1947ء کے فسادات کیسے شروع ہوئے؟


تبادلہ آبادی کا بنیادی محرک مسلمانوں اور ہندو سکھ آبادی کے مابین تقسیم ہند کے آس پاس وقوع پذیر ہونے والے فسادات تھے۔ اس میں کوئی  شبہ نہیں کہ یہ فسادات آزادی کی جد و جہد کا حصہ نہیں تھے۔ ہماری نصابی کتابوں میں بار بار دہرائے جانے والا جملہ ’لاکھوں جانیں دے کر آزادی حاصل کی‘ قطعی طور پر حقیقت سے خالی ہے۔ آزادی کا فیصلہ مئی 1947ء کے آخری ایام میں مذاکرات کی میز پر ہو چکا تھا اور تین جون 1947ء کو آزادی کے منصوبے کا باقاعدہ اعلان کیا جا چکا تھا۔ فسادات کے زیادہ تر واقعات اس تاریخ کے بعد پیش آئے۔ آزادی انگریز سے لی جا رہی تھی اور فسادات ہندوستان میں بسنے والے مختلف مذہبی گروہوں میں ہو رہے تھے۔ 1946-47ء میں ہونے والے فسادات کا آزادی کی جد و جہد سے تعلق بعید از قیاس ہے۔

ان فسادات کی حتمی ذمہ داری کو ایک طرف رکھتے ہوئے بعض حقائق اور اشارات کا بیان ضروری ہے تا کہ تاریخ کے طالب علم ان کی روشنی میں مزید تحقیق کر سکیں۔ ہندو مسلم اور مسلم سکھ فسادات مختلف مرحلوں میں پیش آئے۔ ہندوستان کے مشرق میں مسلم اکثریتی منطقہ میں فسادات 16 اگست 1946ء کو کلکتہ میں شروع ہوئے۔ مشرقی بنگال کا علاقہ نواکھلی 10 اکتوبر 1946ء کو فسادات کی لپیٹ میں آیا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی بھی مسلم تھی۔ ملحقہ صوبے بہار میں فسادات 25 اکتوبر 1946ء کو شروع ہوئے جہاں ہندو آبادی اکثریت میں تھی۔ پنجاب کے شمال مغربی علاقوں مثلاً راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ، کہوٹہ، جہلم اور گوجر خان وغیرہ میں فسادات 4 مارچ 1947ء کو شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ مرکزی پنجاب کی طرف بڑھتے گئے۔ مشرقی پنجاب میں فسادات اواخر جولائی 1947ء میں شروع ہوئے اور ستمبر بلکہ اکتوبر 1947ء کے وسط تک جاری رہے۔ مشرقی پنجاب میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ وسطی ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان تہذیبی اور معاشی طور پر بالادست لیکن عددی اقلیت میں تھے، (مثلاً دہلی، پانی پت، گڑگاﺅں، لکھنو، میرٹھ، بلند شہر، بدایوں ، مظفر نگر) فسادات جولائی ، اگست 1947ء میں شروع ہوئے۔ یہ امر معنی خیز ہے کہ ہندوستان کے متعدد جنوبی صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد بے حد کم تھی مثلاً کیرالہ، گجرات، کرناٹک وغیرہ، وہاں فسادات بالکل رونما نہیں ہوئے۔

مسلم لیگ نے 29 جولائی کو بمبئی میں اپنے سالانہ اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ 16 اگست کو مطالبہ پاکستان کے حق میں ملک گیر مظاہرے کیے جائیں گے۔ حسین شہید سہروردی بنگال کی مسلم لیگی وزارت کے وزیر اعظم تھے۔ بنگال کا صدر مقام کلکتہ تھا جہاں ہندو آبادی کی اکثریت تھی۔ اگرچہ 29جولائی 1946 ءکو راست اقدام کا اعلان کرتے ہوئے قائداعظم نے پرامن مظاہروں کا عندیہ دیا تھا تاہم صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وہ خاصے جارحانہ موڈ میں تھے۔ ایک غیرثقہ روایت کے مطابق قائداعظم نے کہا تھا ”ہم ہندوستان کو تقسیم کریں گے یا اسے تباہ کر دیں گے“۔ (We shall have India divided or India destroyed )۔

بنگال کے گورنر فریڈرک جان بیروز نے 22اگست 1946 ءکو وائسرائے لارڈ ویول کے نام خفیہ چٹھی (IOR:L/P&J/8/655f.f95,96-107) میں 16 اگست اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی کچھ تفصیل بیان کی۔ ان کے مطابق مسلم لیگ نے کلکتہ میں اوچر لونی کی یادگار کے پاس شام چار بجے جلسے کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کو خطاب کرنا تھا۔ تاہم صبح دس بجے ہی سے پولیس ہیڈ کوارٹر میں کشیدگی کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں۔ شہر میں مسلم لیگی کارکن زبردستی دکانیں بند کرا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کی طرف آنے والے بیشتر افراد نے لوہے کی سلاخیں ، لاٹھیاں اور بلم اٹھا رکھے تھے۔ مسلم لیگی وزیروں نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کے لیے پٹرول کے کوپن بڑی تعداد میں تقسیم کیے تھے تاکہ ہندوﺅں کی دکانوں اور مکانات کو نذر آتش کیا جا سکے۔ دس ہزار کارکنوں کے لیے ایک مہینے کا راشن جمع کر لیا گیا تھا۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سہروردی اور ناظم الدین نے بیک وقت امن اور فساد کی باتیں کیں۔ سہروردی کا ایک جملہ یہ تھا کہ وہ ’پولیس اور فوج کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے‘۔ اس بظاہر سادہ جملے کا مشتعل اور ان پڑھ ہجوم نے یہ مطلب لیا کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہو گا۔ مرنجاں مرنج ہونے کی شہرت رکھنے والے خواجہ ناظم الدین نے حاضرین کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ’صبح سے اب تک ہونے والے لڑائی جھگڑے میں مجروح ہونے والے تمام افراد مسلمان ہیں‘۔

جلسہ ختم ہوتے ہی تقریباً ایک لاکھ نفوس کا ہجوم کلکتہ کی تنگ گلیوں اور گنجان علاقوں میں پھیل گیا۔ دن ختم ہونے سے پہلے چار سے چھ ہزار تک غیر مسلم شہری مارے جا چکے تھے۔ وزیراعظم سہروردی خود پولیس کے کنٹرول روم میں براجمان تھے۔ وزیراعظم کی موجودگی میں کمشنر پولیس مناسب احکامات جاری کرنے سے قاصر تھا۔ گورنر جان بروز وزیراعظم کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ بالآخر 21اگست 1946ء کو فوج طلب کی گئی۔ اس وقت تک امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست1946ء کی رپورٹ کے مطابق ’کلکتہ کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہو چکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ‘ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہو گیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔

یوم راست اقدام سے شروع ہونے والی چنگاری سلگتی رہی۔ فسادات کا اگلا اہم واقعہ نواکھلی میں پیش آیا (جو اب بنگلہ دیش کا حصہ ہے)۔ 10اکتوبر 1946 ءکو اس مسلم اکثریتی علاقے میں شروع ہونے والے فسادات کو اخبارات میں ”مسلم ہجوم کا منظم غیظ و غضب“ قرار دیا گیا۔ جلد ہی فسادات کی یہ آگ رائے پور، لکشمی پور، بیگم گنج، سندیپ، فرید گنج، چاند پور میں پھیل گئی۔ ہندو اخبارات نے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کی۔ مسلم اخبارات نے سرے سے فسادات ہی سے انکار کر دیا۔ سرکاری طور پر 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ تاہم فسادات کے بعد نواکھلی میں کوئی ہندو شہری نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا تھا۔

دو ہفتے بعد بہار کے مسلم اقلیتی صوبے میں یوم نواکھلی منایا گیا۔ اس روز یعنی 25 اکتوبر 1946ء کو بہار کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بہار میں مذہب کے نام پر مسلمان باشندوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس کا ذکر بھی انسانیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پٹنہ ، مونگر اور بھاگل پور کے اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ بہار میں فسادات کے بعد باچا خان مہاتما گاندھی کے ساتھ بہار کے دورے پر گئے اور وہاں قتل و غارت کے مناظر دیکھ کر کانگرسی قیادت پر پھٹ پڑے تھے۔ اگست 1947 ءسے فروری 1948 ءتک حسین شہید سہروردی سائے کی طرح گاندھی جی کے ہمراہ رہے تھے تو یہ محض امن کی محبت نہیں تھی۔ انہیں امید تھی کہ گاندھی جی کے ساتھ رہنے سے شاید ان کی جان بچ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments