زاہد ڈار بھی چلا گیا!


ادب کا شہر لاہور آج اداس ہے۔ بڑی دبیز دھند چھائی ہے۔ آسمان پہ چیلیں چکر کاٹ رہی ہیں اور سردی جاتے جاتے پھر لوٹ آئی ہے کہ اس شہر کے کتب بین اور قاری زاہد ڈار کی موت کا غم منا سکے۔

زاہد ڈار جیسے لوگ سردیوں ہی میں رخصت ہوتے ہیں۔ خزاں کی ایسی شاموں میں جب، لاہور کی سڑکوں پہ بیڑی پتے اور شیشم کے پتے اڑتے ہیں اور لوگ کشمیری چائے کے سماواروں کے پاس کھڑے ہو کے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔

ایسے دنوں میں، خشک پتوں سے اٹی سڑکوں اور گلابی چائے کی دکانوں پہ جب زاہد ڈار کی موت کی خبر سنائی دیتی ہے تو وہ بھی اس منظر نامے کا حصہ بن جاتی ہے۔ خزاں کا ہی ایک اور رنگ۔

یونیسکو نے کوئی ہفتہ بھر پہلے ہی لاہور کو ’شہر ادب‘ قرار دیا ہے۔ لاہور کی اس عالمی پہچان کے پیچھے جہاں بہت سے لکھنے والوں کا نام ہے ،وہیں ایک پڑھنے والے کا نام بھی ہے، زاہد ڈار۔

لاہور کے ادبی حلقوں میں کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جو زاہد ڈار کو نہ جانتا ہو۔ میں نے جس دور میں ان کو دیکھا، وقت کی برف نے ان کی بھنویں، پلکیں تک سفید کر ڈالی تھیں لیکن ہونٹوں پہ پھیلی، آنکھوں کے کونوں تک جاتی معصوم مسکراہٹ قائم تھی۔

آتی گرمیوں کے دن تھے، میں صدیقہ بیگم، مدیر ادب لطیف کے ساتھ انتظار صاحب سے ملنے گئی۔ انتظار حسین اور زاہد ڈار، بقول عصمت چغتائی کے، پیالی اور کنڈے کی طرح ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی شام کو انتظار حسین سے ملنے جائے اور وہاں کتابوں کے ریک کی بغل میں بچھی چوکی پہ زاہد ڈار بیٹھے نظر نہ آئیں۔

تعارف، تکلفات اور اخلاقیات برتے جانے کے بعد جب چائے کا دور چلا تو چائے کی پیالی پکڑتے ہوئے زاہد ڈار صاحب نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا،’میں نے آپ کا ناول پڑھا تھا،پہلا ناول، اس میں جو چوبرجی کوارٹرز کا ذکر ہے۔۔۔‘ اور اس کے بعد وہ پوری شام اسی کونے میں بیٹھے اپنے اس ادھورے جملے کا مزہ لیتے اور مسکراتے رہے۔

انتظار حسین کا انتقال ہوا تو مجھے زاہد ڈار کی فکر ہوئی کہ زاہد ڈار کا کیا ہو گا، وہ کہاں جائیں گے؟ ایک روز سلمیٰ اعوان صاحبہ نے زاہد ڈار کی تصویر لگائی۔ ’ریڈنگز‘ کے باہر اکیلے، ’بے کنڈے کی پیالی‘ کی طرح بیٹھے ہوئے۔

زاہد ڈار اب گئے زمانوں کا سایہ بن گئے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس جانا وہ کب کا چھوڑ چکے تھے۔ انتظار حسین گئے تو ان کا جیل روڈ والا گھر بھی بند ہو گیا۔ لے دے کے اب ’ریڈنگز‘ کی دیوار کے سائے میں بیٹھے نظر آ جاتے تھے۔

انھیں دیکھ کر گزرے ہوئے سب لوگ یاد آتے تھے اور ان کی تنہائی کو دیکھ کر انسان کی ازلی اور ابدی تنہائی کا دھیان آتا تھا۔

زاہد ڈار اس نسل کی باقیات تھے، جس نے پاکستان کو، بنتے، بستے، دو ٹکڑے ہوتے اور بدلتے دیکھا۔ رسمی تعلیم میٹرک کے بعد اس طرح جاری نہ رکھی، شادی نہ کی۔ کہاں رہتے تھے، کیسے گزارا کرتے تھے ہم میں سے اکثر نے نہ کبھی جاننا چاہا نہ انھوں نے بتایا۔

شاید وہ کسی سے محبت کرتے تھے۔ ان کی نظموں سے کسی ناآسودہ محبت کا پتا ملتا ہے۔

گونجتے گرجتے ہوئے راستے پر ایک عورت

گھر کی قید سے بھاگی ہوئی عورت

گرد سے اٹی ہوئی

تھکی ہوئی اور ڈگمگاتی ہوئی

اداس اور پریشان

دنیا کے اجنبی اور بے رحم راستے پر

ایک عورت

ماضی سے نالاں اور بیزار

مستقبل سے بے خبر

حال کے جنگل میں اکیلی

ایک عورت

ہر طرف لوگوں کے ہجوم

ہر طرف شور ہی شور

لیکن اس کے اندر خاموشی ہے

گونجتا گرجتا ہوا سناٹا

وہ عورت کہاں جائے گی

کیا وہ ڈر جائے گی

یہ عورت کون تھی؟ نہ کسی نے پوچھا نہ انھوں نے بتایا۔ ہم سب صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک قاری تھے۔ کتابیں پڑھنے کے رسیا۔ یہ لت ان کو ایسی لگی تھی کہ ہر لت چھوٹ گئی یہ لت نہ چھوٹی۔ اچھے وقتوں میں وہ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتے تھے۔ تب پاک ٹی ہاؤس بھی زندہ تھا اور اس کی جان سمجھے جانے والے بھی زندہ تھے۔

زاہد ڈار صاحب شاعر تھے۔ اپنی ڈائری، شعر میں لکھتے تھے۔ یہ ہی ڈائری غالبا صفدر میر کی کرم فرمائی سے’سب رنگ‘ کے ایڈیٹر حسن عسکری صاحب کے ہاتھ لگی اور ’مادھو‘ کے قلمی نام سے زاہد ڈار کا کلام منظر عام پہ آیا۔

’پوچھتے ہیں وہ کہ مادھو کون ہے‘ انتظار حسین کی تحریر سے یہ بھی پتا چل گیا کہ مادھو، در حقیقت زاہد ڈار تھے۔ زاہد ڈار نے اس کے بعد اپنے اصل نام سے شاعری کی۔ کتابیں پڑھنے اور شاعری کرنے کے علاوہ شاید انھوں نے محبت کی۔ زاہد ڈار جیسے آدمی محبت بھی محبوب کے حصول کے لیے نہیں کرتے اس لیے وہ تنہا رہے۔

شاید وہ تنہا تھے نہیں، ہو گئے تھے۔ ان کے دوست ایک ایک کر کے گزرتے گئے اور وہ تنہا ہوتے گئے۔ ہماری نسل نے جب انھیں دیکھا تو کتاب لیے کسی کونے میں اکیلے ہی بیٹھے نظر آتے تھے۔ پھر بینائی اتنی کم ہو گئی کہ وہ صرف کسی کونے میں بس اکیلے بیٹھے نظر آتے تھے۔

آج زاہد ڈار کی تنہائی ختم ہو گئی وہ اوپر آسمانوں پہ، اپنے دوستوں، ناصر کاظمی، ،انجم رومانی، شہرت بخاری صفدر میر، شاکر علی، انتظار حسین وغیرہ کے ساتھ بیٹھے چائے پیتے ہوئے فرشتوں سے ہم سب کے نامہ اعمال اور گناہوں کے کھاتے نکلوا نکلوا کے پڑھ رہے ہوں گے اور شرارت سے مسکرا کے انتظار حسین سے کہہ رہے ہوں گے، ’یہ جو اس میں چوبرجی کوارٹرز کا ذکر ہے۔۔۔۔‘

زاہد ڈار صاحب چلے گئے، لاہور میں موسم سرما جاتے جاتے لوٹ آیا تاکہ زاہد ڈار کو شایان شان طریقے سے رخصت کیا جا سکے۔ کیا پیارا شخص تھا کہ جس کو رخصت کرنے موسم تک لوٹ آتے ہیں۔

لاہور کا قاری چلا گیا، مرحوم نے پسماندگان میں اب تک لکھی گئی اور آئندہ زمانوں میں لکھی جانے والی سب کتابیں چھوڑی ہیں۔ آج لاہور اداس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).