لڑکیاں ماں باپ سے کیا چاہتی ہیں؟


آج کی میری ہی تحریر بالخصوص ان والدین کے نام ہے جنہیں صنف نازک کے ہر رویے پر تم بیٹی ہو کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ بیٹیوں کی خواہشوں کا احترام کرنا، اس کی اچھی تعلیم و تر بیت کرنا ہر والدین کی ذمہ داری ہے اور بے شک اس ذمہ داری کی احسن ادائیگی کا صلہ اجر عظیم ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔

”تم میں جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور اس نے ان کی اچھی تعلیم وتربیت کی تو وہ روز قیامت میرے ساتھ ہو گا۔“

اب ہمارے معاشرے میں اس سنت کی ادائیگی کی دوڑ میں سبھی والدین بیٹیوں کو اچھی تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد جو معاشرتی المیہ جنم لیتا ہے میرا لکھنا کا مقصد اس کو زیر بحث لانا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کہنے کو تو بیٹیوں کو سبھی حقوق میسر ہیں لیکن شاید جو قرض بیٹیاں ادا کرتی ہیں بہت سے لوگ اس سے ناواقف ہوں۔

ہمارے ہاں بیٹی کی تربیت کے دوران جن عوامل کو اہمیت دی جاتی ہے کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ تربیت کم اور تنقید زیادہ ہے۔ مثلاً ہمیں اکثر سننے کو ملتا ہے۔ زیادہ مت بولو کم گو بیٹیاں اچھی لگتی ہیں۔ جو کم گو ہے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں بول دو کچھ، منہ میں زبان نہیں ہے۔ مزید تلخ جملے جنہیں شاید ہماری تربیت سمجھا جاتا ہے مثلاً ایسے نہ بیٹھو، بڑوں کو مشورہ نہ دو، تم بیٹی ہو بیٹیاں ایسے نہیں کرتی، بیٹیاں ویسے نہیں کرتیں۔ جی ہاں! میں بیٹی ہوں اور ایک جیتا جاگتا انسان بھی۔

اب صاحب آپ ہی بتائیں اس میں تربیت ہے یا تنقید۔ خیر ہر شخص کی رائے دوسرے سے مختلف ہے پس عین ممکن ہے آپ ان چیزوں کو تربیت سمجھتے ہوں۔ ہر شخص آزادی رائے کا حق رکھتا ہے لہذا میری رائے سے اختلاف یا اعتراف آپ کی ذاتی رائے ہے۔

ان مراحل سے گزرنے کے بعد بھی بیٹیوں کو بڑے امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بیٹی کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ والدین کے گھر کو خدا حافظ کہنا ہوتا ہے۔ بیٹی کے لئے اچھا رشتہ تلاش کرنا والدین کی ذمہ داری ہے لیکن مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر اکثر والدین اپنے ادا کیے گئے فرائض کے بدلے میں اس کا مستقبل مانگ لیتے ہیں۔ اور پھر اس موقع پر بیٹی کا رویہ اس کی تربیت کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے۔

میں نے اکثر والدین کی جانب سے اس طرح کے کلمات سنے ہیں کہ بیٹیوں کے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ بیٹیوں سے کہا جاتا ہے! دیکھو ہم نے آج تک تمہاری ہر خواہش کا احترام کیا ہے اب ہماری خواہش کا پاس رکھ لو۔ اب کون بیٹی ہو گی جو والدین کی حکم عدولی کرے۔ اپنے کتنے ہی خواب چکنا چور کرنے پڑیں لیکن والدین کے خواب سلامت رہیں اس لئے خود اپنی ذات کی نفی کر دی جاتی ہے۔ اور میرے نزدیک اس سے بڑی قربانی شاید ہی کوئی دیتا ہو۔ یہاں پر بس یہ شعر کہنا چاہوں گی۔

عجب ڈھونگ رچا رکھا ہے بنت حوا سے محبت کا دنیا والوں نے
اپنے فرض کی ادائیگی کی قیمت بھی میرے خوابوں کی قربانی طلب کی

اکثر والدین اولاد کے جذبات اور احساسات سے ناواقف ہو کر اپنی پسند کی قبولیت کی امید وابستہ رکھتے ہیں۔ والدین کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کے لئے فلان فلاں قربانی دی ہے اب ہماری خواہش کا پاس رکھ لو۔ تو میری ایسے تمام والدین سے اپیل ہے کہ آپ کی قربانیوں کا صلہ ہمیں تو اب ہی ملنے کا وقت ہے۔

خدارا سوچئے کہ اب جب ہمیں ان قربانیوں کا صلہ ملنا ہے اس موقع پر ہر فیصلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ایسے وقت میں کوئی ایسا فیصلہ کر دیا جائے جس سے ہمارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں تو آپ کی قربانیاں اور اولاد کی محنت دونوں ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔

میری تمام والدین سے اپیل ہے خدارا اولاد کی زندگی کا فیصلہ کرتے وقت ان سے رائے ضرور لیں بور خصوصاً بیٹیوں کی رائے کا احترام کریں اگر بیٹی آپ کی امید پر پورا نہ اتر سکے تو اسے نافرمان نہ سمجھیں اور اگر وہ اپنی خواہش کا اظہار کرے تو اسے بے حیا ہونے کا ٹائٹل نہ دیں۔ بیٹوں کے بارے میں بھی فیصلہ کرتے وقت ان کی رائے کا احترام کریں لیکن چونکہ مرد کو مذہب اور معاشرہ دونوں آسانی فراہم کرتے ہیں لہذا بیٹیوں کی زندگی کے فیصلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دیں۔

اگرآپ ہی اولاد کی رائے کا احترام نہیں کریں گے تو وہ اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کے حل کے لئے کوئی اور سہارا تلاش کریں گے۔ میری ذاتی راے کے مطابق اس وقت معاشرے کے زیادہ تر المیے والدین اور اولاد کے مابین روابط کی کمی ہے۔

خدارا اپنی خاندانی اور معاشرتی زندگی کی بہتری کے لئے اولاد کی رائے کو اہمیت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments