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنے اور وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں مرکزی وزیر دفاع بھی رہے۔

انہوں نے مسلم لیگ کے بارے میں قائداعظمؒ کی ذاتی رائے بتاتے ہوئے کہا کہ ”جناح صاحب نے مجھ سے خود فرمایا کہ مسلم لیگ پارٹی ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ تھی نہ کہ خود ایک مقصد تھا۔ مسلم لیگ کا مقصد حصول پاکستان تھا اور اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے تو مسلم لیگ کی کوئی ضرورت نہیں“ ۔ اترپردیش قانون ساز اسمبلی کے رکن، آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری اور تحریک خلافت کے ممتاز رہنما مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے صاحبزادے مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے بتایا کہ ”11 اگست 1947 ء کی تقریر کے حوالے سے قائداعظمؒ کے خیالات بھانپتے ہوئے حسین شہید سہروردی صاحب نے یہ تجویز دی کہ مسلم لیگ کا نام نیشنل لیگ رکھ دیا جائے“ ۔

ہم اگر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ دوراندیش قائداعظمؒ مسلم لیگ کے مستقبل کے بارے میں دور تک بہت کچھ دیکھ رہے تھے جس کا علم ہمیں بعد کے حالات سے ہوتا ہے۔ قائدؒ کے انتقال کے بعد بیشتر سیاسی رہنما اپنی سازشوں پر مسلم لیگ کی چادر تانے رہے اور ہر ڈکٹیٹر کے لیے مسلم لیگ گھریلو لونڈی ثابت ہوئی۔ قائداعظمؒ کے بعد گزشتہ 73 برسوں میں صرف نواز شریف نے مسلم لیگ کو کسی حد تک عوام کی سیاسی جماعت بنایا لیکن وہ بھی مسلم لیگ نون بن کر سامنے آئی جبکہ مسلم لیگ کے لیے خوشامدی مزاج پسند کرنے والے علیحدہ ہو کر اپنی اپنی مسلم لیگیں بناتے گئے۔

سرسریندر ناتھ بینرجی پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے 1876 ء میں ہندوستانیوں کی پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل ایسوسی ایشن بنائی جو بعد ازاں انڈین نیشنل کانگریس میں ضم ہو گئی۔ بینرجی اپنی آٹوبایوگرافی میں لکھتے ہیں کہ ”ہندوستانیوں کی پہلی سیاسی جماعت کا اجلاس 1876 ء میں منعقد ہوا جس میں پورے ہندوستان سے لوگ شریک ہوئے۔ سارا دن خوب بحث مباحثے ہوتے رہے۔ قراردادیں منظور اور نامنظور ہوتی رہیں۔ میں پوری کارروائی میں موجود تھا۔

شام کو جب اجلاس ختم ہو گیا تب میں نے حاضرین سے فوراً گھر جانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے میری اچانک رخصتی کی وجہ جاننا چاہی تو میں نے بتایا کہ آج صبح میرے بیٹے کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں اجلاس چھوڑکر نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ یہ ہندوستانیوں کے مفاد کا معاملہ تھا۔ لہٰذا سارے دن سے میرے بیٹے کی لاش گھر میں میری منتظر ہے۔ اب اجلاس ختم ہو چکا ہے اور میں گھر جاکر اپنے بیٹے کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتا ہوں“ ۔ آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت تھی۔ قائداعظمؒ کے ذاتی خیال میں اس کا کام مکمل ہو گیا تھا۔ لہٰذا اب کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی نام سے ملک کے ماتھے کا جھومر بن سکتی ہے۔ بس اس سیاسی جماعت کو قائداعظمؒ محمد علی جناح کے سیاسی افکار کو عملی جامہ پہنانے والا لیڈر چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments