جہیز کا مسئلہ


گزشتہ ہفتے ڈیزائنر علی ذیشان کی جانب سے جہیز کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی گئی۔ اس حوالے سے علی ذیشان نے ایک تصویر بھی جاری کی جس کا مقصد ہماری نوجوان نسل میں جہیز جیسی لعنت کے خلاف آگاہی فراہم کرنا تھا۔ دراصل یہ تصویر ہمارے معاشرے کی صحیح طور پر عکاسی کرتی ہے۔ کیسے ایک عورت جہیز کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھائے سسرال جاتی ہے۔ اس تصویر اور آگاہی مہم کو جہاں عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا اور اس اقدام کی تعریف کی گئی وہیں دوسری جانب کچھ مرد حضرات اس موضوع سے توجہ ہٹانے کے لئے غیرضروری پوسٹ شیئر کرنے لگے جس کا موضوع سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں نے منفی رویہ کیوں اپنایا؟ اس کا ایک ہی جواب اور وجہ ہے ”پدرسری نظام“

ہم بدقسمتی سے پدرسری نظام میں رہنے والے لوگ ہیں، جہاں مرد کی طاقت کو ہی آخری اور اصل طاقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی پہلی سربراہ عورت ہی تھی، ہم بھول جاتے ہیں کہ زراعت کی ایجاد عورتوں نے ہی کی تھی۔ اسی طرح ایسے بہت سے کارنامے عورت کی ہی پیداوار ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پدرسری نظام دنیا کا پہلا نظام نہیں ہے، بلکہ یہ تو نجی ملکیت کے وجود میں آنے سے پھیلا اور اب تک اپنی برائیاں معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔

ایسے میں پدرسری ذہنیت کے غلام لوگ جو جہیز کی مہم کو منفی رنگ دینے کی کوششیں کر رہے ہیں، وہ عورتوں کے حقوق کی بات کیسے برداشت کر لیں؟

یہ جاننے کے لئے کہ جہیز کی وجہ سے پاکستان میں کتنی بچیوں کی شادیاں رک جاتی ہیں یا ان بچیوں کو جہیز کی وجہ سے مار دیا جاتا ہے، میں نے ریسرچ کی۔ مختلف این جی اوز اورذرائع سے ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان میں 95 فیصد سے زائد شادیوں میں بچیوں کو جہیز کے ساتھ سسرال رخصت کیا جاتا ہے۔ ہر سال 2 ہزار سے زائد خواتین کو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

جی ہاں، میں ایک بار پھر دہرا دوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے زیادہ شرح سے خواتین کو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل چہرہ۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر بھارت، تیسرے پر بنگلہ دیش اور چوتھے نمبر پر ایران موجود ہے۔ یہ ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد میں نے وزارت انسانی حقوق سے رابطہ کیا تاکہ حاصل شدہ ڈیٹا کو کنفرم کر لیا جائے، لیکن حیران کن طور پر ہماری وزارت انسانی حقوق کے پاس اس موضوع یعنی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو قتل کرنے کا مستند دیٹا ہی موجود نہیں تھا۔

ایک وقت کے لئے مجھے جھٹکا لگا اور میں سوچنے لگا کہ وزارت انسانی حقوق اگر اس معاملے پر اتنی غیر سنجیدہ ہے تو عام آدمی اس بارے میں سوچتا ہی نہیں ہوگا؟ یہ بات مجھے گزشتہ کئی دنوں سے اندر سے توڑ رہی ہے۔ ناجانے کتنے باپ ہوں گے جن کی بیٹیوں کی شادیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کینسل ہوگیں، ناجانے کتنے غریب باپ جنہوں گے جنہوں نے اپنی زندگی میں 3 وقت پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا ہوگا لیکن اس فکر میں ہوں گے کہ بیٹی کا لاکھوں روپے کا جہیز تیار کرنا ہے۔ معاشرے کی ان تمام تلخیوں کو ختم کرنے کے لئے ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا، آواز اٹھانی پڑے گی، تب ہی ایسی برائیوں سے چھٹکارا پایا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments