ویلنٹایئنز ڈے: ملتان کے جوڑے ’مٹھو‘ اور ’مٹھی' کے لیے بہت کچھ بدلا، مگر کیا محبت بدلی؟


مختار احمد اور شاہین اختر
ایک مرتبہ ان کی زندگی اُس وقت بدلی جب ان کی اہلیہ مسلسل نویں مرتبہ بچہ ضائع ہونے کے صدمے سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ ان دنوں مختار احمد کا پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنا کاروبار تھا اور وہ اپنی اہلیہ شاہین اختر کا حمل گرنے کی بیماری کا علاج اچھے ہسپتالوں سے کروا رہے تھے۔

مگر اب شاہین اختر کو علاج ہی کی نہیں، سہارے کی بھی ضرورت تھی۔ وہ خود کو نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ خود کلامی کرنے لگتیں اور اکیلے گھر سے نکل پڑتی تھیں۔ وہ اپنی ضروریات سے بھی مکمل بے خبر تھیں۔

یہ وہی شاہین اختر تھیں جو مختار سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ان کے انتظار میں رات دروازے سے لگ کر کھڑی رہتی تھیں۔ ہوش و حواس کھونے کے بعد بھی ’انھیں فکر ہوتی تھی کہ مختار احمد نے کچھ کھایا یا نہیں، اچھے کپڑے پہنے یا نہیں۔‘

مختار انھیں ایسی حالت میں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دونوں پیار سے ایک دوسرے کو ‘مٹھو’ اور ‘مٹھی’ بلاتے تھے اور تمام تر مشکلات کے باوجود اکٹھے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک ہندو اور مسیحی عورت کی دوستی، جو ایک ہی شخص سے پیار کرتی تھیں

’اللہ پاک نے لاکھوں میں ایک دی ہے میری بیوی‘

’ہم نے اپنی کہانی خود لکھی، کسی کو نہیں لکھنے دی‘

مختار احمد کو امید تھی کہ علاج معالجے کے ساتھ شاہین جلد بہتر ہو جائیں گی۔ مگر ان کا شیزوفرینیا کا مرض بگڑتا گیا۔

مختار اب انھی کے خیال میں لگے رہتے۔ اس طرح پہلے ان کا کاروبار متاثر ہوا اور پھر چھوٹ گیا۔ وہ اہلیہ کو لیے آبائی شہر ملتان واپس چلے آئے۔ یہاں آبائی گھر تھا اور ابتدا میں چھوٹے موٹے کام سے گزر چلتا رہا مگر دن نہ بدلے۔

بارہ برس قبل انھیں گھر میں اپنا حصہ بیچنا پڑا۔ اس سے ملنے والی رقم بھی چھ برس میں ختم ہو گئی۔ چند برس قبل حالات اس نہج پر پہنچے کہ مختار احمد اور شاہین اختر سڑک پر آ گئے۔ ان کے پاس کھانے تک کے لیے پیسے نہ تھے۔ کچھ تگ و دو کے بعد ایک بھانے میں ایک کمرہ ملا جس کی چھت جلد ہی گر گئی۔ وہ چھت بنوانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔

گذشتہ تین برسوں سے وہ دونوں سخت جاڑے کی راتیں اور گرمیوں کے دن کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور تھے۔ ان تمام برسوں میں مختار احمد نے شاہین اختر کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

گذشتہ برس جب بی بی سی نے ان سے ملاقات کی تھی اور ان کی کہانی دیکھ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ان سے رابطہ کیا تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔

تاہم یہ وہ دن تھے جب کورونا وائرس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہو چکا تھا۔

کاروبار اور لوگوں کا میل جول بند ہو رہا تھا۔ مختار احمد رکشہ چلاتے تھے اور ان کا کام بے حد زیادہ متاثر ہوا تھا۔

تو کتنے لوگ ان کی مدد کو پہنچ پائے اور کورونا کے مشکل وقت میں انھوں نے گزر بسر کیسے کیا؟ کیا وہ دونوں آج بھی ساتھ تھے؟ اور اگر تھے تو کیا اب بھی وہ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور تھے؟ بی بی سی نے حال ہی میں ان سے ملاقات کی۔

‘مٹھو’ اور ‘مٹھی’ اب کہاں ہیں؟

مختار احمد اور شاہین اختر

ملتان کے علاقے غازی آباد میں اسی بھانے میں جہاں وہ رہتے تھے ان کا کمرہ اب پلستر ہو چکا تھا۔ اس کے اوپر چھت موجود تھی۔ کمرے کے باہر ایک بلب لگا تھا اور دروازے کے سامنے ان کا رکشہ کھڑا تھا۔ اندر وہ دونوں ایک ڈبل بیڈ پر بیٹھے تھے۔ پاس وہی گیس والا چولہا پڑا تھا جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھا۔

کمرے میں سامان اسی طرح بکھرا تھا لیکن اب اس میں اضافہ ہو چکا تھا۔ دروازے کے ساتھ ایک کولر پنکھا رکھا تھا جبکہ ان کے پرانے بوسیدہ ٹی وی کے نیچے ایک پرانی ٹرالی موجود تھی۔ اس پر کیبل لگ چکی تھی۔ چھت سے بھی ایک پنکھا لٹک رہا تھا۔

مختار احمد چولہے پر کھانا تیار کر رہے تھے۔ کھانا چمچ سے شاہین اختر کو کھلاتے ہوئے انھوں نے پوچھا ‘کھانا مزیدار ہے؟’ ان کی اہلیہ نے جلدی جلدی نوالہ چباتے ہوئے نظریں جھکائے اسی انداز میں جواب دیا ‘ہاں مزیدار ہے، میرے مٹھو نے پکایا ہے۔‘

‘اب یہ مشہور ہو چکی ہے گاڑی’

مختار احمد اب بھی وہ رکشہ چلاتے ہیں اور شاہین اسی طرح اب بھی ان کے ساتھ ہی کام پر جاتی ہیں۔ لیکن انھوں نے بتایا کہ ’اب یہ مشہور ہو چکی ہے گاڑی۔ لوگ ہمیں دیکھتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں کہ یہ تو وہی ہیں جو فیس بک پر آتے ہیں۔‘

مختار احمد نے بتایا کہ ان دونوں کو پہچان کر لوگ ان کے ساتھ کرائے پر بحث نہیں کرتے اور فوراً بیٹھ جاتے ہیں۔ ‘بلکہ جاتے ہوئے سو پچاس (روپے) زیادہ دے جاتے ہیں۔’

مختار احمد

ایک برس قبل زیادہ تر لوگ شاہین اختر کو ساتھ دیکھ کر ان کے رکشے میں بیٹھنے میں ہچکچاتے تھے۔

شاہین اختر کو کھانا کھلاتے ہوئے مختار احمد نے بتایا کہ تین برس میں پہلی مرتبہ انھوں نے سردیاں بند کمرے میں چھت کے نیچے گزاری ہیں۔ یہ چھت انھیں لوگوں کی امداد سے ملی تھی۔

’بی بی سی پر ویڈیو دیکھنے کے بعد بہت سے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘

‘اب بھوکا سونے کا ڈر نہیں’

مختار احمد نے بتایا کہ کسی نے کمرے کی چھت ڈلوا دی تھی تو کسی نے دیواروں پر پلستر کروا دیا۔ ایک صاحب نے غسل خانہ بنوا دیا۔ ‘پہلے کپڑوں سمیت نہاتے تھے، اب یہ ہے کہ پردے میں آرام سے نہا سکتے ہیں۔’

مدد کرنے والے ان افراد میں سے کچھ نے انھیں ایک ڈبل بیڈ اور کولر پنکھا بھی خرید کر دیا۔ اس سے قبل جس ٹوٹی چارپائی پر وہ سویا کرتے تھے وہ آج بھی ان کے کمرے میں موجود تھی۔ اس ایک برس کے دوران انھیں یہ فکر بھی نہیں کرنا پڑی کہ پیسے نہ ہوئے تو فاقہ نہ کرنا پڑے۔

انھیں وہ وقت یاد ہے جب انھیں اور شاہین اختر کو پیسے ختم ہونے کی وجہ سے کئی بار بھوکا سونا پڑا تھا۔ ’ایک ڈاکٹر صاحب ہیں انھوں نے ہمارے لیے مہینے کی سبزی لگوا رکھی ہے۔ ہم سبزی لے لیتے ہیں اور مہینے کے آخر میں وہ سبزی والے کو ادائیگی کر دیتے ہیں۔‘

‘بینک میں رکھے ہیں، کام آئیں گے’

مختار احمد اور شاہین اختر

مختار احمد نے بتایا کہ ان کی زیادہ مدد ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے کی۔ ایک صاحب جو اپنا نام سامنے نہیں لانا چاہتے تھے انھوں نے مختار احمد اور شاہین اختر کے لیے خاطر خواہ رقم بھجوائی۔

’ان ہی کے پیسے ہم نے بینک میں رکھوا دیے ہیں کہ مشکل وقت میں ہمارے کام آ جائیں گے۔‘ مختار کہتے ہیں ان صاحب نے ان سے کہا کہ ‘میری اور آپ کی کہانی ملتی جلتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اب بھی سب کچھ ہونے کے باوجود ایک ہی کمرے میں رہتا ہوں۔‘

ایک اور شخص نے شاہین اختر کی چار ادویات میں سے ایک دوا ہر ماہ خرید کر دینے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ باقی تین مختار احمد کو خود خریدنا پڑتی ہیں۔ ’اسی کے بندوبست میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی گاڑی چلاتے ہیں اور کبھی آرام کر لیتے ہیں۔‘

’کورونا کے بعد رابطے منقطع ہو گئے’

ان کا معمول اب بھی وہی ہے۔ ناشتہ کر کے دونوں اکٹھے رکشہ لے کر کام پر نکلتے ہیں۔ جوں ہی دو سے تین سو روپے جمع ہو جائیں تو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ’یہ گنتی رہتی ہیں کہ جیسے ہی ہمارے گزارے کے پیسے اکٹھے ہوئے، گھر چلے جاتے ہیں ہم۔ بس گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔‘

مختار احمد اب بھی شاہین اختر کے تمام کام کرتے ہیں۔ ان کے سر میں تیل ڈال کر بال سنوارنا، ان کے لیے کھانا پکانا اور پھر کھلانا، انھیں دوا دینا، ان کے کپڑے وغیرہ دھوتے ہیں اور پھر وہ ان کی باتیں سننا اور ان کے بے شمار سوالوں کے بار بار جواب دینا۔

مختار احمد نے بتایا کہ جب گذشتہ برس لوگ ان کی مدد کرنے کے لیے رابطے کر رہے تھے تو انھی دنوں کورونا آ گیا۔ تو بہت سے یہ رابطے ٹوٹ گئے۔ ان میں ایک وہ صاحب بھی شامل تھے جنھوں نے ان دونوں کو نیا گھر لے کر دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

‘وہ آئے بھی تھی اور ایک گھر دیکھا بھی تھا ہم نے جو 28 لاکھ کا مل رہا تھا۔ انھوں نے کہا تھا وہ ادائیگی کر دیں گے۔’

تاہم انھی دنوں مختار احمد کا فون گم ہو گیا اور چند روز کے لیے ان سے رابطے کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد کورونا کی وجہ سے ان کا رابطہ دوبارہ ان صاحب سے نہیں ہو پایا۔

‘شکر ہے اب بھی صبح کام کے لیے نکلتے ہیں

تاہم مختار نے بتایا کہ جن زیادہ تر افراد نے ان سے رابطہ کیا وہ ان کے کمرے کی چھت ڈلوانا چاہتے تھے۔ جب چھت ڈل گئی تو اس کے بعد ان کی امداد کم ہوتی گئی۔ ‘جتنا خرچہ ہوا ہم کبھی نہیں کر سکتے تھے، لوگوں نے مدد کی۔’

تاہم انھوں نے رکشہ چلانا بند نہیں کیا تھا۔ ‘اب کوئی روز کی روٹی تو نہیں دے سکتا تھا۔ کام کے لیے شکر ہے اب بھی صبح نکلتے ہیں اور شام کو واپس آ جاتے ہیں۔’

تاہم کورونا کی وجہ سے انھیں ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا رہا۔ ‘لوگ باہر نہیں نکل رہے تھے تو سواری نہیں تھی۔ پندرہ پندرہ دن اور کئی مرتبہ تو ایک مہینہ بھی ہم گھر پر ہی پڑے رہے۔‘

ان دنوں میں لوگوں کی طرف سے کی جانے والی مالی امداد ان کے کام آئی۔

‘پاگل ہے بھی تو اس کے سامنے تو مت کہو’

شاہین اختر اسی طرح رکشے کی پچھلی نشست پر بیٹھی ان کے ساتھ کام پر جاتی ہیں۔ ان کی حالت کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ اس میں بہتری آئی ہے۔ ایک برس قبل ان سے ملاقات میں ان دونوں نے اپنے پسندیدہ ایک پنجابی گانے پر جھومر ڈالا تھا۔

اب دوبارہ ملنے پر شاید وہ یہ سمجھیں کہ دوبارہ اسی گانے پر جھومر ڈالنے کا وقت ہے۔ وہ اکیلے ہی گانا گنگناتے ہوئے اپنے دائرے میں گھومنے لگیں۔ اس مرتبہ مختار احمد ان کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔ انھوں نے شاہین کو ‘نہ مٹھی تھک جائے گی، بس کر’ کہہ کر روک دیا۔

‘اب یہ خوشی کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ دوبارہ آ گئے ہیں۔’ مختار سمجھتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ ‘اب تو یہ بہت ٹھیک ہو گئی ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ چار آنے رہ گئے ہیں وہ بھی جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔‘

تاہم انھیں اس بات کا دکھ ہے کہ لوگ ان کی اہلیہ کو دیکھ کر ‘پاگل’ کہتے ہیں۔

’معلوم نہیں لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی ہے بھی تو اس کے سامنے تو سے پاگل مت کہو کہ اس کو دکھ ہو۔‘

انھیں شکوہ ہے کہ ان کے رکشے میں سفر کرنے والے چند لوگ بھی شاہین کے سامنے انھیں پاگل کہہ دیتے ہیں۔

محبت وہ چیز ہے جو بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی

مختار احمد اور شاہین اختر

گذشتہ تین برسوں سے وہ دونوں سخت جاڑے کی راتیں اور گرمیوں کے دن کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور تھے

مختار احمد اور شاہین اختر کے سر پر چھت تو آ چکی ہے تاہم انھیں یہ یقین نہیں کہ کب تک رہے گی۔ جس کمرے میں وہ رہتے ہیں وہ کرائے پر ہے اور اگر مالک مکان نے خالی کروانا چاہا تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔

مختار احمد کہتے ہیں کہ کمرے کے مالک ‘انتہائی اچھے آدمی ہیں۔ انھوں نے ہمیں کہہ رکھا ہے کہ ہم جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں۔‘ تاہم انھیں یہ احساس ضرور ہے کہ یہ گھر ان کا اپنا نہیں، جیسا کہ کبھی ان کے پاس گھر تھا۔

وہ ان تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں جنھوں نے ان دونوں کی کسی بھی طرح مدد کی۔ ‘ہم دونوں آج بھی ان تمام لوگوں کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں۔’

مختار احمد کہتے ہیں کہ زندگی میں اگر کبھی کسی کے جیون ساتھی کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آ جائے تو دوسرے کو اسے چھوڑ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کی مشکل کو سمجھنا چاہیے اور تکلیف کو محسوس کرنا چاہیے۔

‘محبت تو وہ چیز ہے جو بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔ یہ وہ پودہ ہے جس نے بڑھنا ہے۔ ہم ان (شاہین اختر) کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp