کُو بمقابلہ ٹوئٹر: انڈیا کے حکام سماجی رابطوں کی مقامی طور پر بنائی گئی نئے ایپ کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟


کو ایپ
انڈینز کے فون پر اب یہ ایپ نظر آنے لگے ہیں
انڈیا میں سماجی رابطوں اور مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر اور انڈین حکومت کے مابین کشیدگی کے نتیجے میں ایک چھوٹا سا پیلے رنگ کا چوزہ بہت مقبول ہو رہا ہے۔

یہ چوزہ ‘کُو’ نامی اس مائیکرو بلاگنگ ایپ کا نشان ہے اور اس کو کہیں بڑے اور وسیع امریکی پلیٹ فارم ٹوئٹر کی جگہ سرکاری محکموں میں ترجیحی بنیادوں پر رائج کیا جا رہا ہے۔

ٹوئٹر کے ‘دوہرے معیار’

انڈین حکومت نے ٹوئٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کچھ اکاؤنٹس کو معطل کر دے جس کے متعلق اس نے دعوی کیا ہے کہ وہ فیک نیوز یعنی جعلی خبریں پھیلا رہے ہیں۔

اس نے ٹوئٹر پر ‘دوہرے معیار’ اپنانے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹوئٹر نے امریکہ کے کیپیٹل ہل کے محاصرے کے دوران غلط یا گمراہ کن معلومات پھیلانے کے خلاف تو کارروائی کی تھی لیکن 26 جنوری کو دہلی کے لال قلعے میں ہونے والے احتجاج کے دوران اسی طرح کے کام کرنے والوں کے خلاف اس نے وہ رخ اختیار نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کسانوں کی تحریک سے متعلق ٹوئٹر اکاؤنٹس پر پابندی کی وجہ کیا ہے؟

ٹوئٹر سے ہٹائے جانے والے لوگوں میں مقبول ایپ ’پارلر‘ گوگل سٹور سے غائب

سگنل، ٹیلی گرام کی مقبولیت میں اضافے سے واٹس ایپ کو فرق پڑے گا؟

ابتدائی طور پر ٹوئٹر نے ان احکامات کی تعمیل کی لیکن پھر اپنے فیصلے کو الٹتے ہوئے معطل اکاؤنٹس کو بحال کر دیا۔

حکومت نے جن اکاؤنٹس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی اس فہرست میں صحافیوں، نیوز ایجنسیوں اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے اکاؤنٹس شامل تھے۔

دریں اثنا انڈین حکومت کے حامی، بشمول حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاستدان، اس مطالبے کے حق میں ٹویٹ کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی رائے کے اظہار کے لیے ‘کُو’ کے نیا پلیٹ فارم کا استعمال کررہے ہیں۔

انھوں نے انڈیا میں ٹوئٹر پر پابندی لگانے کے لیے ہیش ٹیگس کا بھی استعمال کیا ہے۔

‘کُو’ کیا کرسکتا ہے؟

انڈین مائیکرو بلاگرز کے لیے ‘کُو’ کی خاص بات یہ ہے کہ اس وقت یہ پانچ قومی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی دستیاب ہے اور اس میں مزید 12 قومی زبانوں کو متعارف کرانے کے منصوبے ہیں۔

پچھلے سال مارچ میں لانچ کیے جانے والے اس پلیٹ فارم کو حکومت کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ خود انحصاری کا دعویٰ کرتی ہے۔

‘کُو’ بھی ٹوئٹر کی طرح ہی کام کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے آغاز کے بعد سے اب تک اسے 30 لاکھ سے زیادہ مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے جس میں سے ایک تہائی فعال صارف ہیں۔

‘کُو’ کی پشت پناہی کرنے والے کون ہیں؟

رواں ماہ کے شروع میں بنگلور میں واقع ‘کُو’ کی سربراہ کمپنی بومبینیٹ ٹیکنالوجیز نے اس منصوبے کے لیے 41 لاکھ ڈالر کا فنڈ اکٹھا کیا ہے۔

اس کے ایک اہم حمایتی موہن داس پائی ہیں جو کہ انڈیا کی بڑی آئی ٹی کمپنی انفسوس کے شریک بانی کے طور پر معروف ہیں اور بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کے بڑے حامی ہیں۔

اسے ‘میڈ اِن انڈیا’ کی ایپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ٹوئٹر پر بہت سے صارفین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسے چینی حمایت بھی حاصل ہے۔

لیکن ‘کُو’ کے چیف ایگزیکٹو اپرامیا رادھا کرشنا کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابتدائی طور پر کچھ چینی سرمایہ کاری ہوئی تھی، لیکن اب ایسا معاملہ نہیں ہے۔

پارلر

کیا 'کُو' انڈیا کا پارلر ہے؟

متعدد وزرا اور بی جے پی کے حامیوں نے انڈیا کے بنے اس ایپ کی حمایت کی ہے البتہ بہت سے لوگوں نے امریکہ کے سوشل میڈیا ایپ پارلر کے ساتھ اس کا موازنہ کیا ہے۔

پارلر نے ایک ‘فری سپیچ’ پلیٹ فارم کی حیثیت سے خود کو متعارف کرایا لیکن پھر وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ساتھ کیو اینون جیسے سازشی تھیوری گروپس اور دائیں بازوں کے خیالات رکھنے والوں میں بھی مقبول ہوگیا کیونکہ بہت سے افراد ٹوئٹر کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے۔

ٹوئٹر کے نقصان سے ‘کُو’ کا فائدہ ہے کیونکہ متعدد انڈین وزرا اور سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ کچھ مشہور شخصیات نے بھی وہاں اپنے اکاؤنٹ بنائے ہیں۔

ان کے بہت سارے حمایتیوں اور پیروکاروں نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے نئی ایپ پر اپنے اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

حال ہی میں انڈیا کے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ اس ایپ پر اب ان کے پانچ لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ ان کی وزارت کے اکاؤنٹ کے فالوورز کی تعداد پچھلے کچھ دنوں میں ایک لاکھ 60 ہزار سے سے زیادہ ہو چکی ہے۔

ایپ

رادھا کرشن نے ایک بیان میں کہا: 'ہم بہت ہی قابل ذکر شخصیات کے اسے اپنانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہیں اور اس کے ساتھ ہی پرجوش بھی ہیں کیونکہ حال ہی میں ملک کے اعلی ترین سرکاری دفاتر نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔'

گذشتہ ماہ ایک مقامی ٹیلی ویژن سٹیشن ریپبلک ٹی وی نے ‘کُو’ کے ساتھ ادارتی شراکت کا اعلان کیا تھا۔

یہ چینل انڈیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والا چینل ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن بی جے پی کے ساتھ شراکت داری کی بنا پر اس کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔

‘کُو’ پر بے حد مقبول ہونے والی چند پوسٹس کو چینل پر نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اور اس کے ٹی وی پروگرامز میں ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز کی تشہیر کی جاتی ہے۔

بعض لوگوں نے حکومت اور اس کے حامیوں کے ساتھ قریبی وابستگی کے سبب اسے چینی سوشل میسجنگ ایپ ’ویبو‘ سے مماثل قرار دیا ہے۔

ڈیجیٹل کارکن نکھل پہوا کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے خود انحصاری پر زور کے اثرات عالمی پلیٹ فارمز کے خلاف ہیں: ‘مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں انڈیا میں ایسا ہوسکتا ہے جہاں عالمی سطح کے پلیٹ فارم کام نہیں کریں۔

نکھل پہوا کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اس کے موثر ماڈریشن کی کمی کے سبب انتہاپسندانہ نظریات کا دروازہ کھل سکتا ہے کیونکہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘یہاں تک کہ اصل ناموں اور توثیق شدہ شناختوں کے تحت بھی نفرت انگیز مواد پوسٹ کیے جاتے ہیں۔’

‘کُو’ اور پارلر ہی ایسے ایپس نہیں ہیں جو ٹوئٹر کے حریف بن کر سامنے آئے ہیں۔ دوسرے پلیٹ فارمز جیسے مستوڈون اور ٹوٹر بھی سامنے آئے ہیں لیکن وہ اپنی جگہ بنانے اور وفادار صارف پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ویبو

مستوڈون نے سنہ 2019 میں اس وقت انڈیا میں مقبولیت حاصل کی جب ٹوئٹر نے ایک ممتاز انڈین وکیل کا اکاؤنٹ معطل کردیا گیا تھا۔

کئی ’روشن خیال‘ انڈینز اُس وقت مستوڈون کی طرف چلے گئے اور انھوں نے ٹوئٹر پر الزام لگایا کہ اس نے بغیر کسی وضاحت کے ان کے اکاؤنٹس بلاک کر دیے۔

لیکن جو لوگ ٹوئٹر کو چھوڑ گئے تھے ان میں سے بیشتر ٹوئٹر پر واپس آگئے۔

نکھل پہوا کہتے ہیں کہ ‘کوئی بھی ٹوئٹر کی سطح پر نہیں پہنچا ہے کیوں کہ اس سے ہمیں دنیا بھر کے صارفین کی جانب سے خبروں اور معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp