کیا چیف جسٹس مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں؟


پاکستان بار کونسل، قانون دانوں اور سیاسی حلقوں کی طرف سے چیف جسٹس گلزار احمد کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریمارکس پر شدید تحفظات سامنے آنے کے بعد یہ سوال سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس معاملہ میں مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے۔ چیف جسٹس نے ان حالات میں اپنی پوزیشن واضح نہ کی اور جمعرات کو جاری کیے گئے فیصلہ کی تفصیلی وجوہات پیش نہ کی گئیں تو ایک غلط فیصلہ سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی غیر جانبداری داغدار ہوگی۔

پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ نہایت تاریک ہے۔ نظام عدل میں دوررس اصلاحات میں ناکامی کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصہ سے عدالتی کارروائی کو میڈیا شوز پر چلنے والے ٹکرز کا محتاج بنا دیا گیا ہے۔ اس سے عدالت کی اتھارٹی، اعتبار اور وقار متاثر ہوا ہے۔ عدالتوں کے ججوں سے اعلیٰ ترین اخلاقی رویہ کی توقع کی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے زوال پذیر اور سماجی انحطاط کا شکار معاشرے میں یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج اخلاقی لحاظ سے ’رول ماڈل‘  بنیں گے۔ اس کے برعکس ٹی وی رپورٹنگ اور اخباری اطلاعات سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی شخصی انا اور اتھارٹی کے زعم میں اپنے دائرہ کار، مسلمہ طریقہ کار اور متوازن عدالتی روایت کو ترک کر رہے ہیں۔ یہ خبریں سامنے آتی رہتی ہیں کہ کس کمرہ عدالت میں کس جج نے کون سے اعلیٰ افسر، حکومتی عہدیدار یا بڑی شخصیت کو بلا کر توہین آمیز انداز میں گفتگو کی۔

یہ طریقہ ایک طرف عدالتی روایت کے برعکس ہے تو دوسری طرف اس سے انصاف فراہم کرنے کی بجائے عدالتوں کی ’دہشت‘  طاری کرنے کا تاثر عام ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملہ میں یدطولیٰ حاصل کیا تھا اور وہ اس حد تک چلے گئے تھے کہ سرکاری افسروں اور سیاسی لیڈروں کے فرائض میں براہ راست مداخلت کے مرتکب ہونے لگے تھے۔ سرکاری اداروں یا ہسپتالوں میں اچانک معائنہ کے لئے جانا اسی قسم کے طرزعمل میں شمار ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ازخود نوٹس لے کر اپنی ’بے پناہ اتھارٹی‘ کا اظہار بھی میڈیا میں جھوٹی اور سستی شہرت حاصل کرنے ہی کا طریقہ تھا۔ اس معاملہ کا یہ پہلو حوصلہ افزا ہے کہ ثاقب نثار کے بعد چیف جسٹس بننے والے آصف سعید کھوسہ نے سو موٹو کا طریقہ ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس کے طور پر گیارہ ماہ کی مدت میں ایک بھی سو موٹو نوٹس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ اس بات کا اظہار تھا کہ ثاقب نثار کے طرز عمل سے انصاف کی فراہمی کی بجائے عدالتی وقار کو ٹھیس پہنچی تھی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت ازخود نوٹس لینے میں احتیاط سے کام لیا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہی ’ڈیم فنڈ‘  کا ڈھونگ رچا کر ایک طرف قوم کو بے وقوف بنایا تو دوسری طرف ایک ایسے معاملے میں سپریم کورٹ کو ملوث کیا جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس طرح ملک کی منتخب حکومت کی اتھارٹی کو کم کرنے یا اسے اپنے آئینی اختیار سے محروم کرنے کا مذموم اقدام کیا گیا تھا۔ جنوری 2019 میں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم فنڈ کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا لیکن ان کے جانشین ججوں نے اس معاملہ کو چھیڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالانکہ ثاقب نثار کی روانگی کے ساتھ ہی ڈیم فنڈ کا معاملہ ختم ہونے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سپریم کورٹ بطور ادارہ اس فیصلہ کو درست نہیں سمجھتی۔ اصولی طور پر تو بطور چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ہی سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کو کسی بھی طرح اس غیر قانونی اقدام کی نشان دہی کرنی چاہیے تھی۔ تاہم اگر اس وقت چیف جسٹس کے انتظامی اختیار کے لحاظ میں یہ حوصلہ نہیں کیا جا سکا تو بعد میں عدالت عظمیٰ کو اس معاملہ کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر یہ طے کرنا چاہیے تھا کہ  ’عوام کی خدمت کے‘ جوش میں کوئی چیف جسٹس کس حد تک جاسکتا ہے۔

ان مثالوں سے محض یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کا چیف جسٹس باقی ججوں سے زیادہ اختیارات کا حامل نہیں ہوتا۔ اسے عدالت کے انتظامی امور دیکھنے اور بنچ تشکیل دینے کا اختیار ضرور ہوتا ہے لیکن بطور جج چیف جسٹس کا حق و اختیار بھی بنچ میں شامل دوسرے ججوں جتنا ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی معاملہ میں بنچ کے دیگر ارکان اگر چیف جسٹس کی رائے سے متفق نہ ہوں تو بنچ کا سربراہ ہونے کے باوجود چیف جسٹس کی رائے ایک جج کی رائے ہی شمار ہوگی اور اسے اقلیتی رائے تصور کیا جائے گا جبکہ فیصلہ اکثریتی ججوں کی رائے کی بنیاد پر ہوگا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں حکم جاری کرتے ہوئے اس نکتہ کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ چیف جسٹس نے ترقیاتی فنڈ کیس کے معاملہ میں پہلے کارروائی کو یک طرفہ طور سے سمیٹنے کا فیصلہ کیا اور بعد میں جو فیصلہ جاری کیا اس پر بنچ میں شامل باقی ججوں سے مشاورت کرنا یا انہیں اپنا اختلافی نوٹ لکھنے کی دعوت دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس انکشاف کے بعد جسٹس گلزار احمد کا کردار اور نیک نیتی دونوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وہ چونکہ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عظیم المرتبہ عہدے پر فائز ہیں لہذا ان کی دیانت پر اٹھنے والے سوال عدالت عظمیٰ کی پوزیشن کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار کو جو خط لکھا ہے اس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نہ تو بنچ میں شامل سینئیر جج کے طور پر انہیں اس فیصلہ کی نقل روانہ کی گئی اور نہ ہی اس معاملہ پر ان کی موافق یا مخالف رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔ بلکہ فیصلہ کی کاپی میڈیا کو فراہم کردی گئی جبکہ بنچ میں شامل جج کو مطلع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ اور قابل غور ہے کہ ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کا معاملہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی لوکل باڈیز انتخابات سے متعلق ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے اٹھایا تھا۔ انہوں نے اس پر کوئی حکم جاری کرنے کی بجائے چیف جسٹس سے اس معاملہ پر غور کرنے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس نے فوری طور سے پانچ رکنی لارجر بنچ قائم کیا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ کو بھی شامل کیا گیا۔ لیکن اس مقدمہ کی سماعت کے دوسرے ہی روز چیف جسٹس کو اچانک حکومتی وضاحت کافی محسوس ہوئی اور انہوں نے یک طرفہ طور پر مقدمہ نمٹانے کا حکم جاری کر کے عدالتی کارروائی معطل کردی۔ بعد میں جاری ہونے والے میں تحریری حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیر اعظم کے بارے میں کسی بھی معاملہ میں سماعت سے روک دیا گیا۔

پاکستان بار کونسل کے متعدد ارکان نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آئینی و قانونی معاملات کے ماہرین بھی یہ اقرار کر رہے ہیں کہ اس فیصلہ کی کوئی عدالتی نظیر نہیں ملتی۔ سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس فیصلہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ عدالت کے اعتبار اور احترام کے لئے اچھا فیصلہ نہیں ہے۔ اس سے پورا نظام انصاف مشکوک ہو جائے گا‘ ۔ پاکستان بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ نے کہا ہے کہ ’بار کے وائس چیئرمین و اراکین سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک ہم مرتبہ جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور وزیراعظم عمران خان کو باہم فریق گرداننا اور انہیں عمران خان کے بارے مقدمات کی شنوائی سے روکنا، آئین و قانون اور اخلاقیات و مراتب کے اصولوں کے منافی ہے‘ ۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے متفقہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان اور حکومت کے دائر کردہ ریفرنس کو بدنیتی سمجھتے ہوئے کالعدم قراردیا تھا۔ اب قاضی فائز عیسیٰ اور حکومت کے مابین کوئی معاملہ و تنازعہ وجود نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود عدالت عظمیٰ کے بنچ کی جانب سے بے بنیاد مفروضوں کی بنا پر اپنے معزز ساتھی جج کی دیانت و حلف کی پاسداری اور بلا امتیاز انصاف میں ان کے کردار پر انگشت نمائی کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے‘ ۔ منیر کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں چیف جسٹس کا فیصلہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے جو عدلیہ کی آزادی پر حملہ کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس کے افسوسناک فیصلہ کو ماضی میں سپریم کورٹ کے کردار اور ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں بھی پرکھا جائے گا۔ ملک میں یہ رائے مستحکم ہو رہی ہے کہ عسکری ادارے نہ صرف سیاسی معاملات سے دستبرداری کا عملی مظاہرہ کریں بلکہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں پر افسوس کا اظہار بھی کیا جائے۔ ملک میں آمریت مسلط کرنے کا الزام اگرچہ براہ راست ماضی میں فوج کے متعدد سربراہوں پر عائد ہوتا ہے لیکن ہر زمانے میں سپریم کورٹ نے کسی نہ کسی عذر پر مارشل لا یا ایمرجنسی لگانے کے فیصلہ کی توثیق کی تھی۔ جس طرح عسکری اداروں نے کبھی ماضی میں کیے جانے والے سنگین غیر آئینی اقدامات پر پشیمانی کا اظہار نہیں کیا، اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی اپنے ماضی کے کردار کو کھنگالنا ضروری نہیں سمجھا۔ حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا پر نظر ثانی کیس میں عدالت عظمیٰ کو یہ موقع فراہم بھی ہوا تھا۔

ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے چیف جسٹس اور عدالت عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان بخوبی آگاہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں اسٹبلشمنٹ کے خلاف حوصلہ مندانہ فیصلہ دینے والے ایک ساتھی کو عزت و تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کے ساتھی جج مطعون کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی بی سی اردو کی اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ کے آئندہ ہفتے کے روسٹر میں قاضی فائز عیسی کو کسی بنچ میں شامل نہیں کیا گیا اور انہیں ’چیمبر ورک‘ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ویسے بھی جب چیف جسٹس ایک فاضل جج کو ملک کے انتظامی سربراہ کے بارے میں مقدمات سننے سے منع کریں گے تو عملی طور سے جسٹس قاضی حکومت سے متعلق کسی معاملہ پر غور نہیں کرسکیں گے۔

 متحدہ اپوزیشن حکومت کو نامزد اور ناکام کہتی ہے لیکن چیف جسٹس اسے ایک ایسے جج سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جو سخت سوال پوچھتا ہے اور مدلل اور ٹھوس جواب طلب کرتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف چیف جسٹس کا فیصلہ اسی روز سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر فیصلہ جاری دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ وزارت دفاع نے اسد درانی پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے، یہ درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔ کیا چیف جسٹس گلزار احمد کا فیصلہ بھی ایسی ہی کسی مجبوری کی تصویر پیش کرتا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments