کہیں نوجوان ویلنٹائن منانا چھوڑ کر عید نہ ملنے لگیں
بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ عالمی، موسمی اور علاقائی تہوار منانے کی بجائے صرف مذہبی تہوار منائے جائیں۔ اس لیے وہ بیساکھی کے بھی خلاف ہیں، لوہڑی کے بھی اور بسنت کے بھی اور ان کے خلاف اسلام ہونے کے بارے میں دلائل کے طومار باندھ دیتے ہیں۔ علاقائی یا قدیم تہواروں میں تو سماجی موج میلہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اسلامی مذہبی تہوار میں رواج صرف عبادات کا ہوتا ہے۔
اب بالی عمریا ایسی ہوتی ہے کہ نوجوان عشق حقیقی کی بجائے عشق مجازی کے قائل ہوتے ہیں۔ انہیں جیتے جاگتے صنم پسند ہوتے ہیں۔ وہ ناچ گانا بھی چاہتے ہیں اور پارٹی کرنا بھی۔ یوں اسلامی تہواروں سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ جب وہ ساٹھ ستر برس کے ہوتے ہیں اور جوڑوں میں درد کی وجہ سے بھنگڑا ڈالنا ممکن نہیں رہتا تو پھر انہیں خدا یاد آتا ہے۔
ہاں بندہ اگر صوفی مزاج کا ہو تو قوالی سن کر حال کھیل سکتا ہے۔ اور قوال اگر نصرت فتح علی خان جیسا ہو تو کیا کہنے، پھر ہمارے میٹرک کے استاد جسے عشق حقیقی بتاتے تھے نوجوانوں کو نصرت کی آواز میں وہ عشق مجازی ہی سنائی دیتا ہے۔ یوں جسے روحانیت کی طلب ہوتی ہے وہ بھی مطمئن رہتا ہے اور جس کا دل عشق بتاں میں لگتا ہے وہ بھی سیر ہو جاتا ہے۔
یہ سب معاملات اپنی جگہ لیکن ہم اس فکر میں ہیں کہ اگر نوجوانی کے خمار میں ڈوبے لونڈوں نے اسلامی تہواروں سے بھی ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا تو کیا ہو گا؟ آپ نے قمر بدایونی کا یہ شعر سن رکھا ہو گا
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
اب خود سوچیں کہ ابھی تو ویلنٹائن پر نوجوان دور دور سے پھول شول پکڑا کر ہی خوش ہو جاتے ہیں، اگر وہ اپنے اپنے ظالموں کے ساتھ رسم دنیا، موقعے اور دستور کے مطابق عید منانے لگے تو کیا حال ہو گا۔ پھر کیا عید پر بھی پابندی لگا دی جائے گی؟ ویلنٹائن پر تو گلاب بردار نوجوان دور سے شناخت ہو جاتا ہے۔ ظالم کوئی عطر بیز مولوی تو ہوتا نہیں کہ اس سے عید ملنے کی زمانے کو خبر ہو جائے۔ کوئی لڑکا اپنے ظالم سے چپ چاپ عید مل آئے تو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا بشرطیکہ ظالم نے لپ سٹک کے معاملے میں احتیاط برتی ہو۔ یا پھر وہ خود ہی اپنی وال پر اس ظلم و ستم کی پوسٹ ڈال کر اپنی ٹکور کا بندوبست نہ کر لے۔
لوک دانش کہتی ہے کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ اور پنجابی لوک دانش اس کی مزید وضاحت کرتی ہے کہ من حرامی تو حجتیں ہزار۔ یعنی جوانی چھائی ہو تو کیا ویلنٹائن کیا عید، جشن منانے کا سامان یار لوگ کر ہی لیتے ہیں۔ بلکہ ہم اپنی جوانی کو یاد کریں تو ہمارے شیعہ دوست غمگین ترین مہینے محرم کا بھی بے صبری سے انتظار کیا کرتے تھے کہ کسی ظالم صنم سے ملاقات کی کوئی صورت تو بہم ہو اور ہم ان کی سنائی باتوں پر یقین کر کے اپنے حال پر افسوس کیا کرتے تھے کہ ہم محرم کی مجالس میں شامل کیوں نہیں ہوتے۔
یعنی غم ہو یا خوشی ہو، تہوار اسلامی ہو یا غیر اسلامی، نوجوان رسم دنیا کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ انہیں زیادہ دبائیں گے تو وہ دستیاب وسائل میں ہی من لگانے کا بندوبست کر لیں گے اور زمانے کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان یہ آفاقی حقیقت بیان کر چکے ہیں کہ بزرگ بچوں کو کسی کام سے منع کریں تو وہ کسی اور جگہ جا کر وہی کام کرتے ہیں۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).