انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: ڈیڑھ سال سے جیل میں بنا سماعت کے قید افراد کی رہائی کے منتظر کشمیریوں کی کہانی


عاشق احمد کی والدہ
Majid Jahangir/BBC
پانچ اگست 2019 کو جب انڈیا کی حکومت نے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کیا تو اس وقت کشمیر میں ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

اس بات کو ڈیڑھ برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں متعدد پر سنجیدہ قسم کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور وہ اب بھی جیلوں میں قید ہیں۔

حال ہی میں انڈین حکومت نے پارلیمان کو بتایا کہ عوامی سلامتی کے قانون یعنی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والے 180 افراد فی الحال جیلوں میں بند ہیں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یکم اگست 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر میں ایک قانون کے تحت 613 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

آگرہ کی جیل میں قید عاشق احمد راٹھیر

تیس سالہ مذہی رہنما عاشق احمد راٹھیر پلواما ضلع کے کنجاپور گاؤں کے رہائشی ہیں۔ سکیورٹی حکام نے انھیں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے سے دو دن پہلے حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے کچھ دن بعد عاشق احمد پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت الزامات عائد کیے گئے اور آگرہ کی سینٹرل جیل میں منتقل کر دیا گیا فی الحال وہ آگرہ کی جیل میں ہی قید ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر: بارہ مہینے، بارہ کہانیاں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: بچپن جو چھروں کی نذر ہوئے

’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شادی نہ کریں‘

عاشق احمد کے والد غلام نبی راٹھیر بتاتے ہیں کہ جب رات کے وقت سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان کے بیٹے کو گرفتار کرنے پہنچے تو ان کے گھروالے سو رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں، ’وہ گھر کی چار دیواری کے اندر تھے اور اونچی آواز سے بات کر رہے تھے۔ ہماری نیند کھل گئی۔ ہم نے دروازہ کھولا۔ میرا بیٹا عاشق اپنے کمرے سے باہر آ گیا۔ جب سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے عاشق کو دیکھا تو انھوں نے اسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم نے مزاحمت کی اور روکنا چاہا لیکن انھوں نے ہماری ایک نہیں سنی۔ انھوں نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور ہمیں منتشر کر دیا۔‘

اگلے دن عاشق کے خاندان والے مقامی پولیس سٹیشن پہنچے اور انھوں نے عاشق احمد سے ملاقات کی۔

عاشق احمد کے والدین

Majid Jahangir/BBC

غلام نبی بتاتے ہیں کہ ’دو دن بعد ہمیں معلوم ہوا کہ عاشق کو آگرہ سینٹرل جیل لے جایا گیا ہے۔ ایک مہینے بعد ہم آگرہ جیل گئے لیکن وہاں کے حکام نے ہمیں اپنے بیٹے سے ملاقات نہیں کرنے دی۔ جیل حکام نے ہمیں کہا کہ مقامی پولیس حکام سے تحریری اجازت لینا ہو گی۔ ہم چار دن آگرہ میں رہے اور ایک ملاقات کے لیے اہلکاروں سے گزارش کرتے رہے لیکن کسی نے ہماری نہیں سنی۔‘

غلام نبی اپنے بیٹے سے ملاقات کیے بغیر ہی کشمیر واپس آ گئے۔ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کی امید میں کافی رقم خرچ کرنے کے بعد آگرہ گئے۔اس کے بعد خراب موسم ، برف باری اور کورونا کی وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے سبب وہ تب سے اب تک آگرہ نہیں جا سکے ہیں۔

میں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا

عاشق احمد کے چھوٹے بھائی عادل احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم کورونا کی وبا کی وجہ سے خوفزدہ تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ عاشق کو اگر کچھ ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟ ہم ایک افسر سے دوسرے افسر کے دفتر کے چکر لگاتے رہے۔ کوشش بہت کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔‘

عاشق احمد کی والدہ راجہ بیگم کا کہنا ہے کہ ’وہ روزانہ پامپور کی جامع مسجد میں نماز پڑھاتے تھے اور ہفتے کے باقی دن کنج پورا گاؤں کی مسجد میں جاتے تھے۔‘

وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے بیٹے کو گرفتاری کے بعد سے نہیں دیکھا۔ کوئی ماں آپ کو بتائے گی کہ مہینوں تک اپنے بیٹے کو نہ دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے۔ میں ایک ماں ہوں اور ایک ماں کے پیار کی قیمت جانتی ہوں۔ میری عمر ہو گئی ہے اور میرے لیے اس سے ملاقات کرنے کے لیے آگرہ جانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیڑھ سال کے بعد میں نے حال ہی میں اپنے بیٹے سے فون پر بات کی۔ میں اس سے صرف ایک منٹ کے لیے بات کر سکی۔ میں دروازے کی طرف دیکھتی رہتی ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا بیٹا آئے گا۔ میں حکومت سے درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ وہ میرے بیٹے کو رہا کر دیں۔‘

عاشق احمد کی اہلیہ غزالہ کہتی ہیں کہ ’جب سے ان کے خاوند کو پبلک سیفٹی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ان کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔‘

غزالہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میری تکلیف کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میں بے بس ہوں۔ میرے لیے ہر دن ایک نیا بوجھ ہوتا ہے۔ میں سکون کی زندگی کیسے گزاروں جب میرا شوہر جیل میں ہے۔ میری دو سال کی بچی اپنے والد کو یاد کرتی رہتی ہے اور بار بار بابا بابا کہتی رہتی ہے۔‘

عاشق احمد نے اردو زبان میں ایم اے اور بی ایڈ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ غزالہ اپنے شوہر پر عائد تمام الزامات کی تردید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کو اچھی طرح جانتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے شوہر کو کبھی کوئی غیر قانونی کام کرتے یا کسی بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ایک عام سی زندگی گزارنے والے شخص تھے۔ تب بھی اگر حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہے توحکومت میری بچی اور میرے دکھ کو دیکھ کر انھیں معاف کر دے اور رہا کر دے۔‘

پولیس سپریٹنڈنٹ نے پلواما ضلعے کے مجسٹرٹ کے سامنے جو ڈوزیئر پیش کیا ہے اس کے مطابق عاشق احمد مقامی نوجوانوں کو شدت پسند گروپوں میں شامل ہونے کے لیے اکسا رہے تھے۔

پلواما ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے پبلک سیفٹی ایکٹ لگانے سے متعلق جو حکم جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق ’عاشق احمد کا آزاد رہنا ریاست کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ خطے کا ماحول پہلے ہی کشیدہ ہے۔‘

عادل احمد بتاتے ہیں کہ عاشق کو اس سے پہلے بھی دو بار حراست میں لیا گیا ہے لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ سنہ 2016 میں پولیس کی جانب سے درج کی گئی دو ایف آئی آر میں عاشق احمد کا ذکر ہے۔

پبلک سیفٹی یا عوامی تحفظ سے متعلق قانون کے تحت انتظامیہ کسی بھی شخص کو ’عوامی سطح پر امن برقرار رکھنے‘ کے لیے ایک سال بنا کسی مقدمے کے اور ’ قومی سلامتی برقرار رکھنے‘ کے لیے دو سال بغیر ٹرائل کے گرفتار رکھ سکتی ہے۔

عاشق احمد ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں جو جیل میں قید ہیں اور جموں و کشمیر میں اپنے گھر سے بہت دور ہیں۔

ملک میں اور عالمی سطح پر تنقید کے باوجود انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ ریاست میں حال ہی میں شدت پسندانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے یہ گرفتاریاں ضروری تھیں۔

حیات احمد بٹ

Imran Ali

حیات احمد بٹ کی کہانی

سری نگر کے صورا ضلع کے رہائشی 47 سالہ حیات احمد بٹ کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے دو مہینے بعد اکتوبر 2019 میں حراست میں لیا گیا تھا۔

پولیس نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ڈرامائی انداز میں پہلے انھیں حراست میں لیا اور پھر گرفتار کیا۔ پولیس ٹیم نے سادہ لباس میں پہلے انھیں صورا ضلعے میں ڈھونڈا اور پھر آنچر سے انھیں گرفتار کیا۔

حیات احمد کی اہلیہ مسرت پولیس کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں سبھی آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے مخالف تھے اور ان کے شوہر نے بھی ایسا ہی کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تو ہمارے علاقے کے لوگوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ میرے شوہر بھی اسی طرح کے ایک احتجاج میں گئے تھے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کی اور حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی۔ کچھ ہی دن بعد پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پہلے ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں تفتیشی مرکز میں ہمیں ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد انھیں سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا اور وہاں انھیں چھ ماہ کے لیے رکھا گیا۔ پھر انھیں جموں کی کوٹ بھلوال جیل بھیج دیا گیا۔‘

مسرت مزید بتاتی ہیں کہ ’ہماری مالی حالت ٹھیک نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہم ان کی گرفتاری کے بعد سے ان سے ملاقات نہیں کر سکے ہیں۔ میرے شوہر جو کماتے تھے اس سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اب جب وہ جیل میں ہیں تو ہمارے خاندان کی گزر بسر کیسے ہو گی؟ میرے شوہر کی گرفتاری کے بعد سے میرے دونوں بچوں کی ذہنی حالت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘

مسرت طنز کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم کس قسم کی جمہوریت میں رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم انصاف مانگنے جاتے ہیں تو ہمیں وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ ہمیں نہ تو ں انصاف مل رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہماری بات سن رہا ہے۔‘

پولیس نے ان کے خلاف لگائے گئی چارج شیٹ میں کہا ہے کہ حیات بٹ نے اپنے علاقے کے نوجوانوں کو آرٹیکل 370 کے خلاف احتجاج کرنے پر اکسایا ہے۔ اور وہ احتجاج کرنے والے افراد کے لیڈر تھے۔‘

پولیس نے یہ بھی کہا ہے سنہ 2002 میں بٹ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دستاویز کے مطابق کل 18 ایف آئی آر میں ان کا نام ہے۔

صورا کا علاقہ آنچر، ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے

حیات احمد بٹ کے اہل خانہ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پبلک سیفٹی ایکٹ کو ہٹانے کے لیے دراخواست دائر کی ہے۔ ان کے وکیل محمد اشرف کا کہنا ہے کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں۔

خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اس حفاظتی قانون کا استعمال حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کی آواز دبانے کے لیے کیا گیا ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے پروفیسر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں ’کہا جائے تو جموں و کشمیر میں ایک ایسا قانون موجود ہے جس کی بنیاد پر کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر سے کسی کو جیل بھیجنے کے لیے کسی جرم کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف شک کی بنیاد پر ہی ایک شخص کو بغیر کسی جرم کے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس قانون کے تحت حکومت کسی کو بھی تحویل میں لے سکتی ہے۔ اور جب آرٹیکل 370 کو ختم کیا تو حکومت اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو نہیں سننا چاہتی تھی۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھی کہ آرٹیکل 370 کی مخالفت نہ ہو۔ بعض لوگوں کو صرف شک کی بنیاد پر تحویل میں لیا گیا۔ لوگوں کو نہ صرف حراست میں لیا گیا بلکہ انھیں جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بھیجا گیا۔‘

کشمیر میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوامی تحفظ کے قانون کا غلط فائدہ اٹھایا ہے اور لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ریاض خاور کا کہنا ہے کہ ’ پانچ اگست 2019 کے بعد جو گرفتاریاں کی گئیں ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ زیادہ تر مقدمات میں لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ کسی بھی شخص کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے حکومت یا گرفتار کرنے والے اہلکار کے پاس یہ ثبوت ہو کہ وہ شخص اپنی سابقہ سرگرمیاں دہرائے گا۔ ان معاملات میں ہم نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ اگر کوئی شخص غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ متعدد معاملات میں عدالت نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والے لوگوں کو رہا کیا ہے اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ گرفتاریاں غیر قانونی تھیں۔

ریاض خاور کا کہنا ہے کہ 1990 سے اس قانون کا سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سال 2019 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں جموں و کشمیر کے انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ 20 نومبر کو حکومت نے پارلیمنٹ میں قبول کیا کہ ’پانچ اگست کے بعد سے 5161 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے ابھی تک 609 افراد جیل میں ہیں اور باقی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ‘

ابھی تک اس بارے میں واضح معلومات نہیں ہیں کہ ان میں کتنے لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے 144 کمر عمر بچے بھی ہیں۔

ستمبر 2019 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی کے سامنے پولیس کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ان 144 نو عمر بچوں میں سے 142 کو رہا کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp