آزادی انسان کا علمبردار: تھامس پین


انسانی آزادی کی تاریخ تھامس پین کا نام لیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جہالت، اوہام، تعصبات اور جبر کے اندھیروں میں انسان کا آزادی کی طرف سفر تکلیف دہ حد تک سست رہا ہے۔ آزادی کے لیے لڑنے والی لافانی ہستیوں پر انہی انسانوں نے پتھر برسائے ہیں جن کی بہتری اور ترقی کے لیے یہ مجاہد اپنا سر ہتھیلیوں پر لے کر نکلتے تھے۔ یہ عجیب لشکر ہے جس کے لئے فتح یا شکست دونوں صورتوں میں سنگ زنی انعام ٹھہراتی ہے۔ گالی اور دشنام کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ اپنے اپنے عہد میں ان لوگوں نے تنہائی، افلاس اور طرح طرح کے الزامات سہے، سب کچھ گنوا ڈالا مگر سچ کا پرچم جھکنے نہیں دیا۔ جب چند صدیاں گزر جاتی ہیں تو ان کے مجسمے چوراہوں کی زینت بنتے ہیں، ان کی قبروں پر پھول برسائے جاتے ہیں اور زمانہ نئے جوش و خروش کے ساتھ اسی قافلے کی نئی نسل کا گھیراؤ کرنے نکلتا ہے۔ ان بہادروں کی فہرست میں تھامس پین کا نام بہت اوپر آتا ہے۔

تھامس پین اٹھارہویں صدی کے برطانیہ میں غریب ماں باپ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کے ملک پر مطلق العنان بادشاہت کا غلبہ تھا۔ شہری آزادیوں کا نام تک نہیں تھا۔ معاشرے میں سماجی اونچ نیچ کا اس قدر زور تھا کہ لوگ جھوٹی ناموس اور نام و نمود کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتے تھے۔ پادری اور امرا دن رات شہریوں کے حقوق پاؤں تلے کچلتے تھے۔ انصاف کا نام لینا غداری سمجھا جاتا تھا اور ضمیر کی آزادی کو کفر گردانا جاتا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے معاشرے میں جنم لے کر تھامس پین کے دماغ میں سچی آزادی کی چنگاری کیسے پیدا ہوئی۔

اس نے زیادہ کتابیں نہیں پڑھی تھیں لیکن اس کے پاس ذہانت کی کمی نہیں تھی۔ اس نے رسمی تعلیم نہیں پائی تھی مگر اس کے پاس عقل کا توڑا نہیں تھا۔ اس کا جرات مند دل جھوٹے رکھ رکھاؤ سے کوسوں دور تھا۔ اسے پرکھوں کی غلطیوں اور نسل در نسل چلے آتے مقدس جھوٹ کا پول کھولنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ اسے تو صرف سچ سے محبت تھی اور سچے انسانی احترام کی تلاش۔ وہ اپنے ارد گرد نظر ڈالتا تو ہر طرف اسے نا انصافی نظر آتی تھی۔ عبادت گاہوں میں منافقت تھی، عدالتوں میں حرص کا سکہ چلتا تھا۔ تخت پر استبداد کا ڈنکا بجتا تھا۔ اور اس نے بے مثال جرات سے کام لیتے ہوئے طاقتور کے خلاف کمزور کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے خطاب اور اعزاز سے نوازے گئے مٹھی بھر امرا کے مقابلے میں کوچہ و بازار میں بسنے والی مخلوق کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ وہ خود بھی تو اسی طبقے میں پیدا ہوا تھا۔

37 سال کی عمر میں برطانیہ چھوڑ کر تھامس پین نے اس امید پر امریکہ کی راہ لی کہ وہ نئی دنیا میں ایک آزاد حکومت کے قیام کی کوشش کرے گا۔ اپنے آبائی وطن میں اسے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔ اس پر ترقی کے تمام راستے بند تھے۔ عوام اپنی زنجیروں سے چمٹے ہوئے تھے۔ کلیسا اور ریاست دو بھوکے شکروں کی طرح انصاف کی فاختہ کو گھونسلے ہی میں دبوچ لیتے تھے۔

نئے ملک میں تھامس پین کا کل سرمایہ تعارفی خط تھا اور اس کی بے پناہ ذہانت۔ اسے اور چاہیے بھی کیا تھا؟ برطانوی تسلط میں گرفتار امریکی نو آبادیاں انصاف کے لیے کراہ رہی تھیں تاہم ابھی تک آزادی کے مقابلے نے واضح شکل اختیار نہیں کی تھی۔ اہل امریکہ کو اب بھی امید تھی کہ وہ برطانیہ کے احمق اور نیم پاگل بادشاہ، جارج سوم کا دل موم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تھامس پین نے ”عقل سلیم“ (Common Sense) کے نام سے ایک مختصر سا کتابچہ لکھا جس میں پہلی بار برطانوی تسلط سے مکمل آزادی کی بات کی گئی تھی۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک مختصر سی تحریر نے اتنے کم وقت میں ایسے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہوں۔ تھامس پین نے اس چھوٹے سے پمفلٹ میں زور دار دلائل، بحث اور ناقابل تردید منطق غرض کہ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کا لاوا انڈیل دیا تھا۔ جہاں حال کے لیے امید کا پیغام تھا وہاں پر وقار مستقبل کی امید بھی تھی۔ وسیع و عریض امریکی کالونیوں کے کونے کونے میں اس تحریر پر زور دار عمل پیدا ہوا اور چند ہی مینوں میں بر اعظمی کانگرس نے برطانوی تسلط سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ کے اعلان آزادی کے لیے کسی فرد واحد نے تھامس پین سے زیادہ موثر کردار ادا نہیں کیا۔ برطانیہ عظمیٰ پر اس کے زور دار تابڑ توڑ حملے دراصل مطلق العنان بادشاہت کے خلاف احتجاج تھے۔ تھامس پین اپنے طاقتور قلم سے ثابت کر رہا تھا کہ انسانی سماج میں جمہوری حکومت ہی بہترین نظام حکمرانی ہے۔

بہت سے مبصرین کے خیال میں تھامس پین سے بہتر سیاسی تحریر لکھنے والا آج تک پید انہیں ہوا۔ اس کی روح اپنی پوری توانائی کے ساتھ اس کے قلم میں اتر آئی تھی۔ امارت، عہدے اور اقتدار کے تام جھام کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس کے فطین ذہن میں واقعات و حقائق کی تہیں پیاز کے چھلکوں کی طرح اترنے لگتی تھیں۔ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی انتھک لگن نے اس کے دماغ میں روشن خیالی کا جامع نمونہ ترتیب دیا تھا۔ سچائی کا جو رخ اس کی عقابی نگاہ میں آ جاتا تھا وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیتا تھا۔ امریکہ کی جدوجہد آزادی کے تاریک ترین برسوں میں بھی اس پر مایوسی کا سایہ نہیں پڑا۔ براعظم کے کونے کونے میں اس کے جرات مند خیالات زور دار نقارے کی طرح گونجتے تھے۔ راتوں کو پڑاؤ کرنے والے فوجی الاؤ کے گرد بیٹھ کر ”عقل سلیم ’کے اوراق اونچی آواز میں پڑھتے تھے، تو یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ ان کے جسموں میں پیدا ہونے والی حرارت الاؤ کے شعلوں سے آ رہی ہے یا تھامس پین کے لفظوں سے۔

تھامس پین نے صرف آزادی، کا جذبہ ہی بیدار نہیں کیا اس نے جذبے کو زندہ رکھنے کی بھی انتھک کوشش کی۔ اس کا دل آزادی کے لیے لڑنے والوں کی شکست، خطرات اور فتوحات کی سرگم پر دھڑکتا تھا۔ بحران کے عروج پر اس نے ایک اور کتابچہ لکھا ”امریکی بحران“ جس کا تمہیدی جملہ آج تک انسانی آزادی، مساوات اور احترام کے لیے لڑنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ”یہ آزمائش کی وہ گھڑی ہے جس میں ہمارے اندر کے انسان کی قامت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو گی۔ ہلکی دھوپ اور پایاب موجوں کے متلاشی گھروں میں بیٹھ رہیں گے۔ لیکن جو اس گھڑی میں اپنے وطن کی حفاظت کرنے نکلا اسے عورتوں اور مردوں کی آنے والی تمام نسلوں کا لازوال احترام نصیب ہو گا۔“

بغاوت کے الزام کا جواب دیتے ہوئے تھامس پین نے کہا ”باغی تو وہ ہے جو عقل اور انصاف کی بات کو جھٹلاتا ہے۔ ایک ایسے شخص سے بحث کرنا جس نے واقعات و حقائق سے نتائج اخذ کرنے میں عقل اور دلیل کو تج دیا ہو ایسے ہی ہے جیسے کسی لاش کے منہ میں دوا ڈالنا۔“

تھامس پین کی تحریر میں چھوٹے چھوٹے سادہ جملے ہوتے تھے مگر عقل اور منطق سے بھرپور۔ وہ عام طور پر حکم لگانے کی بجائے ایسے سادہ سوال اٹھاتا تھا جن کا جواب سادہ سے سادہ پڑھنے والے کے لیے بھی واضح ہوتا تھا۔ وہ اپنے مفروضات اس سادگی سے بیان کرتا تھا کہ ان کے منطقی نتائج سورج کی طرح چمکنے لگتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments